صحافی کا بہیمانہ قتل…!

January 27, 2022

سالِ نو کے پہلے مہینے میں ملک بھر کی صحافی کمیونٹی شدید احساس عدم تحفظ کاشکارہوکر سڑکوں پر سراپا احتجاج ہے، لاہور پریس کلب کے باہر صحافی کے دن دہاڑے قتل نے ایک مرتبہ پھر پاکستان کو عالمی میڈیا کی منفی سرخیوں کی زینت بنا دیا ہے،اخباری رپورٹس کے مطابق نجی ٹی وی چینل سے منسلک کرائم رپورٹر حسنین شا ہ کوپریس کلب کے سامنے شملہ پہاڑی چوک پر نامعلوم موٹرسائیکل سواروں نے فائرنگ کا نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں وہ موقع پر ہی دم توڑ گئے، بہیمانہ قتل کی وجوہات کا تاحال پتا نہیں لگایا جاسکا ہے، تاہم پولیس نے روایتی طور پرذاتی دشمنی کا شبہ ظاہر کیا ہے،میری نظر میں صحافی کسی بھی معاشرے کا اہم نمائندہ ہوتا ہے جو اپنے قلم سے معاشرے کی بہتری کیلئے کوشاں رہتا ہے، اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی ادائیگی کے دوران سماج دشمن عناصر کا اس کو خاموش کرنے کی کوششیں کرنا سمجھ میں آتاہے لیکن صحافی کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکامی سمجھ سے بالاتر ہے۔بے شک مذکورہ قاتلانہ حملہ لاہور کی صحافتی تاریخ کا اندوہناک واقعہ ہے،مقتول حسنین شاہ لاہور پریس کلب سمیت دیگر صحافتی پلیٹ فارمز پر متحرک تھے، پریس کلب کے باہردن دہاڑے صحافی کے قتل کی خبرصحافتی حلقوں میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی جس نےسب کو شدیدبے چینی کا شکار کردیا ۔ اس حوالے سے میری صحافیوں سے گفتگو ہوئی ہے، انہوں نے خود کو اس واقعے کے بعدبہت زیادہ غیر محفوظ سمجھنا شروع کردیا ہے،ان کا کہنا ہے کہ پریس کلب کے سامنے قاتلانہ حملے نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان لگادئیے ہیں کہ امن و امان کی صورت حال کس قدر گمبھیر ہوتی جارہی ہے۔رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز ، کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس، انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس سمیت عالمی صحافی ادارے بھی اس واقعے کے بعد اپنی رپورٹس میں حکومتِ وقت سے صحافی کے قاتلوں کی گرفتاری سمیت مستقبل میں ایسے اندوہناک واقعات کی روک تھام کا مطالبہ کررہے ہیں، صحافی رہنماؤں کا موقف ہے کہ مقتول صحافی حسنین شاہ کے قتل کو ٹیسٹ کیس کے طور پر لیا جائے اوراس کیس کو ہائی پروفائل کیسز میں شامل کرکے قاتلوں کو فوری گرفتار کیا جائے، اگر

حکومت نے مجرمان کو فوری گرفتار نہیں کیا تواحتجاج کا دائرہ وسیع کردیا جائے گا۔میرا اس حوالے سے واضح موقف ہے کہ آزادی اظہار رائے جمہوری معاشرے میں بسنے والے ہر انسان کا بنیادی حق ہے، آج اکیسویں صدی کے ڈیجیٹل دور میںسچائی کو چھپانے کی خاطر صحافی کی جان لینا ایک نہایت قابل ِ مذمت فعل ہے،دنیا کے ہر معاشرے میں صحافیوںکا شمار معاشرے کے سمجھدار طبقے میں ہوتا ہے، وہ معاشرے کے ان افراد میں شامل ہیں جو اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر سماج دشمن عناصر کو بے نقاب کرتے ہیں،ایک جمہوری معاشرے میں جرائم پیشہ عناصر کو یہ حق نہیں دیا سکتا کہ وہ اپنے کالے کرتوتوں پر پردہ ڈالنے کیلئے کسی معصوم انسان کو زندگی سے محروم کردیں۔میں نے پہلےبھی عرض کیا تھا کہ آج عالمی منظرنامےمیں ایک طرف آزاد اور ترقی یافتہ ممالک ہیں تو دوسری طرف پسماندہ اور تیسری دنیا کے ممالک۔تمام آزاد،جمہوریت پسند، انسانی حقوق کے علمبردار اور خوشحال ممالک میں قدر مشترک وہاں کا میڈیا ہے جو آپ کو آزاد ملے گا۔اسی طرح دیگر ممالک جو مسائل کا شکار ہیں،جہاں افراتفری ہے،پسماندگی ہے، غربت ہے، انسانی حقوق کی پامالی ہے وغیرہ وغیرہ،وہاں عوام کی آواز دبائی جاتی ہے، عوامی مسائل اجاگر نہیںکئے جاتے، وہاں کا میڈیا سب اچھا دکھاتا ہے اور عوام کی آواز حکومتی حلقوں تک پہنچانے میں ناکام ہے یا اس کو ناکام کر دیا جاتا ہے۔ آج میں اپنا یہ موقف ایک مرتبہ پھر دہرانا چاہتا ہوں کہ پاکستان ایک جمہوری جدوجہد کے نتیجے میں آزاد ہوا تھا، قائد اعظم نے متعدد مواقع پر اس امر کی یقین دہانی کرائی تھی کہ پاکستان میں آزادی اظہار رائے کو یقینی بنایا جائے گا، بانی پاکستان کا کہنا تھا کہ دورِ جدید کی مہذب اور تعلیم یافتہ قوموں کا سب سے بڑا ہتھیار قلم ہے جس سے نہ صرف اپنا موقف منوایا جاسکتا ہے بلکہ قوموں کا مستقبل بھی یقینی طور پر روشن کیا جاسکتا ہے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ آج آزادی کی سات دہائیوں بعد ملک بھر کا صحافی شدید احساس عدم تحفظ کا شکارہے، نان اسٹیٹ ایکٹرز کے قاتلانہ حملے دنیا بھر میں پاکستان کو بدنام کرنے کا باعث بن رہے ہیں، یہ پانچ فیصد امن دشمن عناصر جب اور جہاں چاہتے ہیں، اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کیلئے کامیابی سے اپنا ایجنڈا آگے بڑھا لیتے ہیں جس سےپاکستانی قوم کی عالمی برادری کی نظر میں جگ ہنسائی ہوتی ہے۔ اس حوالے سے میں ملک کے اعلیٰ ریاستی اداروں بالخصوص اعلیٰ عدلیہ سے اپیل کرنا چاہوں گا کہ وہ لاہور پریس کلب کے سامنے نہتے صحافی کے حالیہ قتل پر نوٹس لیں اور لواحقین کو انصاف دلانے کیلئے اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔ مقتول صحافی حسنین شاہ کے قاتلوں کو فوری گرفتار کرکے انہیں کڑی سزا دینا صحافت کی آزادی کیلئے بہت ضروری ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)