نئے مشیر احتساب کی فوری تعیناتی، حکومتی کارکردگی یا حالات کا تقاضا؟

January 27, 2022

اسلام آباد (فاروق اقدس/نامہ نگار خصوصی) وزیراعظم کے نئے مشیر احتساب بریگیڈیئر (ر) مصدق عباسی جو اس سے پہلے نیب کے ڈائریکٹر جنرل کی حیثیت سے فرائض انجام دیتے رہے ہیں ،ان کی موجودہ ذمہ داریوں کا نوٹیفکیشن آج شہزاد اکبر سے استعفیٰ کے 48 گھنٹے سے بھی پہلے جاری کر دیا گیا ہے.

حکومت کی جانب سے اس ’’ برق رفتاری‘‘ کو غیر معمول کارکردگی قرار دیا جائے یا حالات کی نزاکت کا تقاضہ لیکن امر واقعہ ہے کہ شہزاد اکبر کی رخصتی کا حتمی فیصلہ کرنے سے پہلے ہی مصدق عباسی کو ’’ شارٹ لسٹ‘‘ کر لیا گیا تھا انکی سابقہ کارکردگی اور پروفیشنل ساکھ سمیت تمام معلومات کی تفصیلات حاصل کر لی گئی تھیں.

ایبٹ آباد سے تعلق رکھنے والے مصدق عباسی کے والد محمد صادق عباسی پاکستان مسلم لیگ سے تعلق رکھتے تھے اور علاقے کے لوگوں کی خدمات اور نیک نامی کی شہرت کے حامل صادق عباسی آخری دم تک مسلم لیگی رہے.

بریگیڈیئر (ر) مصدق عباسی جو دس سال سے زیادہ عرصے سے ریٹائرڈ زندگی گزار رہے ہیں اور اس عرصے میں ان کی جملہ مصروفیات کرپشن کے خلاف نتیجہ خیز طریقہ کار اور اقدامات مضامین اور تحقیقی کام رہا ہے، مصدق عباسی کرپشن کے مجرموں کے خلاف عبرتناک حد تک سخت سزائوں پر یقین رکھتے ہیں لیکن اس سے پہلے وہ مفصل، شفاف اور تکنیکی خامیوں سے پاک تحقیقات کی ضرورت پر بھی یقین رکھتے ہیں.

دوسری طرف استعفیٰ لئے جانے کے بعد مرزا شہزاد اکبر نے مکمل خاموشی اختیار کی ہوئی ہے اور وہ فون پر بھی دستیاب نہیں ہیں، اطلاعات کے مطابق خود تحریک انصاف اور حکومت میں اس بات کا مطالبہ کیا جارہا ہے کہ شہزاد اکبر کے بعض فیصلوں، مشوروں اور اقدامات کے بارے میں چھان بین کی جائے،یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ وزیراعظم کے حوالے سے شہزاد اکبر کے استعفیٰ کے بعد ان کی یہ بات سامنے آئی تھی ۔ کہ ’’ انہیں کہا کچھ گیا تھا لیکن وہ کسی اور کام میں پڑ گئے تھے‘‘.

شہزاد اکبر پر یہ الزام بھی لگایا جارہا ہے کہ انہوں نے اپوزیشن بالخصوص مسلم لیگ (ن) کے رہنمائوں کے خلاف کمزور کیس بنائے جس کے باعث تین سال گزرنے کے باوجود کسی کو سزا تو نہ مل سکی لیکن ضمانت ضرور مل گئی۔

انہوں نے متعدد معاملات میں ’’ دروغ گوئی‘‘ سے کام لیا۔ یہ امکان بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ شہزاد اکبر کی معاونت کرنے والے اور ہم خیال بعض افسران کے خلاف بھی آنے والے دنوں میں کارروائی ہوسکتی ہے۔

الزامات میں یہ بھی شامل ہیں کہ انہوں نے اہم ’’ منفعت بخش عہدوں‘‘ پر تقرریوں اور تبادلے کرانے میں بھی دبائو ڈالنے کا کردار ادا کیا۔ ان سمیت دیگر الزامات کے حوالے سے مرزا شہزاد اکبر کا موقف جاننے کیلئے ان سے بار بار رابطے کی کوشش کی گئی جس میں کامیابی نہ ہوسکی۔