کرپشن خاتمے کا انکشاف !

January 28, 2022

موجودہ حکومت کے انتخابی منشور کا اہم نکتہ کرپشن کا خاتمہ رہا ہے اور عنانِ اقتدار سنبھالنے کے بعد سربراہِ حکومت اور ارکانِ کابینہ کے بیانات سے اِسی منزل کی بار بار نشاندہی ہوتی رہی ہے۔ کرپشن ایسا چیلنج ہے جو سات عشروں سے جڑیں پھیلا کر طاقتور چیلنج کا روپ دھار چکا ہے۔ تحریک انصاف کے منشور میں کرپشن کے خاتمے کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے جبکہ وزیراعظم عمران خان اور ان کے وزراء کے بیانات سے اس کے خاتمے کا عزم نمایاں ہے مگر یہ ایسا گمبھیر اور پہلو دار مسئلہ ہے جس پر قابو پانے کے لیے وقت اور وسائل درکار ہیں۔ اب پارٹی ترجمانوں کے اجلاس کے حوالے سے وزیراعظم کا یہ جملہ شہ سرخیوں کی صورت میں سامنے آیا ہے کہ ’’کرپشن کے خاتمے کا وعدہ تین ماہ میں پورا کر دیا تھا‘‘ تو ان عام لوگوں کے لیے یہ ایک حیران کن انکشاف ہی ہو سکتا ہے جنہیں ایک طرف سرکاری دفاتر میں اپنی درخواستوں میں پہیے لگوانے کے لیے قدم قدم پر ‘‘مڈل مینوں‘‘ کا سہارا لینا پڑتا ہے، دوسری جانب یہی مفلوک الحال افراد مختلف کوٹھیوں یا دیگر اسکینڈلوں کی خبریں سن سن کر ہلکان ہورہے ہیں۔ سرکاری رقوم میں خوردبرد، مختلف مقامات سے قومی خزانے سے چوری کیے گئے یا رشوت کے ذریعے حاصل کیے گئے سرمائے کے انبار دریافت ہونا۔ آٹے، چینی، گھی، دالوں، یوریا کی کمیابی، حتیٰ کہ جان بچانے والی دواؤں کی مصنوعی قلت کو اگر کرپشن کے سوا کوئی اور نام دیا جا سکتا ہے تو اس سے عام لوگ قطعی طور پر ناواقف ہیں۔ وزیراعظم کے’’3ماہ میں کرپشن ختم کرنے‘‘ کے الفاظ کا مفہوم بادی النظر میں یہی نکلتا ہے کہ اس باب میں اقدامات عنانِ حکومت سنبھالنے کے تین ماہ میں نہ صرف شروع کر دیے گئے بلکہ کچھ نتائج بھی حاصل کئے گئے۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ تحریک انصاف کے اقتدار سنبھالنے کے بعد آٹے، چینی اور دوسری ضروری اشیا کی قلت و مہنگائی سے شروع ہونے والی صورتحال ہر گزرتے دن نیا تکلیف دہ روپ اختیار کرتی محسوس ہورہی ہے۔ بدھ کے روز ہی پشاور ہائیکورٹ نے مالم جبّہ بلین ٹری معاملے کے حوالے سے جو تبصرہ کیا، اِس سے اِس بات پر برہمی کا اظہار ہوتا ہے کہ نیب کی طرف سے اس باب میں انکوائری رپورٹ تاحال کیوں نہیں پیش کی گئی۔ پشاور ہائیکورٹ نے حکم دیا ہے کہ مذکورہ رپورٹ عدالت عالیہ میں اگلی سماعت کے دوران پیش کی جائے۔ مالم جبّہ بلین ٹری منصوبہ کسی دوسری حکومت کا منصوبہ نہیں تھا اس میں بےقاعدگیوں کی نشاندہی ہوتی ہے تو ان کے بارے میں پی ٹی آئی کو ذمہ داری قبول کرنی چاہیے جبکہ قانون کی بالادستی بھی موجودہ برسراقتدار، حکومت کے منشور کا اہم جزو ہے۔ وزیراعظم جب یہ کہتے ہیں کہ 70برس بعد نظام انصاف تبدیل کیا جارہا ہے تو اس کے تقاضے پنجاب، خیبرپختونخوا اور بلوچستان سمیت ان تمام صوبوں و علاقوں میں پورے ہوتے نظر آنے چاہئیں۔ جہاں ان کی پارٹی کا اقتدار و اختیار ہے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عارضی شیلٹر ہومز سے لے کر لوگوں کو کھانا کھلانے اور گھر لے جانے کی سہولت، ہیلتھ کارڈ اور احساس کارڈ جیسے منصوبوں، ای او بی آئی پنشن اور قومی بچت اسکیموں کے منافع میں اضافے سمیت فلاحی اسکیمیں حکومت کی غریب پرور پالیسیوں کی نشاندہی کر رہی ہیں۔ تعمیراتی شعبے کی فعالیت، صنعتی و زرعی ترقی کے اقدامات سے بھی روزگار کے مواقع بڑھ رہے ہیں اور نئی فصلوں کی متوقع ریکارڈ پیداوار سے اچھے امکانات سامنے آرہے ہیں مگر مہنگائی کی صورتحال ایسی سنگین ہے کہ تنخواہ دار طبقے کے لیے زندگی گزارنا مشکل ہو چکا ہے۔ وزیر خزانہ کے بیان سے اگلے تین ماہ میں بھی تنخواہ داروں کی مشکلات کم ہونے کی نشاندہی نہیں ہوتی جبکہ زمینی صورتحال متقاضی ہے کہ فوری ریلیف اقدام کئے جائیں۔