جگر کا سرطان

March 14, 2022

ڈاکٹر فراز معین

اسسٹنٹ پروفیسر پروٹیومکس سینٹر،جامعہ کراچی

جانداروں میں انسانوں کو جہاں تخلیقی طور پر ایک انتہائی موثر اور پیچیدہ دماغ ملا ہے، وہی دیگر اعضاء بھی اپنی جگہ بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ جگر انسانی جسم کے اندر موجود سب سے بڑا عضوء ہے ،یہ نظام ہاضمہ کا ایک معاون عضوء ہے جو صفرا(بائل)پیدا کرتا ہے۔صفراایک اساسی مائع ہے، جس میں کولیسٹرول اور صفراوی تیزابی مادّہ شامل ہوتا ہے ۔جگر میں موجود پتّہ اس صفرا کو جمع کرتا ہے جو کہ دراصل جگر کے خلیے بناتے رہتے ہیں۔

یہ مائع نہ صرف مادّے سے آنے والے کھانے کی تیزابیت کو بے اثر کرتا ہے بلکہ کھانے میں موجود چربی اور نامیاتی مادّوں کو ہضم کرنے میں بھی مدد فراہم کرتا ہے جگر کو بنانے والے خلیات کو ہیپاٹوسائٹس کہاجاتا ہے جو کہ بہت خامی خلیات ہوتے ہیں۔ یہ خلیات مختلف قسم کے بہت سارے حیاتی کیمیائی عوامل کو سر انجام دیتے ہیں ،جس میں چھوٹے اور پیچیدہ مالیکیولز بنانے کی ترکیب اور ٹوٹ پھوٹ شامل ہے جو کہ جسم کے اہم افعال کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔ جگر کے ان افعال کی تعداد تقریبا ًپانچ سو کے قریب بتائی جاتی ہے۔

اس میں مریض کے ڈی این اے میں موجود کیمیائی گروپ میتھائل تبدیل ہونا شروع ہوجاتا ہے، جس کی وجہ سے خلیات کا کینسر میں مبتلا ہونے کا اشارہ ملتا ہے

جگر جسم کے تقریباً ہر دوسرے عضو ءکی مدد کرتا ہے۔ جسم میں اپنےکلیدی محل و وقوع اور کثیر جیتی افعال کی وجہ سے جگر کئی بیماریوں کا شکار ہو سکتا ہے۔ ان بیماریوں میں یرقان،جگر کی سوزش (ہیپاٹائٹس) جگر کا ناکارہ ہونا، مدافعتی عارضہ اور جگر کا سرطان قابل ذکر ہے۔ ان تمام بیماریوں میں جگر کا سرطان سب سے زیادہ شرح اموات کا سبب ہے۔ یہ کسی وائرس کے انفیکشن یا کسی قسم کے نقصان دہ مادّے یا ٹاکسن کی وجہ سے واقع ہوتا ہے اور آہستہ آہستہ سرطان میں تبدیل ہوجاتا ہے۔

عالمی ادارے جگر کے خلیات کے سرطان کو چھٹے انتہائی مرو جہ سرطان کے طور پر ظاہر کرتے ہیں۔ اس سرطان کے سب سے زیادہ واقعات ایشیا میں پائے جاتے ہیں ۔ پاکستان میں اس سرطان کی شرح لگ بھگ بارہ فی صد ہے۔ یہ سرطان ناقص اور دیر سے تشخیص کی وجہ سے ایک عالمی بوجھ بنتا جا رہا ہے۔ اس ضمن میں یہ بات اہم ہے کہ اس سرطان کی نگرانی اور ابتدائی تشخیص کے لیے چھان بین اور طبّی آلات میں بہتری کے لیے مسلسل کام کو جاری رکھا جائے۔

ایک لحمیہ جس کو ایلفا فیٹو پروٹین کہا جاتا ہے، عام طور سے جگر کے سرطان کی تشخیص کے لیے مار کر کے طور پر مریض کے خون کے نمونے میں جانچا جاتا ہے یہ مارکر مریض کے خون میں اس وقت موجود ہوتا ہے، جب سرطان تیزی سے پھیلنے اور آگے بڑھنے کے مرحلے میں داخل ہو چکا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت جو تحقیق جاری ہے اس میں کسی ایسے مارکر کی تلاش کی جا رہی ہے جو سرطان کے ابتدائی مراحل میں ہی ہواوراس کی تشخیص کر سکتا ہو۔ ایک مثالی مار کر وہ ہوگا جو معالجین کو اس کینسر کی تشخیص غیرعلامتی مراحل میں کرنے کے قابل بنائے اور مناسب علاج کےطریقوں کے لیے سرطان کے ہر مرحلے کی نشاندہی بھی کر سکتا ہوں۔

پروٹین مار کر کے ساتھ جینیاتی مارکر جیسا کےڈی این اے اورآر این اے و غیرہ کو بھی اس سلسلے میں تشخیص کے لیے جانچا گیا ہے۔مثال کے طور پر ایک لحمیہ، جس کا تعلق پروٹین کی ا ے ڈی ایچ فیملی سے ہے۔ تحقیق میں یہ مشاہدہ کیا گیا کہ اس فیملی کا ایک پروٹین اےڈی ایچ چار جگر کے سرطان کے مریضوں میں بہت کم ہوتا ہے۔

اس بنیاد پر آس مار کر کے ذریعے سے بیماری کے متعلق اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ کس مرحلے سے گزر رہی ہے۔ اسی طریقے سے ایک اور تحقیقی مطالعے میں ٹیٹرا اسپینن پروٹین کی جگر کے سرطان میں موجودگی اور افعال کے بارے میں مشاہدات کئے گئے جن سے یہ نشاندہی ہوئی ہے کہ یہ لحمیہ دراصل سرطان کی موجودگی اور آگے بڑھانے میں شامل ہے۔

مارکر کا یہ مشاہدہ کیا گیا ہے کہ اس بیماری میں مریض کے ڈی این اے میں ایک کیمیائی گروپ جس کو میتھائل کہتے ہیں، تبدیل ہونا شروع ہوجاتا ہے، جس کی وجہ سے خلیات کا کینسر میں مبتلا ہونے کا اشارہ ملتا ہے۔پروٹیومکس سینٹر، جامعہ کراچی میں ہونے والے ایک تحقیقی مطالعے میں جگر کے سرطان کے نمونوں کاجینیاتی جائزہ لیا گیا۔ جیسا کہ پہلے بیان کیا جاچکا ہے کہ جینیاتی تغیر بیماری کی تشخیص میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے، اس لیے ایک خامی امینو ایسڈ بنانے والی جنین میں ایک نیوکلیوٹائیڈ کی تبدیلی اور نیو کلیوٹائیڈ کےتغیر کی طرف میلان دونوں افعال کو پر کھا گیا ہے۔

یہ امینو ایسڈ جیسے آرجنا ئن کہا جاتا ہے دراصل جگر کے مختلف افعال میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اگرآرجنا ئن کی پیداوار میں تبدیلی ہو تی ہے تو یہ جگر کے خلیات میں غیر متوازن صورتحال کو جنم دیتا ہے، جس سے جگر اپنے کام سر انجام دینے میں دباؤ کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس پس منظر کو مد نظر رکھتے ہوئے جگر کے سرطان کے نمونوں میں یہ مطالعہ کیاگیا۔تجرباتی نتائج سے یہ مشاہدہ کیا کہ صحت مند افراد کے مقابلے میں جگر کے سرطان کے مریضوں میں ہی معنی خیز بنیادی تبدیلیاں موجود ہیں جو کہ مرض مزید بڑھانے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔

یہ ہی نہیں بلکہ دیگر تحقیقی مقالاجات میں مختلف دیگر جینیاتی تبدیلیوں کو جگر کے سرطان سے وابستہ کیا ہے۔ ان میں ٹیومر یا رسولی کو دبانے والی جنین اور کروموسوم ہیں۔ ان جینیاتی تبدیلیوں کا خاکہ جگر کے سرطان کے مریضوں میں مرض میں اضافے یا کمی کی طرف اشارہ کر رہا ہوتا ہے۔ آج کل کے اس آئی ٹی اورڈی ٹی کے دور میں جہاں ساری معلومات اور مشاہدات کا ریکارڈ کمپیوٹر میں موجود ہو تا ہے۔ اس عمل کو آسان بنایا جاسکتا ہے کہ اس کے ذریعے سے بھی بہت سی ایسی بیماریوں کی تشخیص اور نگرانی کی جاسکے جن کی تشخیص مشکل یا نا ممکن ہو۔

اسی طرح کے ریکارڈ سے کچھ ایسی معلومات مل سکتی ہیں جو کہ بیماری کی پیش گوئی کر نے والے کمپیوٹر کے ماڈل بنا کر کی جاسکتی ہے ۔ اس طرح کے ریکارڈ کی چھان بین کو کمپیوٹر ائز سسٹم کے ذریعے تجزیے کو خود کار بنا کر استعمال میں لانے سے یعنی مشین لرننگ کہلانے والے بنیادی طریقےکار کی بنیاد پر پیش گوئیاں ، درجہ بندی، گروپ بنانا اور طبّی طور پرفیصلہ کر نا آسان بنایا جاسکتا ہے، کیو ں کہ اب تک اس بیماری کی تشخیص دیر میں ہی ہو تی ہے ۔ ابھی تک ایسا مارکر موجود نہیں ہے جو کہ انتہائی مخصوص اور مؤثر ہو ۔ یہی وجہ ہے کہ ابھی تک اس مر ض کی پہچان کے لیے ہر طرح کے لحمیاتی اور جینیاتی اثرات کی معلومات اور تحقیق جاری ہے۔

ایک مثالی مار کر جو کہ معالجین کو اس کیسز کی تشخیص غیر علامتی مراحل میں کر نے کے قابل بنائے اور مناسب علاج کے طریقوں کے لیے مرض کے ہر مرحلے میں موجود ہو ابھی تک دریافت نہیں ہو سکا ہے۔ دوسرے طریقوں میں جگر کی دوسری بیماریوں اور سوزش کی وجہ سے بھی سرطان کی تشخیص میں دشواری کا سامنا رہتا ہے جیسا کہ یر قان کی علامات کسی بھی قسم کی جگر کی بیماری کی علامات پر پردہ ڈال دیتی ہیں۔

یہ بات بعد میں معلوم ہو تی ہے کہ یرقان کی وجہ کوئی اور وائرس کا انفیکشن تھا ، جیسا کہ جگر کی سوزش (ہیپا ٹائیٹس) میں ہوتا ہے ۔ نئے تشخیص مار کر اگر چہ مفید ہیں ،مگر یہ مارکر ایک چھوٹے سے تحقیقی مطالعے کے نتیجے میں سامنے آئے ہیں، جس میں نمونوں کی تعداد بھی مطالعاتی اعتبار سے چھوٹی اور ایک حد تک رکھی جاتی ہے ۔ ضرورت ایک ایسی تحقیق کی ہے، جس میں نمونہ جات کی تعداد زیادہ ہو،تا کہ بیماری کا اندازہ صحیح طر ح سے لگا یاجاسکے۔

بین الاقوامی تحقیقی ادارے اس میں مل کر کام کر رہے ہوں اور جہاں تک ممکن ہو سکے جزویات کو مد نظر رکھتے ہو ئے کام کیا جائے۔ اس کے نتیجے میں یہ اُمید کی جاسکتی ہے کہ ایک ایسا تشخیصی عمل نکال لیا جائے گا جو کہ اس سرطان کی نشاندہی ابتدائی مراحل میں ہی کرسکتا ہو اور مرض کے مختلف مراحل میں بھی کا ر آمد ہو ۔ جہاں تک با ت کی جائے اس کے علاج کی تو موجودہ دور میں جگر کے سرطان کی دوا سے لے کر بیمار جگر کی جگہ صحت مند جگر منتقل کر نے کی طبّی سہولت موجود ہے۔

کیمو تھیراپی میں استعمال کی جانے والی دواؤں میں صرا فینیب ، ایر لو ٹینیب اور دیگر ادویات کا استعمال کیا جاتا ہے ۔جب کہ جگہ کی منتقلی کا مسئلہ اس وقت حل ہو جاتا ہے جب کو ئی عطیہ کرنے والا دستیاب ہو تا ہے۔ جگر کی منتقلی اور اس کے بعد کے مختلف مراحل بہت پیچیدہ ہو تے ہیں۔ دوسرا مرحلہ یہ ہوتاہے کہ جس مریض کا جگر نکال کر اس کی جگہ دوسرے جگر کی پیوند کا ری کی جارہی ہے تو اس مریض کا جسمانی دفاعی نظام نئے جگر کو قبول کر نے کے قابل ہو ، تا کہ بعد میں کو ئی خود کار مدافعتی عمل نہ شروع ہو جائے جو کہ عام طور سے جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔

جگر کا سرطان ایک جار حانہ قسم کا کینسر ہے ۔ اس لیے علاج کے دوران کئی جہتوں کو جانچنا پڑتا ہے ۔ مثال کے طور پر رسولی کا حجم ، اس کے پھیلنے کا عمل اور اس کے جگر کے افعال پر پڑنے والی اثرات، ان سب باتوں پر توجہ دینی پڑتی ہے ۔ اس کے بعد علاج کا طریقہ کار اختیار کیا جاتا ہے جو کہ وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلی یا ترمیم کےسا تھ جا ری رہتا ہے۔ اس سرطان سے بچا جاسکتا ہے اگر چند مناسب اقدامات کو مد نظر رکھا جائے جیسا کہ ہیپاٹا ئٹس کی ویکسینیشن کروالی جائے ، محفوظ انجیکشن کے طریقوں کا استعمال کیا جائے ، خون کے عطیات کی نگرانی کی جائے ، کہ عطیہ کیا ہوا خون ، ہر طرح کے وائرس وغیرہ سے پاک ہو ، پھر زندگی گزارنے کا طرز انداز صحت مندانہ ہو۔

اسی طرح عوام کے لیے کچھ ایسے پروگرام موجود ہو جو اس سرطان کے بارے میں تھوڑی تعلیم اور سوجھ بوجھ فراہم کر سکے۔ یہ اُمید کی جاسکتی ہے کہ مستقبل قریب میں کوئی نہ کوئی حیاتیاتی مارکر دریافت کر لیا جائے گا ۔ جو کہ جگر کے سرطان کی تشخیص میں انتہائی مؤثر ہو گا۔ بالکل اسی طریقے سے یہ اُمید بھی کی جاسکتی ہے کہ ایک ایسا طریقہ علاج موجود ہو جو کم لاگت اور پہلے سے زیادہ مؤثر ہو۔

پاکستان میں جگر کے سرطان کا علاج کیمو تھیراپی سے لے کر پیوندکاری تک موجود ہے، مگر جس شرح سے اس کیسز میں اضافہ ہورہا ہے اس کو مدنظر رکھتے ہو ئے دیکھا جائے تو یہ نا کافی ہے ۔ فی الحال احتیاطی تدابہر اختیار کر تے ہو ئے اس سرطان کی بڑھتی ہو ئی شرح کو روکا جاسکتا ہے، جب کہ دوسری طرف مستقبل میں سستے اور مؤثر علاج کی اُمید کی جاسکتی ہے۔