پاکستان کی پہچان بن جانے والی عمارتیں

March 23, 2022

کچھ تعمیرات ایسی ہوتی ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ اس ملک کی پہچان بن جاتی ہیں۔ ہمارے ملک میں بھی کئی ایسی عمارتیں ہیں، جنہیں پاکستان کی پہچان کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا۔ یہ عمارتیںکوئی نہ کوئی تاریخی اہمیت اور پسِ منظر رکھتی ہیں۔ ذیل میںہم مادرِ وطن کی کچھ انتہائی اہم اور تاریخی عمارتوں کا ذکر کررہے ہیں۔

مزارِ قائد

بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح ؒکی آخری آرام گاہ ’’مزارِقائد‘‘ کے نام سے مشہور ہے، جس کی تعمیر کا فیصلہ 21جنوری1956ء کوکیا گیا۔ مزار کا ڈیزائن یحییٰ مرچنٹ نے بنایا جبکہ تعمیراتی کام کا باقاعدہ آغاز8 فروری 1960ء کو کیا گیا۔31مئی1966ء کو مزار کا بنیادی ڈھانچہ مکمل ہوا اور12جون 1970ء کو عمارت کو سنگ مرمر سے آراستہ کرنے کا کام پایہ تکمیل کو پہنچا۔ مزار کی تعمیر پر 1کروڑ 48 لاکھ روپے کے اخراجات آئے۔ اس کی اونچائی سطح سمندر سے91فٹ بلند رکھی گئی ہے اور اس کا کُل رقبہ 131.58 ایکڑ ہے، جس پر بعد میں خوبصورت باغات لگائے گئے، راہ داریاں بنائی گئیں اور فوارے و آبشاریں نصب کی گئیں۔

دسمبر1970ء میں چینی مسلمانوں کی ایسوسی ایشن کی جانب سے81فٹ طویل خوبصورت فانوس تحفے میں دیا گیا، جسے مزارِ قائد کے گنبد میں نصب کیا گیا۔ فانوس میں41طاقتور برقی قمقمے نصب تھے۔2016ء میں46سال کے طویل عرصے میں فانوس پرانا ہوجانے کے پیش نظر چین نےایک اور فانوس کا تحفہ دیا، جس کا وزن2من اور قطر28مربع میٹر ہے جبکہ اس میں48برقی قمقمے اور8.3کلو گرام سونے کا بھی استعمال کیا گیا ہے۔

مینارِ پاکستان

کچھ چیزیں ہوتی تو علامتی ہیںلیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی اہمیت بڑھتی چلی جاتی ہے۔ ایسی ہی ایک یادگار کا نام مینارِ پاکستان ہے۔ لاہور کے تاریخی شہر کےاقبال پارک (پرانا نام منٹو پارک) میں تعمیر شدہ مینار کو تاریخِ پاکستان، تحریکِ آزادی پاکستان اور من حیث القوم ہماری زندگیوںاور ہماری اقدار میں ایک تاریخی و نظریاتی اہمیت حاصل ہے۔

مینارِ پاکستان سے تحریکِ پاکستان کی خوشگوار، جدوجہد سے بھرپور اور اس عہد کا احاطہ کی ہوئی یادیں وابستہ ہیں۔ مینار کی بلندی 196 فٹ ہے ، جس کے اوپر جانے کے لیے324 سیڑھیاں ہیں جبکہ جدید لفٹ بھی نصب کی گئی ہے۔مینارکا نچلا حصہ پھول کی پتیوں سے مشابہت رکھتا ہے اوراس کی سنگِ مرمر کی دیواروں پرقرآن کی آیات، قائد اعظم محمد علی جناح اورعلامہ محمد اقبال کے اقوال اور برصغیر کے مسلمانوں کی آزادی کی مختصرتاریخ کندہ ہے۔

پارلیمنٹ ہاؤس

اسلام آباد میں واقع پارلیمنٹ ہاؤس کی عمارت ملک میںآئین سازی کے حوالے سے اہمیت کی حامل ہے۔ اس عمارت کی تعمیر میں 11سال کا عرصہ لگا اور 28مئی1986ء کو افتتاح کیا گیا۔ پانچ منزلہ اس عمارت کی تمام منزلوں کا کُل رقبہ تقریباً 5لاکھ98ہزار مربع فٹ ہے جبکہ نچلی منزل کا رقبہ ایک لاکھ 76ہزار889مربع فٹ ہے۔ اس عمارت کی دوسری منزل پر قومی اسمبلی اور سینیٹ ہال کے علاوہ وزیراعظم ، اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کے چیمبرز موجود ہیں۔ پارلیمنٹ ہاؤس کی عمارت کے چاروںکونوںپر لائٹ ویل بنائے گئے ہیںتاکہ دھوپ اور ہوا عمارت کے اندر داخل ہوسکے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان

سپریم کورٹ کو پاکستان کی اعلیٰ عدالت ہونے کا درجہ حاصل ہے۔ پاکستان کی خوبصورت سرکاری عمارات میں اسلام آباد میں واقع سپریم کورٹ کی عمارت بھی سرفہرست شمار کی جاتی ہے۔ یہ عمارت ملک بھر میں قانون کی حکمرانی اور آئین کی سرپرستی کی طاقت کو ظاہر کرتی ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کی عمارت کا ڈیزائن مختلف اعزازات اپنے نام کرنے والی جاپانی آرکیٹیکچر فرم Kenzo Tange ایسوسی ایٹس نے تیار کیا تھا جبکہ سی ڈی انجینئرنگ اور سیمیز انجینئرنگ نے اس کمپلیکس کی تعمیر میں حصہ لیا۔

یہ عمارت 3,39,861اسکوائر فٹ رقبے پر تعمیر کی گئی، جس کی تعمیر پر تقریباً 61کروڑ روپے لاگت آئی تھی۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کی عمارت خوبصورت سفید ماربل سے تعمیر کی گئی ہے جو کہ یورپین اور اسلامی فن تعمیر کا ایک حسین امتزاج ہے۔ مرکزی سینٹرل بلاک گیارہ کورٹ رومز پر مشتمل ہے، جس میں سے پانچ مرکزی کورٹ رومز کہلاتے ہیں۔ ججز چیمبر بلاک کی جانب رُخ کریں تو اس حصہ میں چیمبر ہاؤسز اور چیف جسٹس آفس تعمیر کیا گیا ہے۔ بیسمنٹ میں واقع لائبریر ی میں تقریباً 7200 کتابیں، رپورٹس اور جرنل موجود ہیں ۔

گورنر ہاؤس کراچی

گورنر سندھ کی سرکاری رہائش گاہ کراچی کے ایوان صدر روڈ پر واقع ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد ملک کے پہلے گورنر جنرل قائداعظم محمد علی جناح کی یہ سرکاری رہائش گاہ تھی اور ایک عرصے تک یہ عمارت گورنر جنرل ہاؤس بھی کہلاتی رہی۔ اس میںقائداعظم کے زیرِ استعمال رہنے والی اشیابھی موجود ہیں۔

گورنر ہاؤس کراچی کی عمارت برطانوی آرکیٹیکچر موزیز اسموک نےڈیزائن کی تھی۔ 1939ء میں تعمیر کی گئی یہ عمارت نو آبادیاتی طرز پر خوبصورت برآمدہ ،سرونٹ کوارٹرز اور بڑے بڑے کمروں پر مشتمل ہے۔ گورنر ہاؤس کراچی میں ایک سوئمنگ پول ،گھوڑوں کا اصطبل جبکہ عمارت کے ایک حصے میں ایک چھوٹا سا چڑیا گھر بھی موجود ہے۔

قائد اعظم ریزیڈنسی

کوئٹہ سے 122کلو میٹر کے فاصلے پر واقع وادی زیارت کے خوبصورت اور پر فضاء مقام پر واقع یہ رہائشگاہ1892ء کے آس پاس لکڑی سے تعمیر کی گئی تھی۔ قیام پاکستان کے بعد 1948ء میں زیارت ریزیڈنسی کی تاریخی اہمیت میں اس وقت اضافہ ہوا، جب یکم جولائی کوقائد اعظم اپنے ذاتی معالج ڈاکٹر کرنل الٰہی بخش کےکہنے پر بیماری کے باعث یہاں تشریف لائے۔ قائد اعظم نے اپنی زندگی کے آخری دو مہینے دس دن اسی عمار ت میںگزارے۔

بعد میں اس رہائش گاہ کو ’’قائد اعظم ریزیڈنسی‘‘ کے نام سے قومی ورثے میںشامل کرلیا گیا۔ قائد اعظم ریزیڈنسی میں موجود کمروں میں ایک کمرہ محترمہ فاطمہ جناح اور ایک کمرہ قائد اعظم کے ذاتی معالج کرنل الٰہی بخش جبکہ ایک کمرہ ان کے ذاتی معتمد کے لیےمخصوص کیا گیا تھا۔ اس عمارت کو چاروں طرف لکڑی کے ستونوں سے بنایا گیا جبکہ اندر کی جانب بھی لکڑی کا استعمال بہت عمدگی سے کیا گیا۔ آٹھ کمروں پر مشتمل اس عمارت میں کل 28دروازے رکھے گئے۔ یہ عمارت آج بھی ہمارے ہر دلعزیز قائد اعظم کی بارعب اور پُراثر شخصیت کی غماز ہے۔

فیصل مسجد

فیصل مسجد وفاقی دار الحکومت اسلام آباد میں قائم ایک عظیم الشان مسجدہے، جسے جنوبی ایشیا کی سب سے بڑی مسجد ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ مسجد کا سنگ بنیاد شوال 1396ھ/ اکتوبر 1976ء میں رکھا گیا اور تکمیل 1987ء میں ہوئی۔ شاہ فیصل مسجد کی تعمیر کی تحریک سعودی فرمانروا شاہ فیصل بن عبدالعزیز نے 1966ء کے اپنے دورہ اسلام آباد میں دی۔ 1969ء میں ایک بین الاقوامی مقابلہ منعقد کرایا گیا جس میں 17ممالک کے 43ماہر فن تعمیر نے اپنے نمونے پیش کیے۔ چار روزہ مباحثہ کے بعد ترکی کے ویدت دالوکے کا پیش کردہ نمونہ منتخب کیا گیا۔

پہلے پہل نمونے کو روایتی محرابی مسجد اور گنبدوں سے مختلف ہونے کی وجہ سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن مارگلہ کی پہاڑیوں کے دامن میں مسجد کی خوبصورت تعمیر نے تمام نقادوں کی زبان گنگ کر دی۔ سعودی حکومت کی مدد سے دس لاکھ سعودی ریال (کم و بیش ایک کروڑ بیس لاکھ امریکی ڈالر) کی لاگت سے 1976ء میں مسجد کی تعمیر کا آغاز کیا گیا۔ تعمیراتی کام 1986ء میں مکمل ہوا اور اس کے احاطہ میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی بنائی گئی۔ تعمیری اخراجات میں بڑا حصہ دینے پر 1975ء میں مسجد اور کراچی کی اہم ترین شارع، شاہ فیصل کی وفات کے بعد ان کے نام سے موسوم کردی گئی۔