یوکرین کا مسئلہ اور نیٹو کا مخمصہ

March 30, 2022

گزشتہ اختتام ہفتہ امریکہ کے صدر جوبائیڈن نے پولینڈ کا دورہ کیا اور نیٹو ممالک کے ہنگامی اجلاس میں شرکت کی۔ سفارتکاروں کی نظر میں امریکی صدر کا دورۂ یورپ بہت اہمیت کا حامل تھا۔ اس دورہ کے ذریعہ امریکہ نے ایک پیغام یورپی یونین اور نیٹو کو دیا کہ یورپی ممالک تنہا نہیں ہیں شمالی امریکی قوتیں بھی ان کے شانہ بشانہ کھڑی ہیں۔ دُوسرا پیغام روس کو دیا۔ امریکاہر قیمت پر یورپ کا دفاع کرنے کا ذمہ دار ہے اور اس ضمن میں وہ کسی اقدام سے گریز نہیں کرے گا۔

بتایا جاتا ہے کہ جب روس نے اپنے ایٹمی ہتھیاروں کو یوکرین کی سرحد پر نصب کرنے کی دھمکی دی اور روسی ایٹمی اسکواڈ کو الرٹ کر دیا تب صورت بد سے بدتر ہوگئی ۔جوابی طور پر امریکا نے بھی بڑی دھمکی دیدی، برطانیہ اور فرانس نے اپنی ایٹمی آبدوزوں کو ریڈ الرٹ کر دیا۔ یوں صورت حال تشویش ناک ہوگئی۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بھی ہوا ،مگر ماضی کے نتائج سے کچھ الگ نہ ہوا۔

امریکی صدر جوبائیڈن نے نیٹو ممالک کو کہا ہے کہ وہ نیٹو کی دفاعی صلاحیتوں میں مزید اضافہ کریں اور روسی تیل اور قدرتی گیس پر انحصار کم سے کم کریں۔ واضح رہے کہ یورپی ممالک چالیس فی صد سے زائد تیل روس سے خریدتے ہیں، باقی وہ عالمی منڈی سے خریداری کرتے ہیں۔ امریکا نے فوری طور پر یوکرین کو جدید ہتھیار، سائبر سپورٹ اورمالی امداد دینے کا اعلان کیا ہے۔ اس کے علاوہ گروپ سیون ممالک نے بھی یورپی یونین اور یوکرین کی ہرممکن مدد کا اعادہ کیا ہے۔ دُوسری جانب یوکرین میں بھرپور جنگ جاری ہے۔ روس مسلسل تابڑ توڑ حملے کر رہا ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ روس فاسفورس بم بھی استعمال کر رہا ہے۔

یوکرین کے دُوسرے بڑے شہر ماریو پول کو روسی فوجوں نے مکمل تباہ کر دیا ہے یہاں تک کہ شہر کے تمام اسکول ہسپتال بھی تباہ ہو چکے ہیں۔ روس نے کئی دنوں سے یوکرین کے دارالخلافہ کیف کا محاصرہ کر رکھا ہے مگر یوکرین کی فوجیں اورشہری رضاکار روسی فوجوں کا ڈٹ کر مقابلہ کر رہے ہیں۔ یوکرین کے صدر زیلنسکی نے ویڈیو پیغام کے ذریعے مغربی ملکوں سے اپیل کی ہے کہ انہیں ہتھیار، لڑاکا طیاروں اور اینٹی ٹینک میزائلوں کی اشد ضرورت ہے۔ یوکرین بہرطور کیف کو محفوظ بنانا چاہتا ہے۔ نیٹو معاہدہ کے سربراہ نے ہنگامی طور پر یوکرین کے سرحدی علاقوں کا دورہ کیا ہے اور یوکرینی فوجیوں ، شہری رضا کاروں کی دلیرانہ مزاحمت کی تعریف کی ہے۔

نیٹو ممالک نے مزید ہتھیار اور اینٹی ٹینک میزائل یوکرین روانہ کر دیئے ہیں۔ دُوسری طرف ماسکو میں حالات مزید اَبتر ہو چکے ہیں۔ ماسکو سمیت ہر بڑے روسی شہر میں مظاہرے جاری ہیں۔ روسی عوام پہلے ہی مسائل کا شکار تھے اور اب اچانک یوکرین کی جنگ نے ان کے مسائل اور مصائب میں گوناگوں اضافہ کر دیاہے۔ روس کے معاملات پر نظر رکھنے والے مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر روس میں عوامی بے چینی اور احتجاجی لہر مزید بڑھ گئی تو شاید کمیونسٹ پارٹی کا سپیولیٹ بیورو ماسکو میں اعلیٰ قیادت کی تبدیلی کے بارے میں غور کر سکتی ہے، مگر بعض مبصرین کہتے ہیں روسی صدر نے پارٹی میں بھی اپنی پوزیشن مستحکم کر رکھی ہے اور انہیں روس سمیت بیرونی دُنیا میں بھی سب سے امیرترین صدر کہا جاتا ہے۔

آج کی دُنیا کو گلوبل ولیج کہا جاتا ہے تو شاید غلط نہیں ہے کیونکہ ممالک کا ایک دُوسرے پر انحصار بڑھ رہا ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ جنگ یوکرین میں ہو رہی ہے، مگر افریقی ممالک اور سب صحارا ممالک سمیت پاکستان اور مشرق وسطیٰ میں بھی اس کے اثرات بتدریج نمایاں ہو رہے ہیں۔ دُنیا میں گندم کی فراہمی کے دو اہم ممالک روس اور یوکرین جنگ میں اُلجھے ہوئے ہیں اناج کی نقل و حمل دُشوار ہو چکی ہے۔ فصلیں تباہ ہو چکی ہیں ایسے میں عالمی منڈی میں گندم کی قلّت مذکورہ ممالک کیلئے باعث تشویش ہے۔ جنگ کسی بھی خطّے میں لڑی جائے یہ طے ہے کہ دُنیا کے دیگر ممالک پر بھی اس کے اَثرات نمایاں ہو سکتے ہیں۔ جنگ کو ایک ماہ سے زائد عرصہ ہو چکا ہے مگر اس کی شدت میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔

یورپی یونین اور نیٹو میں یہ تشویش بھی پائی جا رہی ہے کہ روس اپنی طاقت کے مظاہرہ کے زعم میں پولینڈ سمیت بعض دیگر مشرقی یورپی ممالک پر بھی حملہ آور ہو سکتا ہے۔ عام طور پر یہ سوال ہر جگہ پوچھا جاتا ہے کہ آخر روس کی اس بڑی مہم جوئی اور پریشانی کی وجہ کیا ہے۔ روس دُنیا کا سب سے بڑا ملک ہے، روس کے پاس سب سے زیادہ خطرناک جوہری ہتھیار موجود ہیں، دُنیا میں سب سے زیادہ تیل اور قدرتی گیس کے ذخائر روس کے پاس ہیں۔ دیگر قدرتی معدنیات بھی سب سے زیادہ روس کے پاس ہیں پھر یہ عجلت، مہم جوئی کیوں؟؟

روس کے معاملات پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ روس یورپ میں کسی طور نیٹو معاہدہ میں مزید توسیع نہیں چاہتا، روس کو خدشہ ہے کہ مشرقی یورپی ممالک جو ماضی قریب میں سابق سوویت یونین کا حصہ تھے اب الگ ہونے کے بعد ایک ایک کر کے نیٹو معاہدہ میں شریک ہوتے جائیں گے۔

دُنیا میں اس وقت طاقت کے محور امریکہ، روس، چین اور نیٹو ممالک ہیں باقی ممالک سیاسی معاشی مفادات کے تحت بٹے ہوئے ہیں جیسے بھارت علاقائی طور پر بڑی طاقت بن کر اُبھر رہا ہے۔ اس کے روس سے دیرینہ تعلقات رہے ہیں اور اب نئے عالمی تناظر میں بھارت اور امریکہ کے گہرے سیاسی معاشی اور دفاعی تعلقات ہیں مگر بھارت خود کو غیرجانبدار کہتا ہے کسی ایک کے ساتھ واضح طورپر نہیں کھڑا ہے۔ ایسے میں امریکی صدر جوبائیڈن نے بھارت کو وارننگ دی ہے کہ وہ اب فیصلہ کر لے کہ وہ کس کے ساتھ کھڑا ہے۔ یہ بھارت کی خارجہ پالیسی کا ایک کمزور پہلو سامنے آتا ہے۔ اس طرح بھارت دونوں طرف پھنس چکا ہے۔ وہ روس کو ناراض نہیں کر سکتا اس سے ہتھیاروں کے پرزے و دیگر سامان خرید کرتا ہے جبکہ امریکا کو بھی چھوڑ نہیں سکتا کیونکہ چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کے سامنے بھارت کو امریکہ کی اور امریکہ بھارت کی ضرورت ہے۔

اس طرح امریکا کو نیٹو ممالک اور نیٹو ممالک کو امریکہ کی ضرورت ہے۔ درحقیقت نیٹو ممالک امریکا کے اصل اتحادی ہیں۔ امریکہ نے ہمیشہ نیٹو کی مدد کی اور طرفداری کی مگر سابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے نیٹو ممالک کو ناراض کر دیا تھا۔

سابق صدر ٹرمپ کا نقطہ نظر تھا کہ نیٹو میں شامل ممالک نیٹو کے بجٹ میں اضافہ کریں اور اس کا بوجھ خود اُٹھائیں۔ ٹرمپ کے اسی یک طرفہ فیصلے یا نقطہ نظر کی وجہ سے نیٹو ممالک میں ایک نئی سوچ پروان چڑھنی شروع ہوگئی۔ اگر کسی مشکل گھڑی میں امریکہ ہاتھ کھڑے کر دے اور اپنی مدد آپ کا نعرہ لگا دے، تب کیا ہوگا۔ اس جانب فرانس کے صدر میکرون، جرمنی کے چانسلر اور ترکی کے صدر اردگان تھے جو نئی سوچ کے حامی تھے۔ یورپی یونین جو ستائیس ممالک کا اتحاد ہے، صرف برطانیہ یونین سے باہر ہے مگر نیٹو کا اہم رُکن ہے۔

یورپی یونین کی مجموعی آبادی 75 کروڑ سے زائد ہے۔ برطانیہ اورفرانس دونوں جوہری طاقت ہیں۔ جرمنی، اسپین، ہالینڈ، بیلجیم، یونان اور ترکی افرادی قوت کے طور پر نمایاں ملک ہیں۔ جدید ترین ٹیکنالوجی، جدید انفرا اسٹرکچر، تعلیمی شعبوں، صحت عامّہ کے شعبوں سمیت فلاحی شعبوں میں بھی دُنیا میں سب سے نمایاں ہیں۔

یورپ ثقافتی، لسانی، نسلی اور علاقائی طورپر بھی سب سے زیادہ نمایاں برّاعظم ہے۔ نیٹو ممالک کی طاقت برّی، بحری، ہوائی اور خلائی طور پر جدید اور ترقّی یافتہ ہے۔ امریکہ کے سات بحری بیڑوں کے بعد نیٹو کی سمندری طاقت بہت نمایاں ہے۔ سترھویں اور اٹھارھویں صدی میں روس کے فرمانرائوں نے مشرقی یورپی، بالٹک کے سمندری اور وسطی ایشیائی ممالک کو ایک ایک کر کےہڑپ لیاتھا، مگر 1917ء میں انقلاب کے بعد یہ ریاستیں سابق سوویت یونین کا حصہ رہیں۔

بعدازاں خروشیف نے یوکرین کو آزادی دیدی تھی، مگر 1991ء میں روس معاشی طور پر اس قدر کمزور ہو چکا تھا کہ مذکورہ ریاستیں سابق سوویت یونین سے الگ ہوگئیں اور سوویت یونین منتشر ہوگیا۔ حیرت انگیز طور پر اس اَتھل پتھل اور انارکی میں ایک گولی نہیں چلی، دنگے نہیں ہوئے گھیرائو اور جلائو کے واقعات رُونما نہیں ہوئے۔

اس تناظر میں سوویت یونین سے الگ ہونے والے ممالک کی نیٹو نے رُکنیت کی پیش کش کی اور گزرے بیس بائیس برسوں میں زیادہ تر ممالک نے نیٹو میں شمولیت اختیار کر لی۔ اس دورن روس خود اپنے مسائل میں اُلجھا ہوا تھا اس نے اس جانب زیادہ توجہ نہیں کی۔ مگر روس کے نئے رہنما ولادی میر پیوٹن نے رفتہ رفتہ اس طرف توجہ دینی شروع کی اور جب 2012ء میں یوکرین نے یورپی یونین میں شمولیت کی پیش کش قبول کرنے کی بات کی تو اس وقت کے یوکرین کے صدر نے یہ پیش کش مسترد کر دی، جس پر ہنگامے شروع ہوئے اور روس نے یوکرین کے علاقہ آبنائے کریمیا پر قبضہ کر لیا تا کہ اس کو نیٹو میں شامل نہ ہونے دیا جائے۔

روسی صدرپیوٹن کا مؤقف ہی یہ ہے کہ مشرقی یورپ کے ممالک کو نیٹو میں شامل نہ ہونے دیا جائے ظاہر ہے اگر مشرقی یورپ کی وہ ریاستیں جو نیٹو کی رُکن نہیں ہیں اگر اس معاہدہ کا حصہ بن جاتی ہیں تو طاقت کا توازن بگڑ سکتا ہے۔ نیٹو روس کے اطراف اپنے فوجی اڈّے قائم کر کے روس کو پریشانی میں ڈال سکتا ہے۔ اس حوالے سے یوکرین کو روس نشان عبرت بنانے پر تُلا ہوا ہے کہ آئندہ کوئی مشرقی یورپی بالٹک ریاست نیٹو میں شمولیت کا خیال بھی دل میں نہ لا سکے۔ روس کو یہ خدشہ لاحق ہے کہ نیٹو ممالک اور امریکہ ایک نہ ایک دن روس پرحملہ کر سکتے ہیں اور اس کے علاقے پر قبضہ کر سکتے ہیں۔ یہ خدشہ اس لئے لاحق ہے کہ روس کے ساتھ یورپی یونین کی سرحدیں قریب تر ہیں اور نیٹو جدید ترین ہتھیاروں اور اعلیٰ تربیت سے آراستہ بڑی طاقت ہے۔

اگر جنگ ہوئی تو عین ممکن ہے نیٹو جس میں امریکا، جاپان، کینیڈا، آسٹریلیا وغیرہ ہم نوا ہیں روس کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ روس کے اس خدشہ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ روس نے اپنی سرحدوں پر خفیہ بنکروں میں ایسے خودکار بیلسٹک میزائل نصب کر رکھے ہیں جو روس میں بیرونی حملوں اور روسی سرزمین پر تباہی کے آثار نمایاں ہوتے ہی یہ خودکار میزائل کام کرنا شروع کر دیں گے اور دُنیا میں ہر طرف یہ میزائل مار کر یں گے، جس سے کہا جاتا ہے کہ دُنیا بہت بڑی اور خوفناک تباہی سے دوچار ہو سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ روس کے خلائی لیزر ہتھیاروں کے حوالے سے بھی بہت کچھ کہا جاتا رہا ہے۔ اس طرح نیٹو ممالک بھی روس کے اچانک حملے کے خدشات ظاہر کرتے رہے ہیں۔

یوکرین میں جاری جنگ کو مدنظر رکھتے ہوئے اب نیٹو ممالک زیادہ محتاط، زیادہ متحد اور زیادہ تیاریوں کا سوچ رہے ہیں۔ روس نے یوکرین پر حملہ کر کے نیٹو کو زیادہ الرٹ کر دیا ہے۔ امریکی صدر کا حالیہ دورۂ پولینڈ اور نیٹو کا ہنگامی اجلاس سب انہی واقعات کی کڑیاں ہیں۔ ان حالات میں بھی یورپی مبصرین کا ایک گروہ روس کے یوکرین کے حملے کو محض روس کی خطّے میں سپرمیسی قائم کرنے کی کوشش قرار نہیں دیتا، اس گروہ کا کہنا ہے کہ روس نے جو نئے ورلڈ آرڈر کی بنیاد رکھنے کا بیڑہ اُٹھایا ہے اس کے لحاظ سے یہ ٹیسٹ چیک ہے کہ نیٹو ممالک اور امریکہ کس حد تک آگے آتے ہیں۔ ان مبصرین کا خیال ہے کہ چین کی پوری تیاری ہے۔ وہ تائیوان پر نظریں جمائے بیٹھا ہے۔ اب جو ہوگا وہ بحیرۂ جنوبی چین میں ہوگا۔

ان کا کہنا ہے کہ امریکہ کو یوکرین سے زیادہ دلچسپی نہیں تھی، مگر تائیوان کے مسئلے پر امریکہ ضرور کوئی نہ کوئی کارروائی کر سکتا ہے۔جبکہ نیٹو ممالک میں فرانس، جرمنی، بیلجیم اور کچھ دیگر ممالک یہ عندیہ دے رہے ہیں کہ چین کے ان کے مابین کوئی اختلاف نہیں ہیں اور چین ان ممالک کا ٹریڈ پارٹنر بھی ہے اگر تائیوان کے مسئلے پر کوئی بڑا تصادم ہوتا ہے تو نیٹو کو اس میں مداخلت سے گریز کرنا چاہئے۔ چین نے روس کو یوکرین میں اُلجھا کر اس سوال کا جواب حاصل کرلیا کہ تائیوان کے مسئلے پر نیٹو کا کیا ردعمل ہو سکتا ہے۔

تاحال یہ خیال آرائی ہو رہی ہے کہ بحیرۂ جنوبی چین کے کسی تصادم میں نیٹو ہر طرح غیرجانبدار رہے گا۔ لیکن یہ سب قیاس آرائیاں ہیں حقیقی نقشہ میدان جنگ میں سامنے آتا ہے۔ تاہم نیٹو ممالک کا جو بھی رویہ ہوگا یہ بعد کی بات ہے۔ فی الفور انہیں یوکرین اور روس کی کارروائیوں سے زیادہ پریشانی ہے۔ یہ بات طے ہے کہ نیٹو اب زیادہ الرٹ ہوگیا ہے اور روس سے تیل بھی نہیں خرید رہا ہے۔