تھیلیسیمیا: مرض سے جنگ مشکل، احتیاط آسان

May 08, 2022

تھیلیسیمیا انٹرنیشنل فیڈریشن کے زیرِ اہتمام ہر سال دنیا بَھر میں8مئی کو’’ ورلڈ تھیلیسیمیا ڈے‘‘ ایک نئے تھیم کے ساتھ منایا جاتا ہے۔رواں برس کا تھیم"Be Aware, Share, Care: Working with the global community as one to improve thalassaemia knowledge" ہے۔یعنی’’آگاہ رہیں، آگہی پھیلائیں، دیکھ بھال کریں: تھیلیسیمیا سے متعلق معلومات میں اضافے کے لیے عالمی برادری کے ساتھ مل کر کام کریں۔‘‘اس تھیم کا مقصد عالمی سطح پر تھیلیسیمیا کے مضراثرات سے متعلق آگاہی پھیلانا اور اس ضمن میں بنیادی معلومات کے حصول اور ابلاغ کے لیے مشترکہ کوششوں کی حوصلہ افزائی کرنا ہے، تاکہ تھیلیسیمیا سے متاثرہ مریضوں کو بہتر صحت، سماجی ماحول اور دیکھ بھال میں مدد فراہم کی جا سکے۔

تھیلیسیمیا کا مرض سب سے پہلے یونان،اٹلی، قبرص(Cyprus) اور بحیرۂ روم کے علاقوں میں تشخیص ہوا اور یہ 1925ءمیں خون کے مرض، اینیمیا پر تحقیق کرنے والے امریکی ڈاکٹرزCooley اور Lee نے تشخیص کیا۔ابتد ان کے ناموں کی نسبت سے اسے Cooley's Anaemia بھی کہا گیا۔ 1946ء میں اس مرض کی وجوہ سے آگہی حاصل ہوئی اور 1960ء سے باقاعدہ علاج کا آغاز ہوا۔ یعنی انتقالِ خون(Blood Transfusion)کے ذریعے تھیلیسیمیا کے مرض میں مبتلا بچّوں کا علاج شروع کیا گیا۔ تب سے آج تک اسی طریقۂ علاج کے ذریعے ان بچّوں کی زندگیاں بچانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

یوں تو یہ مرض دُنیا کے بیش تر خطّوں میں پایا جاتا ہے، لیکن یونانی، اطالوی، قبرصی، مشرقِ وسطیٰ، جنوب ایشیائی اور افریقی نسل کے لوگوں میں اس کی شرح بُلند ہے۔ تھیلیسیمیا دراصل خون کی ایک جینیاتی خرابی (Genetic Disorder) کا نام ہے، جس میں ہیموگلوبن نہیں بنتا۔ اگر ماں اور باپ دونوں تھیلیسیمیا مائنر کا شکار ہوں، تو ان کے یہاں جنم لینا والا بچّہ اس مرض میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ یعنی یہ خون کی ایک موروثی بیماری ہے، جو والدین سے بچّوں میں منتقل ہوتی ہے۔

چوں کہ اس بیماری میں خون بننے کا عمل رُک جاتا ہے، نتیجتاً مریض کو ہر ماہ انتقالِ خون کی ضرورت پڑتی ہے اور مریض کی پوری زندگی کا انحصار اسی طریقۂ علاج پر ہوتا ہے۔ واضح رہے، اس مرض کی بڑھتی ہوئی شرح کی بنیادی وجہ کزنز میرج یعنی خاندان میں شادی ہے۔جینیاتی اعتبار سے تھیلیسیمیا کی دو بڑی اقسام ہیں، جنہیں الفا تھیلیسیمیا اور بیٹا تھیلسیمیا سے موسوم کیا جاتا ہے۔پاکستان میں بیٹاتھیلیسیمیا،جب کہ دیگر مُمالک میں الفا تھیلیسیمیا کی شرح بُلند ہے۔تھیلیسیمیا کو نوعیت کے اعتبار سے تین اقسام میں منقسم کیا گیا ہے،جو تھیلیسیمیا مائنر، انٹرمیڈیا اور میجرکہلاتی ہیں۔

تھیلیسیمیا مائنر کی نوعیت معمولی ہے، جب کہ تھیلیسیمیا انٹرمیڈیا درمیانی اور تھیلیسیمیا میجرزیادہ شدید نوعیت کی ہے۔ یاد رہے، تھیلیسیمیا کی قسم جُدا ہو یا نوعیت، کبھی بھی یہ ایک سے دوسری قسم یا نوعیت میں تبدیل نہیں ہوتا ۔ مطلب یہ کہ الفا تھیلیسیمیا کبھی بھی بیٹا تھیلیسیمیا میں تبدیل ہوتا ہے،نہ ہی بیٹا، الفا میں۔ بالکل اِسی طرح تھیلیسیمیا مائنر کبھی بھی تھیلیسیمیا میجر بنتا ہے، نہ میجر کبھی مائنر بن سکتا ہے۔

٭تھیلیسیمیا مائنر: تھیلیسیمیا مائنر خطرناک بیماری ہے، نہ اس کی وجہ سے مریض کی زندگی پر کوئی خاص اثر پڑتا ہے۔ علامات نہ ہونے کی وجہ سے مرض کی تشخیص صرف ہیموگلوبن الیکٹروفورسز ٹیسٹ کےذریعے ممکن ہے۔ یہ مریض نارمل افراد ہی کی طرح زندگی بسر کرتے ہیں، مگر اپنا مرض، اپنے بچّوں میں منتقل کرنے کا باعث بن سکتے ہیں۔ تھیلیسیمیا مائنر کے زیادہ تر مریض اپنے جین کے نقص سے قطعاً لاعلم ہوتے ہیں اور جسمانی، ذہنی اور جنسی اعتبار سے عام افراد کی طرح ہوتے ہیں اور اُن ہی کے جتنی عُمر بھی پاتے ہیں۔اگرچہ تھیلیسیمیا مائنر میں کسی قسم کی علامات ظاہر نہیں ہوتیں، لیکن اگر والدین تھیلیسیمیا مائنر کا شکار ہوں، تو ان کے یہاں پیدا ہونے والے بچّوں میں قوی امکانات پائے جاتے ہیں کہ وہ تھیلیسیمیا میجر کا شکار ہوجائیں۔

٭تھیلیسیمیامیجر:تھیلیسیمیا میجر میں خون بننے کا عمل رُکنے کے نتیجے میں بچّوں کے جسم میں خون کی شدید کمی واقع ہوجاتی ہے اور پھر انہیں تاعُمر انتقالِ خون کی ضرورت پیش آتی ہے۔ ان مریضوں میں خون اس قدر کم مقدار میں بنتا ہے کہ اُنہیں ہر دو سے چار ہفتے بعد خون کی بوتل لگوانے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ ایسے بچّے پیدایش کے چند مہینوں بعد ہی خون کی کمی کا شکار ہو جاتے ہیں اور پھر ان کی باقی زندگی بلڈ بینکس کی محتاج رہتی ہے۔تھیلیسیمیا میجر ایک موروثی جینیاتی بیماری ہے، جو کہ ماں اور باپ دونوں سے یک ساں طور پر بچّوں میں منتقل ہوتی ہے۔

اگر والدین تھیلیسیمیا مائنر کا شکار ہوں، تو ہر حمل میں بچّے کا تھیلیسیمیا میجر سے متاثر ہونے کا 25 فی صد امکان پایا جاتا ہے۔ واضح رہے، تھیلیسیمیا میجر میں خون کے سُرخ ذرّات نہیں بنتے ہیں اور عام طور پر اس مرض کی علامات نومولود میں چار ماہ کی عُمر سے ظاہر ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔ متاثرہ بچّے کو ہر پندرہ دِن بعد انتقالِ خون سمیت جسم سے زائد فولاد کے اخراج کے لیے ادویہ کی ضرورت تاحیات رہتی ہے۔ تھیلیسیمیا میجر کی نمایاں علامات میں جِلد کی زرد رنگت، کم زوری، سانس لینے میں دشواری، پیٹ پُھول جانا، کم زوری کی وجہ سے بار بار کھانسی یا ڈائریا ہونا وغیرہ شامل ہیں۔

حالاں کہ ہمارے یہاں تھیلیسیمیا کا مرض دِن بہ دِن شدّت اختیار کررہا ہے، اس کے باوجود سرکاری سطح پر کسی سروے کا اہتمام نہیں کیا جاتا، نتیجتاً متاثرہ افراد کی صحیح تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ تاہم، غیر سرکاری سطح پر کیے جانے والے کئی سرویز کی روشنی میں اندازاً تھیلیسیمیا میجر سے متاثرہ بچّوں کی تعداد پاکستان میں80ہزار سے تجاوز کرچُکی ہے، جب کہ ہر سال 6ہزار نئے بچّے تھیلیسیمیا میجر کے ساتھ جنم لے رہے ہیں۔ تھیلیسیمیا مائنر کی اسکریننگ کسی بھی اسپتال، بنیادی صحت کے مراکز، دیہی صحت کے مراکز اور ڈسپینسریز وغیرہ سے بغیر کسی جدید مشینری کے باآسانی کروائی جاسکتی ہے۔

صرف چلڈرن اسپتال، گلشنِ اقبال، کراچی میں روزانہ تھیلیسیمیا کے 12سے14نئے مریض رپورٹ ہو رہے ہیں، جن کی سالانہ تعداد1200سے 1400 کے درمیان ہے، جس سے اس خدشے کو تقویت ملتی ہے کہ تھیلیسیمیا کے مرض کے ساتھ پیدا ہونے والے بچّوں کی تعداد میں ہر گزرتے دِن کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے۔ تھیلیسیمیا جیسے موروثی مرض سے عدم آگہی ہی کے سبب مرض کی شرح میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ یاد رہے، زندگی بَھر ساتھ رہنے والے اس مُہلک مرض سے بچائو کا واحد حل شادی سے قبل تھیلیسیمیا جین کا ایک آسان اور سادہ ٹیسٹ ہے، تاکہ آنے والی نسلوں میں اس بیماری کا پھیلاؤ روکا جا سکے۔

ایسی تمام مائیں، جن کے یہاں پہلے سے تھیلیسیمیا میجر سے متاثر کوئی بچّہ موجود ہے، وہ حمل ٹھہرنے کی صُورت میں دسویں سے بارھویں ہفتے میں سی وی سی ٹیسٹ(Chorionic Villous Sampling) لازماً کروائیں، تاکہ شکمِ مادر میں پلنے والے بچّے میں تھیلیسیمیا جین کی تشخیص ہوسکے۔ٹیسٹ رپورٹ مثبت ہونے کی صُورت میں سولہویں ہفتے سے قبل اسقاطِ حمل کروایا جاسکتا ہے اور اس سلسلے میں تمام مکتبۂ فکر کے علمائے کرام کا فتویٰ بھی موجود ہے، جس کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اس قسم کا اسقاط نہ صرف جائز ہے، بلکہ آنے والی نسل کو اس مُہلک بیماری سے بچانے کے لیے ضروری ہے۔

سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور ایران سمیت دیگر مُمالک میں پہلے ہی اس حوالے سے فتوے موجود ہیں۔بون میروٹرانس پلانٹ تھیلیسیمیا کے مرض کا مکمل علاج ہے۔ اگر سگے بھائی، بہن سے ٹشو میچ ہوجائے، تو اس کی ہڈی کا گُودا لے کر مریض بچّے میں منتقل کردیا جاتا ہے اور پاکستان میں گزشتہ 20برس سے یہ طریقہ مستعمل ہے۔ سرکاری سطح پر شادی سے قبل تھیلیسیمیا اسکریننگ کے لیے قانون سازی وقت کی اہم ضرورت ہے کہ دُنیا بَھر کے کئی مُمالک مثلاً یونان، اٹلی ،ایران، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات نے محض اس قانون سازی کی بدولت اپنے مُلک کو اس مُہلک بیماری سے خاصی حد محفوظ کرلیا ہے، لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ پہلے تو فوری طور پر تھیلیسیمیا کے مریضوں کی درست تعداد معلوم کرنے کے لیے نیشنل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اتھارٹی قائم کی جائے۔

پھر تھیلیسیمیا میجر سے متاثرہ بچّوں کے لیے محفوظ خون کی، جو ملیریا، ہیپاٹائٹس بی اور سی، ایچ آئی وی، ایڈز اور Syphilis سے پاک ہو، مُلک بَھر میں یک ساں فراہمی یقینی بنائی جائے۔ پاکستان کو تھیلیسیمیا سے محفوظ بنانے کے لیے شادی سے قبل تھیلیسیمیا اسکریننگ ٹیسٹ کے لیے جو بِل منظور ہوا ہے، اس پر عمل درآمد کیا جائے۔ نکاح نامے میں ایک نئی شق کا اضافہ ہو، جس میں دولھا کے تھیلیسیمیا اسٹیٹس کا ذکر ہو۔ معاشرے کا ہر باشعور فرد تھیلیسیمیا کے مسئلے پر سنجیدگی سے غور کرے اور اس کے تدارک کی بَھرپور کوشش بھی کرے، بالخصوص میڈیا اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرے، کیوں کہ ایک صحت مند معاشرہ ہی مضبوط پاکستان کی بنیاد ہے اور صحت مند معاشرے کا شعور بیدار کیے بغیر خوش حال اور ترقّی یافتہ پاکستان کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں کیا ہوسکتا۔ (مضمون نگار، معروف ہیموٹولوجسٹ ہیں اور چلڈرن اسپتال، کراچی میں بطور چیف ایگزیکیٹو خدمات انجام دے رہے ہیں۔ نیز، پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) کے سینئر ممبر بھی ہیں)