شہباز کی نئی پرواز

May 15, 2022

میاں شہباز شریف کیلئے اقتدار میں آنا کوئی نئی بات نہیں، وہ اِس میدان میں کافی تجربہ کار ہیں۔ وہ پنجاب کے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے انتظامی معاملات کا خاصا تجربہ رکھتے ہیں۔ میاں شہباز شریف کے طرزِ سیاست سے اختلاف رکھنے والے بھی ان کی انتظامی صلاحیتوں کے قائل ہیں۔ وہ مشکل سے مشکل حالات سے نبردآزما ہونے کا ہنر جانتے ہیں۔ وہ پاکستان کے تجربہ کار سیاستدانوں میں شمار ہوتے ہیں۔ انہوں نے وزارتِ عظمیٰ کے منصب تک پہنچنے کیلئے طویل انتظار کیا لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے بھائی کے وفادار ساتھی بھی ثابت ہوئے۔ میں شریف فیملی کو بڑے قریب سے جانتا ہوں۔ میری میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف سے پہلی ملاقات ان کے اپنے ولیمے میں ہوئی۔ جب میں صرف 12سال کا تھا۔ دونوں بھائی انتہائی جانفشانی سے کام کرتے ہیں، جس کام کی دھن سوار ہو جائے اسے پایۂ تکمیل تک پہنچاکر ہی دم لیتے ہیں۔ انتظامی معاملات چلانے کے حوالے سے ان کے استاد ان کے والد میاں شریف مرحوم تھے۔ شہباز شریف وقت کی پابندی، کام سے لگن میں دن رات ایک کر دیتے ہیں۔ حافظہ انتہا کا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ شہباز شریف کو اندرونی اور بیرونی طورپر ایسے مسائل اور چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑے گا جن کو سوا سال کے قلیل عرصے میں حل تو نہیں کیا جاسکتا تاہم ان مسائل اور چیلنجوںسے پیش آنے کیلئے اُن کی پالیسیوںسے یہ اندازہ ہو جائے گا کہ وہ واقعی ملک کو استحکام اور ترقی کی راہ پر گامزن کر نے کیلئے سنجیدہ ہیں یا نہیں۔موجودہ اپوزیشن کی جانب سے وزیراعظم شہباز شریف کے چناؤ کے بائیکاٹ اور قومی اسمبلی سے اجتماعی استعفوں کے اعلان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اپوزیشن اس ان ہاؤس تبدیلی کے بعد بھی اپنی چالیں چلنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اپوزیشن کی خواہش جلد ازجلد انتخابات ہے جبکہ حکومت اس سے کتراتی اور جہاں تک ممکن ہو انتخابی مرحلے کو آگے لے جانا چاہتی ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ کثیر جماعتی اتحاد پر مشتمل وفاقی حکومت انتخابات کی تیاری کس طرح کرتی ہے؟یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ عمران خان کی حکومت پر سب سے بڑا اعتراض مہنگائی اور معاشی بد نظمی ہی کا تھا۔ چنانچہ حکومت کا بیڑا اٹھانے والوں کیلئے مہنگائی اور معاشی میدان میں کچھ نہ کچھ کر کے دکھانا سیاسی زندگی و موت کا مسئلہ بن چکا ہے۔ ان حالا ت میں حکومت یقیناً پھولوں کی سیج ثابت نہیں ہوگی۔ جا بجا چیلنجز ہیں۔ اگر فہرست بنائی جائے تو سب سے اوپر معیشت ہی کو رکھا جائے گا۔ منتخب وزیراعظم نے اپنے خطاب میں بھی اس کا تفصیلی ذکر کیا اور بنیادی تنخواہ 25ہزار روپے کرنے کا اعلان کیا۔ یہ بڑے پرکشش اعلانات ہیں مگر حکومت کیلئے اہم چیلنج یہ ہے کہ سابق حکومت کی جس مہنگائی کو وہ عوام کیلئے سب سے بڑی مصیبت کا باعث قراردیتی تھی اس میں نمایاں حد تک کمی کیسے کی جائے۔ اس کیلئے حکومت کو بجلی، پٹرول اور ڈیزل کے نرخوں میں کمی کرنا ہوگی۔ جبکہ اشیائے خورونوش کی جن اشیاء پر بھاری ٹیکس عائد کیے گئے ہیں ان کی شرح کو بھی نمایاں حد تک کم کرنا ہوگا۔ خوراک کی بہت سی اشیاء بیرون ملک سے آتی ہیں اور ڈالر مہنگا ہونے سے ان اشیاء کے نرخ قدرتی طور پر بڑھ جاتے ہیں حکومت کو ان اشیاء پر عائد ٹیکسوں میں بھی کٹوتی کرنی چاہیے۔

حکومت کو مہنگائی کم کرنے کیلئے سابق حکومت کی جانب سے اس سال جنوری میں عائد کیے گئے 343ارب روپے کے منی بجٹ پر نظر ثانی کرنا چاہیے۔ کھانے پینے کی اشیاء پر عائد جنرل سیلز ٹیکس کوتو ضرور ختم کرنا چاہیے تاکہ لوگوں پر مالی بوجھ میں کمی آئے۔ حکومت کو ضرور کچھ ایسا کرنا ہوگا جو اسے عمران خان کی حکومت سے مختلف ثابت کر سکے۔عدم اعتماد کی تحریک کے مراحل مکمل ہونے اور نئے وزیر اعظم کے انتخاب کے ساتھ معیشت کے افق پر چھائے اوہام کے سائے نظر آئے۔ اسٹاک ایکسچینج میں مثبت رجحان دیکھنے میں آیا، ڈالر کی پرواز بھی نیچے آئی تھی مگر اب پھر معیشت غیر یقینی کا شکار ہے،ڈالر تیزی سے پرواز کررہا ہے۔اس وقت شہباز شریف کیلئے بطور وزیراعظم سب سے بڑاچیلنج معاشی ہی ہے۔

چنانچہ دیکھنا یہ ہے کہ تاریخ پاکستان میں شہباز شریف صاحب کا نام بطور وزیراعظم کن حروف میں لکھا جاتا ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کی حیثیت سے ان کے کاموں کی شہرت دور دورتک تھی، کیا وہ اپنی نئی ذمہ داریوں میں بھی اس ریکارڈ کو قائم رکھیں گے؟ہماری دعائیں شہباز شریف کے ساتھ ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)