انداز عاشقی،محبوب کے نام کا ٹیٹو

May 16, 2022

حرف بہ حرف
رخسانہ رخشی ،لندن
زخم فرقت کو تیری یاد نے بھرنے نہ دیا
غم تنہائی مگر رخ پہ ابھرنے نہ دیا
ضبط اتنا کہ چراغوں سے ہوئے محو کلام
یاد اتنی کہ تجھے دل سے اترنے نہ دیا
جی ہاں پہلے کا انداز عاشقی کچھ ایسا ہی ہوا کرتا تھا کہ محبوب کو صرف اور صرف دل کے نہاں خانوں میں چھپاکر رکھا جاتا تھا کہ کہیں کوئی ہمارے دل کا راز نہ جان لے، کہیں ہمارے پیار کی خوشبو نہ پالے کوئی، ہمارے دل میں جس محبوب کا چہرہ چھپا ہے، اس کا چہرہ کسی کو دکھائی نہ دے جائے، حتیٰ کہ جس تصور جاناں کو ہم نے اپنے آپ سے بھی چھپا رکھا ہے، کہیں اس کے تصور کی جھلک ہی کوئی نہ پالے۔
عشق کے ہجر وصال تک کے کئی مراحل سے گزر کر بھی عاشق کے چہرے پر کسی بھی عشقیہ مراحل کی کٹھن تک کی کہانی اس کے کسی عمل عاشقی سے ظاہر نہ ہوپاتی۔ اس کے آہٹ کی آواز و نشاں تو کوئی کیا پائے بلکہ اس آئینے کو بھی توڑ دیا جاتا جہاں محبوب کا تصور و چہرہ نظر آئے کہ کوئی اس کا عکس نہ دیکھ لے۔زمانے کے چلن ہر دور میں بدلے ہیں، اسی طرح عاشقی و عشاق کی بھی اپنی ہی لے رہی ہے۔ اپنا اپنا انداز و مزاج رہا ہے۔کبھی محبت اور محبوبہ کو سات پردوں میں چھپا کر رکھا جاتا تھا کہ بس من ہی من میں چاہتے رہو۔ حتیٰ کہ جسے چاہا جائے اسے بھی پتہ نہ چلے۔ پھر ذرا عشاق بہادر ہوئے تو محبوبہ کو گھر والوں پر آشکار کرنا شروع ہوئے کہ یہ پسند ہے، شادی اسی سے ہوگی، پھر گھر والے بتاتے کہ فلاں فلاں پسند ہے، وہیں اپنے بیٹے کی شادی کریں گے۔ پھر اور آگے آتے ہیں تو عشق کے چرچے گلی، بازار، کوچوں میں گونجنے لگے اور عاشقین کے ساتھ ساتھ محبوب بھی بدنام ہونے لگے۔پھر سرعام عاشقی ہونے لگی، یعنی کھڑکی، چھتوں میں رقہ بازی سے بات نکل کر باغوں میں، ریسٹورنٹ میں ملاقاتیں ہونے لگیں۔ دیہاتی عاشق و محبوب کھیتوں میں اور میلوں میں ملنے لگے پھر تو آگے آگے جدت ہی جدت جیسے ہر معاملے میں ہوئی تو وہیں دو دلوں کے ملن چلن میں جدت وارد ہوئی، اب تو جو جسے پسند آئے تو وہ گھر والوں اور زمانے کی پروا کیے بغیر ایک دوسرے کے ساتھ علیحدہ رہنا شروع ہوئے، یعنی لو ان ریلشن شپ کا دور ہے۔ اپنے اپنے پیارے کو طویل تعلقات کے بعد یعنی اکٹھے ایک عرصہ گزارنے کے بعد آپ دنیا کو دکھانے کو شادی کے بندھن میں خود کو باندھ ہی لیتے ہیں یعنی اب تو آپ تمام رسوم و روایت اور حدود قیود سے آگے بڑھ گئے ہیں، پہلے جو نام محبوب کا بازار پر چھری یا کسی اور آلے سے چھیل کر کندہ کرایا جاتا تھا، اب اس کی جگہ بھی ٹیٹو نے لے لی ہے۔ کسی بھی جوڑے کو یورپ میں دیکھیے جو بھی ریلیشن میں ہیں وہ لڑکا ہے تو بازو پر گرل فرینڈل کا نام ٹیٹو کی صورت میں دکھائے گا اور لڑکیوں نے اپنی گردن پر محبوب کے نام کے ٹیٹو بنواکر سبھی کو ظاہر کرادیا کہ ہماری محبت گہری ہے، ہم گہرے تعلقات رکھتے ہیں۔ یورپین سیلیبرٹیز سے علاوہ بھارتی اداکار و اداکارائیں بھی پیچھے نہیں ہیں، ٹیٹو محبوب کے نام کے اپنی گردن پر بنواکر محبت ظاہر کرتے ہیں۔ یعنی وہ بات بھی گئی پوشیدہ محبت رکھنے والی اس شعر کی مانند جو تھی۔
ربط جو تجھ سے بنایا سو بنائے رکھا
تو ہی کیا تیرا تصور بھی بکھرنے نہ دیا!
عاشقین کے بعد جو لوگ ٹیٹو بنوانے کا شوق رکھتے ہیں وہ دنیا بھر کے کھلاڑی ہیں۔ فٹبال کے کھلاڑیوں کی تو پہچان ہی بعض مرتبہ ٹیٹو سے ہوتی ہے۔جیسے جیسے ٹیٹو نوجوان نسل میں مقبول ہورہے ہیں، ویسے ویسے ہی اس کی یعنی کہ ٹیٹو انڈسٹری دنیا بھر میں فروغ پا رہی ہے۔ بڑے بڑے پراجیکٹ چل رہے ہیں ٹیٹو کے۔ کچھ ممالک کی رو سے، قدامت پرستی کی رو سے اچھا نہیں جانا جاتا۔ مگر ثقافتی اور سماجی طور پر برداشت کر ہی لیا جاتا ہے۔ٹیٹو آرٹ ایک نہایت مشکل آرٹ ہے اور یہ کاروبار کی طرح پھیل رہا ہے۔ جاپان میں تو اس کے ماہر آرٹیسٹ موجود ہیں۔ 70فیصد کلائنٹس دنیا بھر سے یہاں آتے ہیں۔ جرمنی، برطانیہ سے علاوہ کہا جاتا ہے کہ امریکہ کے بہت سے ملٹری بیسز کے اسٹاف آتے ہیں بڑی تعداد میں۔ کہا یہ بھی جاتا ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد جاپانی ٹیٹوز جنہیں اپریزومی کہا جاتا ہے، انہیں مجرم گروہوں کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ کئی دہائیوں سے لے کر ابھی تک مافیا کے لوگ اپنی بہادری ثابت کرنے اور اپنی دولت نمایاں کرنے اور دیگر منسلک لوگوں کو اپنی شناخت کرانے کے لیے ٹیٹو کا استعمال کرتے تھے۔خیر ہمارے مذہب میں تو اس کی سختی سے ممانعت ہے۔ وضو تک جائز نہیں مگر اس کے باوجود پاکستان کے بہت سے جم میں ہم نے دیکھا کہ ہوشربا قسم کا میوزک اور ہمارے بہت سے نوجوان ٹیٹو زدہ جسم کے ساتھ ورک آئوٹ کرتے نظر آتے ہیں۔ یعنی ہمارے یہاں کا ماحول بھی یورپ سے کم نہیں، جم ہو یا کہیں ہم تو یہ سوچتے ہیں کہ ٹیٹو کے فیشن تو نوجوان نسل میں عام تو ہیں ہی مگر اس کی زد میں آکر لڑکیاں بھی نازک سی اس فیشن کو اپنا رہی ہیں۔ٹیٹو بنوانا ایک تکلیف دہ فیشن ہے۔ ہاتھ سے بنائے جائیں یا مشین سے دونوں ہی صورتوں میں تکلیف ہوتی ہے۔ جسم کو سوئیوں سے گودنا تکلیف دہ عمل ہے۔ ہمارے وہ عاشقین جو محبوب کا نام بازو پر گودنا تکلیف دہ عمل ہے۔ ہمارے وہ عاشقین جو محبوب کا نام بازو پر گودتے ہیں تو انہیں کوئی مشکل پیش نہ آتی ہوگی، ٹیٹو کی سوئیوں کی تکلیف سہنے میں۔ انداز عاشقی کہاں کہاں لے جاتی ہے انسان کو۔