قحط سالی کا عالمی خطرہ اور پاکستان

May 16, 2022

پاکستان جہاں آج سنگین معاشی ، سیاسی اور سماجی چیلنجوں سے دوچار ہے وہیں عالمی سطح پر وقوع پذیر ہونے والے منفی موسمی تغیرات سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ملکوں میں بھی شامل ہے۔ کرہ ارض کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت نے زمین کے ایک بڑے حصے کو خشک سالی اور اس کے نتیجے میں قحط کی سی صورت حال میں مبتلا ہوجانے کے خطرے سے دوچار کردیا ہے ۔ اقوام متحدہ کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق دنیا کے 23ممالک اس کی زد میں ہیں۔ اس فہرست میں افغانستان، انگولا، برازیل، برکینا فاسو، چلی، ایتھوپیا، ایران، عراق، قازقستان، کینیا، لیسوتھو، مالی، موریطانیہ، مڈغاسکر، ملاوی، موزمبیق، نائیجر، صومالیہ، جنوبی سوڈان، شام، پاکستان، امریکہ اور زیمبیا شامل ہیں۔ان ملکوں کو دو سال سے خشک سالی کی ہنگامی صورتحال کا سامنا ہے۔اقوام متحدہ کے خشک سالی کے خلاف اقدامات کرنے والے ادارے کی رپورٹ میں آئندہ تین عشروں تک رونما ہونے والے متوقع خطرات کی پیش گوئی کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ 2050 تک بھارت اور پاکستان کے مجموعی رقبے کے تقریباًمساوی40 لاکھ مربع کلومیٹرپر مشتمل مزید علاقوں کو بحالی کے اقدامات کی ضرورت ہوگی۔ ان اقدامات میں حیاتیاتی تنوع، پانی کے استعمال کے کفایت پر مبنی طریقے، مٹی اور کاربن کے تحفظ، اور ماحولیاتی نظام کے اہم افعال کی فراہمی خاص طور پر اہمیت کے حامل ہیں۔خشک سالی کا یہ چیلنج انسانی برادری کو کتنے بڑے پیمانے پر متاثر کرے گا، اس کا اندازہ اس انکشاف سے لگایا جاسکتا ہے کہ کرہ ارض کی 40 فیصد تک زمین تنزلی کا شکار ہے۔عالمی معیشت پر اس صورت حال کے اثرات کس قدر تباہ کن ہوں گے، رپورٹ میں اس پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ 44 ٹریلین ڈالر مالیت کی عالمی جی ڈی پی کا تقریباً نصف خطرے کی زد میں ہے۔ رپورٹ کے مطابق جدید تاریخ کے کسی اور موڑ پر انسانیت کو ایسے نا مانوس خطرات کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ رپورٹ میں خشک سالی اور موسمی تبدیلیوں کے اس غیر معمولی اور ہولناک چیلنج سے نمٹنے طریقوں اور ان پر عمل درآمد کے لیے مطلوب مالی وسائل کی تفصیلات بھی شامل ہیں۔تاہم پاکستان کا اس خطرے سے براہ راست دوچار 23 ملکوں میں شامل ہونا پاکستان کے حکمرانوں، قومی رہنماؤں اور پوری قوم کیلئے یقینا فوری توجہ طلب معاملہ ہے۔ ہوشمندی کا تقاضا ہے کہ اقوام متحدہ کے اقدامات کا انتظار کیے بغیر ہم اپنے طور پر جوکچھ کرسکتے ہیں وقت ضائع کیے بغیر پورے اہتمام کے ساتھ اس کا آغاز کردیں۔ کئی عشروں سے عالمی ادارے خبردار کررہے ہیں کہ پاکستان میں پانی کی قلت مسلسل بڑھ رہی ہے اور گزشتہ دنوں اسلام آباد میں ہونے والے ایک سیمینار میں بتایا گیا تھا کہ 2025ء تک پاکستان پانی کی انتہائی قلت والے ملکوں میں شامل ہوجائے گا۔ان انتباہات کا تقاضا تھا کہ ملک میں پانی ذخیرہ کرنے کے تمام ممکنہ طریقوں کو جنگی بنیادوں پر فروغ دیے جانے کی مہم شروع کردی جاتی۔ بارش کے پانی کو جس کا بیشتر حصہ سمندر میں جاکر ضائع ہوجاتا ہے، ڈیم نہ سہی کم از کم وسیع میدانی اور صحرائی علاقوں میں جھیلیں بناکر محفوظ کیا جاتا۔سمندری پانی کو میٹھا بنانے کے پلانٹ بڑے پیمانے پر لگائے جاتے ۔ زرعی فصلوں کو پانی دینے کے انتہائی کفایت شعاری پر مبنی جدید طریقوں کو ملک بھر میں متعارف کرایا جاتا ۔ موسمی تغیرات کی روک تھام کیلئے شجرکاری کی حقیقی اور نتیجہ خیز مہمات چلائی جاتیں، لیکن ہماری عاقبت نا اندیشی کا یہ عالم ہے کہ ہمیں سیاسی جنگ و جدل ہی سے فرصت نہیں جبکہ ہر نوع کی تباہی و بربادی ہمارے سروں پر منڈلارہی ہے۔بحیثیت قوم ہم نے اب بھی ہوش کے ناخن نہ لیے اور ملک کو درپیش کوخوفناک چیلنجوں سے متحد ہوکر نمٹنے کے اقدامات شروع نہ کیے تو خدا نخواستہ ہماری قومی سلامتی کی کوئی ضمانت باقی نہیں رہے گی۔