مردہ چکن کا کاروبار

May 16, 2022

پشاور کی ضلعی انتظامیہ نے تین ہزار سے زائد مردہ مرغیاں موقع پر برآمد کرکے اس دھندے میں شامل تین رکنی گروہ کو سرغنہ سمیت گرفتار کر لیا۔ ملزمان مردہ چکن شہر کے ریستورانوں، شوارما اور برگر بنانے والے مراکز پر سپلائی کرتے تھے۔ اگر ایک ہی شہر میں روزانہ اوسطاً متذکرہ مقدار میں مردہ جانوروں کا گوشت استعمال کیا جاتا ہے تو اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ماہانہ اور سالانہ بنیادوں پر یہ حجم کتنا ہوگا جو لاکھوں افراد کی خوراک بنتا ہے ۔ پھر یہ توایک شہر کے اعداد و شمار ہیں جبکہ دیگرعلاقوں میں بھی ایسا ہونا بالکل قرین قیاس ہے۔ اس بارے میں خبریں آئے دن میڈیا کا حصہ بنتی بھی رہتی ہیں۔ حتیٰ کہ وفاقی دارا لحکومت سے بھی ایسی اطلاعات سامنے آتی رہی ہیں۔ یہ صورتحال متعلقہ محکموں کے لیے ایک سوالیہ نشان ہے۔ مردہ جانور کا گوشت انسانی صحت کے لیے انتہائی مضر ہی نہیں قرآن کی رو سے صریحاً حرام بھی ہے۔ جانور کے جسم میں شامل پروٹین ہلاک ہو جانے اور خون خارج نہ ہونے اور منجمد ہوجانے کی وجہ سے اس کا گوشت انسان کے لئے فوڈ پوائزننگ اور ڈائریا حتیٰ کہ متواتر استعمال سے ٹائیفائیڈ کا موجب بنتا ہے۔ نوجوان نسل کا رجحان فاسٹ فوڈ کی طرف تیزی سے بڑھا ہے جس کا موقع پرستوں نے منفی فائدہ اٹھایا۔ پشاور کے اس واقعے کا ضلعی انتظامیہ نے بجا طور پر سخت نوٹس لیا ہے تاہم اس امر کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ ملک کے اکثر مقامات پر ملزمان کو رشوت لے کرچھوڑ دیا جاتا ہے یا ان رجحانات سے چشم پوشی کی جاتی ہے۔ ضروری ہوگا کہ ان کے مکمل تدارک کے لیے قوانین میں ایسی ترامیم کی جائیں کہ اس مضر صحت اور ناجائز کاروبار کے جاری رہنے کا کوئی امکان باقی نہ رہے۔ اس کے لیے فوڈ کنٹرول کے اداروں کی بھی سخت اوایک سے زائد مراحل پر مبنی نگرانی کا نظام قائم کرنا ضروری ہے ۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998