ناجائز مقدمہ درج کرنے پر FIA افسرکیخلاف دوبارہ تحقیقات شروع

May 19, 2022

کراچی (اسد ابن حسن) وزارت داخلہ کی ہدایت کے تناظر میں ڈی جی ایف آئی اے نے ایک سرکاری افسر کے خلاف پہلے جانبدارانہ انکوائری اور پھر ناجائز مقدمہ درج کرنے کی ایف آئی اے افسر کے خلاف تحقیقات دوبارہ شروع کرنے کی کارروائی کا فیصلہ کیا ہے۔ مذکورہ انکوائری اس وقت کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر افتخار سے متعلق ہے جن کے خلاف انہی کے ادارے میں تعینات سابق ڈائریکٹر کیپٹن (ر) شعیب نے کی تھی اور ادارے کے چار افسران بشمول افتخار کے خلاف سخت کارروائی کی سفارش کی گئی تھی مگر مذکورہ انکوائری کی فائل دبا دی گئی۔ اس حوالے سے بدھ 18مئی 2022ء کو وزارت داخلہ کے سیکشن آفیسر عثمان احمد نے ڈائریکٹرجنرل ایف آئی اے کو دو مراسلے بھیجے ہیں، ایک میں مرید رحمون کے خلاف درج ناجائز مقدمے (9/2016) جس کے تحقیقاتی افسر اے ڈی افتخار تھے کے حوالے سے ہدایت دی ہے کہ اس کیس سے متعلق تحقیقاتی افسر کے خلاف ری انکوائری/فیکٹ فائنڈنگ دوبارہ کسی گریڈ 20افسر سے کرائی جائے۔اس کے علاوہ دوسرے مراسلے میں اے ڈی افتخار اور سابق سپرنٹنڈنٹ وزارت داخلہ ایف آئی اے ونگ کے دونوں افسران کے خلاف غفلت اور نااہلی کا دوبارہ نوٹس لینے کی کارروائی کرنے کی ہدایت دی ہے۔ یہ معاملہ بھی ایک برس سے زیرالتوا ہے۔ دستاویزات کے مطابق 2018ء میں انکوائری آفیسر کیپٹن شعیب نے رپورٹ دی کہ افتخار نے 2016ء میں ایک اعلیٰ افسر کو سرکاری رہائش گاہ کی حوالگی کے تنازع میں فیور دینے کیلئے بیرون ملک تعینات گریڈ 19کے افسر مرید رحمون کے خلاف ایک جانبدارانہ تحقیقات شروع کی اور پھر مقدمہ نمبر 9/2016درج کرکے گرفتار کرلیا اور دوران حراست مبینہ طور پر شدید تشدد کیا۔ کچھ عرصے بعد عدالت کے حکم پر ڈی جی کی ہدایت پر کیپٹن شعیب نے انکوائری کی اور ایف آئی اے افسران کو قصوروار ٹھہراتے ہوئے سخت کارروائی کی سفارش کی تھی۔ اس کے علاوہ دوران ایف آئی اے ملازمت افتخار تنازعات اور تادیبی کارروائیوں کا شکار رہے۔ ان کے خلاف کئی انکوائریاں ہوئیں اور ایک مقدمہ بھی درج ہوا۔ اُنہوں نے ایف آئی اے کے بین الصوبائی تبادلوں کی پالیسی پر بھی افسران کو مس گائیڈ کیا- افتخار کو سوالات بھیجے اور فون بھی کئے گئے جو اُنہوں نے اٹینڈ نہیں کئے، باوجود اس کے کہ ان کو تعارف کا میسیج پہلے کیا گیا تھا۔ اُنہوں نے واٹس ایپ اور نارمل میسیجز تین یوم تک دیکھنے کے باوجود جواب نہیں دیئے۔ تاہم ان کے ایک قریبی جاننے والے تمام الزامات کو غلط اور بہتان قرار دیا اور کہا کہ افتخار نے متعدد انکوائریاں کی ہیں اس میں جس کیخلاف فیصلے ہوئے انہوں نے بے بنیاد الزامات لگائے ہیں ۔ ری انکوائری کے حوالے سے ایڈیشنل ڈائریکٹر ہیومن ریسورس قاضی عبدالحمید سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ وہ ٹرانسفر اینڈ پوسٹنگ کے معاملات دیکھتے ہیں اور اس حوالے سے ایڈیشنل ڈائریکٹر سائبر کرائم ہیڈکوارٹر طارق پرویز بہتر بتاسکتے ہیں۔ طارق پرویز کا کہنا تھا کہ ان کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں۔ اس پر ڈپٹی ڈائریکٹر اینٹی کرپشن سرکل کوارٹر اعجاز خان روشنی ڈال سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے علم میں ایسی کوئی ری انکوائری ہونے کا علم نہیں۔ اسی حوالے سے متاثرہ افسر مرید رحمدن کا کہنا تھا کہ ان کے علم میں نہیں کہ دی ہوئی انکوائری دوبارہ شروع کردی گئی ہے۔ وہ اسلام آباد میں تعینات نہیں سندھ میں تعینات ہیں۔ ماضی میں انسانی اسمگلنگ کا مقدمہ درج کرنے اور افتخار اور رحیم داد کو حراست میں لینے والے سابق ڈپٹی ڈائریکٹر شاہد پرویز کا کہنا تھا کہ یہ بہت عرصہ پہلے کی بات ہے۔ ان کو یاد نہیں۔ ہوسکتا ہے کہ میں نے طلب کیا ہو، ویسے بھی افسران کے خلاف انکوائریاں ہوتی رہتی ہیں اور مقدمہ بھی درج ہوجاتا ہے۔ میرے خود کے خلاف دوران سروس تین مقدمات درج ہوئے جو جھوٹ ثابت ہوئے۔