جرائم کے غیر معمولی واقعات میں اضافہ

May 29, 2022

سندھ میں بڑھتے ہوئے جرائم اور جرائم پیشہ عناصر پر پولیس کی کمزور پڑتی ہوئی گرفت کی بڑی وجہ پولیس کے تفتیشں کے شعبے کا غیر فعال ہونا ہے، سندھ میں 12 سال سے پولیس کا دُہرا نظام قائم ہے، جس کے باعث سندھ کے اکثریتی اضلاع میں پولیس کی کارکردگی متاثر ہورہی ہے۔ کراچی ڈویژن میں ایک نظام اور سندھ کے دیگر 23 اضلاع میں دوسرا نظام، صوبائی حکومت اور آئی جی سندھ کی کارگردگی پر سوالیہ نشان ہے۔

دہرے نظام کے تحت سندھ کے 23 اضلاع میں ایس پی انویسٹیگیشن اور سیکڑوں تھانوں میں اسٹیشن انویسٹیگیشن افسسر کی پوسٹیں ختم کرنے سے پولیس میں تفتیش کا اہم شعبہ بُری طرح متاثر ہورہا ہے اور آپریشنل پولیس کی مشکلات میں اضافے کے ساتھ جرائم اغواء برائے تاوان چوری ، ڈکیتی لوٹ مار اور اسٹریٹ کرائم سمیت جرائم کی وارداتوں میں اضافہ ہوا ہے۔

خاص طور پر اغواء برائے تاوان کی تیزی سے بڑھتی ہوئی وارداتیں ، قومی شاہراہ ، انڈس ہائی وے لنک روڈ سمیت شہری دیہی علاقوں میں جرائم کی وارداتوں کا گراف اوپر جارہا ہے۔ کراچی میں پولیس کا آپریشن اور انویسٹیگیشن کا شعبہ الگ الگ ہے اور کراچی کے ہر ضلع میں ایس پی انویسٹیگیشن اور ہر تھانے میں اسٹیشن انویسٹیگیشن افسر اور اس کا عملے سمیت مکمل شعبہ قائم ہے، جب کہ حیدرآباد اور سکھر ، شہید بے نظیر آباد، میرپورخاص، لاڑکانہ ڈویژن کے 23 اضلاع میں گزشتہ 12 سال سے نہ ایس پی انویسٹیگیشن اور نہ ہی تھانوں میں انویسٹیگیشن افسر تعینات ہیں۔

آپریشنل پولیس ہی انویسٹیگیشن کے فرائض انجام دے رہی ہے، جس میں تفتیش کے حوالے سے اکثریت ناتجربہ کار افسران کی ہے، جس کا زیادہ تر فائدہ جرائم پیشہ عناصر کو پہنچ رہا ہے۔ اور مدعی کی مشکلات میں اضافہ ہورہا ہے، کیوں کہ دُرست تفتیش نہ ہونے اور کمزور کیس کے باعث جرائم پیشہ عناصر سزا سے بچ جاتے ہیں اور وہ مدعی کو پھر دھمکیاں لگاتے اور پریشان کرتے ہیں سابق صدر پرویز مشرف نے پولیس میں اصلاحات لانے کے لیے پولیس ایکٹ 1861 کو تبدیل کرتے ہوئے پولیس ایکٹ 2002 متعارف کرایا، جس میں آپریشن اور انویٹیگیشن پولیس کے شعبے کو الگ الگ کیا گیا، تاکہ آپریشنل پولیس امن و امان کی فضا کو بحال رکھنے اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف سرگرم عمل رہے اور انویسٹیگیشن پولیس بہتر انداز میں تفتیش کا عمل مکمل کرکے جرائم پیشہ عناصر کے خلاف مضبوط کیس بنائے اور مجرم سزا سے نہ بچ سکے اور مدعی کو اور بے گناہ افراد کو ریلیف مل سکے۔

تاہم حکومت کی تبدیلی کے بعد سندھ اور بلوچستان کی حکومتوں نے پولیس ایکٹ 1861 کو ترجیح دی ، پنجاب نے پولیس آڈر 2002 کو کچھ تبدیلیوں کے ساتھ باقی رکھا اور خیبر پختونخواہ نے 2017 میں اپنا پولیس لاء نافذ کیا، جس کے نتائج دیگر تمام صوبوں سے بہتر دکھائی دیتے ہیں۔ سندھ حکومت نے2011 میں پولیس آڈر 2002 کو ختم کرکے دوبارہ سابقہ پولیس ایکٹ بحال کیا اور سندھ کے تمام اضلاع میں جو ڈی پی او کا عہدہ تھا، اس کی جگہ دوبارہ ایس ایس پی کے عہدے کو بحال کیا گیا۔

یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ حکومت سندھ کے 23 اضلاع سے انویسٹیگیشن کے شعبے کو ختم کرکے آپریشن کے ساتھ منسلک کردیا گیا، ان 23 اضلاع میں ایس پی انویسٹیگیشن اور کئی سو تھانوں سے اسٹیشن انویسٹیگیشن افسر کی پوسٹ ختم کردی گئیں، لیکن کراچی کے ہر ضلع میں 2002 سے آج تک ایس پی انویسٹیگیشن اور تمام تھانوں میں اسٹیشن انویسٹیگیشن افسران اور عملے سمیت پورا ایک شعبہ قائم ہے، لیکن سندھ کے دیگر 23 اضلاع میں کسی بھی ضلع میں یہ نظام قائم نہیں ہے۔

ان اضلاع کو نظرانداز کرنے سے یہاں شعبہ تفتیش کے غیر فعال ہونے کے باعث تفتیشی عمل بُری طرح متاثر ہورہا ہے۔ ضلع میں تعینات آپریشن پولیس افسران کی عدم توجہی کے باعث مختلف مقدمات التوا کا شکار ہونے سے مدعی مشکلات سے دوچار رہتے ہیں، کیوں کہ تھانوں پر تعینات آپریشن اسٹاف کو مقدمات میں تفتیشی افسر مقرر کرکے متعدد کیس خراب اور کمزور بنتے ہیں، جس کی وجہ تفتیش کرنے والے افسران کو قانون پر عبور نہ ہونا بتائی جاتی ہے، اس سے مقدمات میں مطلوب اصل ملزمان کو فائدہ ہوتا ہے۔

کراچی میں پولیس کا شعبہ آپریشن اور انویسٹیگیشن کا الگ ہونا پولیس کے لیے بہت اچھی بات ہے اور سندھ میں اگر بہترین پولیسنگ، پولیس کو جدید خطوط پر استوار کرنے ، پولیس کو اسلحے کے ساتھ جدید ٹیکنالوجی سے لیس کرنے اور پولیس کی کارکردگی کو بہتر بنانے کی بات آئے گی، تو سابق آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کا نام ضرور سامنے آئے گا۔

کراچی میں انویسٹیگیشن کے شعبے میں جدت لانے کے لیے لائرز کی بہ طور انسپیکٹر انویسٹیگیشن بھرتی کے لیے بھی اے ڈی خواجہ کے ٹائم میں سندھ پولیس نے حکومت کو 2016 کے آخر میں تجویز ارسال کی تجویز میں بتایا گیا کہ ٹارگیٹڈ آپریشن کے دوران ہزاروں مشتبہ افراد کو دہشت گردی ، قتل ، بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان سے متعلق مقدمات میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا، لیکن ان کی سزا اب بھی ایک بڑا چیلنج بنی ہوئی ہے، جس کی بنیادی وجہ کمزور تحقیقات ہیں اور پولیس حکام کا خیال ہے کہ ایک کمزور تفتیشی سیکشن نہ صرف مجموعی طور پر پولیسنگ کو متاثر کررہا ہے، بلکہ مجموعی طور پر سالانہ امن و امان کے بجٹ پر بھی منفی اثر ڈال رہا ہے ، کیوں کہ پولیس مجرمانہ سزا کی شرح میں کمی کی وجہ سے آپریشنل پارٹی پر زیادہ رقم خرچ کرنے پر مجبور ہے۔

حکومت سندھ نے 200 انسپکٹرز شعبہ تفتیش کی خدمات حاصل کرنے کی تجویز کی منظوری دے دی اور صرف کراچی کے لیے2019 اور 2020 میں 200 انسپیکٹر انویسٹیگیشن بھرتی کئے گئے، جو سندھ پولیس کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ ڈائریکٹ انسپیکٹر انویسٹیگیشن بھرتی کئے گئے، جو تمام کے تمام لاء گریجویٹ ہیں، جنہیں قانون پر عبور حاصل ہوگا، لیکن بعض پولیس افسران کے مطابق سندھ کے 23 اضلاع کو اس حوالے سے مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا ہے۔

کراچی میں پہلے ہی ایس پی انویسٹیگیشن اور افسران موجود ہیں، لیکن ان نئے لاء گریجویٹ انویسٹیگیشن افسران کی بھرتی سے تفتیش کا شعبہ مزید اپ گریڈ اور فعال ہوگا۔ تاہم سندھ کے تمام اضلاع کو اس طرز کے انویسٹیگیشن شعبے کی اشد ضرورت ہے کیوں کہ ایف آئی آر کے بعد آپریشن پولیس کا کام ختم اور انویسٹیگیشن پولیس کا کام شروع ہوجاتا ہے، لیکن اب سکھر سمیت سندھ کے 23 اضلاع میں صورت حال یہ ہے کہ تھانے کا ایس ایچ او کسی بھی اے ایس آئی کو انویسٹیگیشن سپرد کردیتا ہے، جس کو نہ اس کا تجربہ ہوتا ہے اور نہ ہی قانونی معلومات، دوسرا وہ آپریشن سے ہوتا ہے، تو دیگر کاموں کے باعث تفتیش کو مکمل ٹائم نہیں دے پاتا ، جس سے کیس التوا کا شکار اور اس کا فائدہ ملزمان کو ملتا ہے۔

یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ سندھ کے جن 23 اضلاع میں 2011 میں انویسٹیگیشن کے شعبے کو ختم کیا گیا تھا اور اس شعبے کو آپریشن سے منسلک کردیا گیا تھا ،تو اس وقت جو 23 اضلاع کے انویسٹیگیشن افسران اور اہل کاروں دفاتر گاڑیوں سمیت دیگر مراعات کے لیے جو بجٹ مقرر کیا تھا، وہ بجٹ بھی اس نظام کے ساتھ ہی لپٹ گیا، اگر ایسا ہے تو فوری طور پر بجٹ بحال کرکے سکھر اور حیدرآباد ، شہید بے نظیر آباد، میرپور خاص اور لاڑکانہ ڈویژن کے 23 اضلاع میں انویسٹیگیشن کے شعبے کو آپریشن سے الگ کرکے تمام اضلاع میں ایس پی انویسٹیگیشن تعینات کیے جائیں اور تمام تھانوں میں انویسٹیگیشن کے شعبوں کو دوبارہ قائم کرکے اسٹیشن انویسٹیگیشن افسر اور عملہ تعینات کیا جائے اور بعد ازاں کراچی کی طرز پر لاء گریجویٹ نوجوانوں کو انویسٹیگیشن انسپیکٹر رکھا جائے۔