غیر مسلم کے قبولِ اسلام کے بعد نام تبدیل کرنے کی شرعی حیثیت

May 27, 2022

تفہیم المسائل

سوال: ایک عاقلہ وبالغہ لڑکی عیسائی مذہب سے تائب ہوکر اسلام قبول کرچکی ہے، تمام دستاویزات میں اس کا نام’’ کرسٹینا‘‘ درج ہے ،کیا قبولِ اسلام کے بعد نام بدلنا ضروری ہے ،کیا اس کا نکاح اسی نام سے کیاجاسکتاہے؟(حافظ جمشید ، لاہور)

جواب: نکاح ایجاب وقبول سے درست منعقد ہوجاتا ہے، مجلسِ نکاح میں فریقین موجود ہوں تو نام لینے کی بھی حاجت نہیں، براہِ راست ایجاب وقبول کافی ہے ۔اَحادیثِ مبارکہ میں اچھے اور بامعنیٰ نام رکھنے کی ترغیب دلائی گئی ہے۔ اگر کسی نام کے معنیٰ اچھے نہ ہوں یا اُس میں تَعَلّی پائی جاتی ہو،تو بدل دینا چاہیے ، رسول اللہ ﷺ نے متعدد لوگوں کے نام تبدیل فرمائے :ترجمہ:’’اُمّ المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : ’’رسول اللہ ﷺ برے نام کو تبدیل فرمادیتے تھے ، (سُنن ترمذی:2839)‘‘۔

رسول اللہ ﷺ نے اَصرَم (یہ صَرم یعنی کاٹنے کے معنیٰ میں اسمِ تفضیل ہے )نام کو بدل کر ’’زُرعہ‘‘ رکھا ، اس کے معنیٰ بیج کے ہیں یعنی قابلِ کاشت زمین ۔اِسی طرح آپ نے عاص ، عزیز ، عَتَلہ، شیطان ،حکم ،غُراب(دوری، کوا) ،حُباب (شیطان کا نام )اور شِہاب(آگ کا شعلہ) ناموں کو بھی تبدیل فرمایا۔عاص کا مادہ اگر عصیان ہو تو اس کے معنیٰ ہیں نافرمان ۔عزیز کے معنیٰ ہیں: غالب اور یہ اللہ کی صفت ہے ،بندے کی صفت عبد ہے جو تذلُّل، تواضع اور خُشوع وخُضوع کے معنیٰ میں آتا ہے، لہٰذا عبدالعزیز نام رکھنا چاہیے ،عَتَلہ کے معنیٰ سختی کے ہیں۔

دینی و معاشرتی اور خاندانی اَقدار کا پاس کرتے ہوئے نام بدلنا اچھا ہے۔مسلمانوں میں اس طرح کے ناموں کا رواج نہیں پایا جاتا ، احتیاطاً بدل دینا بہتر ہے ،علامہ نظام الدین ؒلکھتے ہیں: ترجمہ:’’کُتُبِ فتاویٰ میں ہے: ایسانام رکھنا جس کا ذکر نہ قرآن میں ہو ،نہ احادیث میں اور نہ ہی مسلمانوں میں ایسانام مستعمل ہو ، اس میں علماء کا اختلاف ہے ، بہتریہ ہے کہ نہ رکھے، جیسا کہ ’’محیط ‘‘میں ہے،(فتاویٰ عالمگیری ، جلد5،ص:362)‘‘۔اگر نام میں کفریہ عقیدے یا نظریے کی کوئی مشابہت یا وضاحت پائی جاتی ہو ، تو اُسے اسلامی نام سے تبدیل کردینا واجب ہے ۔

شیخ ابن عثیمن لکھتے ہیں: ’’ اگر کوئی نام کفار کے ساتھ ہی خاص ہوکہ کفار کے علاوہ کوئی اور یہ نام نہ رکھتا ہو تو اس کابدلنا بھی واجب ہے۔ تاکہ کفار سے مشابہت نہ ہو اور اس نام سے اس کے سابقہ متروکہ مذہب کی طرف جھکاؤ محسوس نہ ہو یا پھر اُسے اس تہمت کا سامنا نہ کرنا پڑے کہ ابھی تک اس نے (دل سے) اسلام قبول نہیں کیا، (اَلْاِجَابَات عَلٰی اَسئِلۃِ الْحَالیات،ص:4-5)‘‘۔

Christina کے معنی ہیں: ’’مسیح کا پیروکار‘‘، اگرکوئی حضرت مسیح علیہ السلام کو ’’اِبْن اللہ‘‘ یا ’’ ثَالِثٌ ثَلٰثہ‘‘ (تین میں سے تیسرا) یعنی الوہیت کے اُقنوم ثلٰثہ میں سے ایک اقنوم (یا جزواصلی)نہیں مانتا ،صرف ان کی پیروکاری کا دعویٰ کرتا ہے ، تو مسیح علیہ السلام کی جو تعلیمات ہماری شریعت میں منسوخ نہیں ہیں ،اُن کی پیروی جائز ہے، کیونکہ وہ دراصل خاتم النبیین ﷺ ہی کی پیروی ہے ، اسےعام اصطلاح میں ’’تَوَارُد‘‘ کہتے ہیں ، قرآن کریم میں انبیائے سابقین کا ذکر فرمانے کے بعد فرمایاگیا : ترجمہ:’’(اے رسولِ مُکرّم ﷺ! ) توآپ بھی ان کے طریقے پر چلیں ،(سورۂ انعام:90)‘‘۔یہ بھی ایک طرح سے اسلام کے اصولی عقائد اور بعض دینی واخلاقی تعلیمات کا تسلسل ہے ، یہ مطلب نہیں کہ انبیائے سابقین خاتم النبیین ﷺ کے مقتدا ہیں ،جیسے توحید ، رسالت، کُتبِ الٰہی ، بَعث بعدالموت اور تقدیر پر ایمان وغیرہا اسلام کے مُسلّمہ عقائد ہیں ، جو اَزل سے چلے آرہے ہیں ، اس میں کسی کی تقلید کا کوئی دخل نہیں ہے ۔ (جاری ہے…!)

اپنے مالی وتجارتی مسائل کے حل کے لیے ای میل کریں۔

tafheemjanggroup.com.pk