شرح سود ظالمانہ نہ ہو، پھر بھی سود ناجائز ہے

May 27, 2022

آپ کے مسائل اور اُن کا حل

سوال: آج کے دور میں ہر قسم کے سود کو منع کیا جاتا ہے، حالانکہ قرآن کریم نے دگنے تگنے اور دو چند سود لینے کی ممانعت کی ہے، جس کا مطلب یہی ہے کہ سود کی شرح بہت زیادہ نہیں ہونی چاہیے، اگر شرح سود معقول ہو اور ظالمانہ نہ ہو تو میرے خیال میں قرآنِ کریم اس سے منع نہیں کرتا ؟اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

جواب: آیت کا جومطلب آپ نے سمجھا ہے ،وہ بالکل ہی غلط ہے۔ دو چند اور سہ چند کہہ کر قرآنِ کریم نے سود کی مزید قباحت کو بیان کیا ہے کہ سود خود ظلم ہے اور جب دوچند اور سہ چند ہو تو پھر ظلم در ظلم ہے۔یہ ایسا ہی ہےجیسا کہ دوسری جگہ ارشاد ِباری تعالیٰ ہے: میری آیتوں کو تھوڑے داموں نہ بیچو،اس آیت سے کوئی بھی عقل مند یہ نتیجہ نہیں نکال سکتا کہ زیادہ دام پر قرآنی آیتوں کو بیچنا جائز ہے۔ یا جیسا کہ ایک اور جگہ حق تعالیٰ کاارشاد ہے: اپنی باندیوں کو بدکاری پر مجبور نہ کرو، اگر وہ پاک دامن رہنا چاہتی ہوں ،اس آیت کا بھی یہ مطلب سمجھنا غلط ہےکہ اگر وہ پاک دامنی نہ چاہتی ہوں تو ان کو بدکاری پرمجبور کرنا جائز ہے۔ بہرحال برائی کم ہو یا زیادہ، وہ برائی ہے اور سود سے بڑھ کر کوئی برائی نہیں اور اس برائی سے قرآن وسنت نے سختی سے روکا ہے۔

یہ تو اس آیت کی تفہیم کے حوالے سے وضاحت ہے، جس کے سمجھنے میں آپ سے غلطی ہوئی ہے، جہاں تک قرآنِ کریم میں سود کی ممانعت کی بات ہے تو قرآنِ کریم کے نزول کے وقت سود کی مختلف صورتیں رائج تھیں، معمولی شرح سود پر بھی قرض دیا جاتا تھا، اور یہ صورت بھی رائج تھی کہ مدتِ مقررہ پر قرض ادا کرنے کی صورت میں اضافی رقم وصول نہیں کی جاتی تھی، پھر جیسے جیسے مدت بڑھتی جاتی تھی مدت کے مطابق اس میں اضافہ ہوتا رہتا تھا، قرآنِ مجید میں سود کی ان سب ہی صورتوں کی ممانعت وارد ہے، لہٰذا دو جگہ مطلقًا سود کو حرام قرار دیا گیا اور ایک جگہ اسے دو چند اور سہ چند کرکے لینے کی مزید مذمت فرمائی ہے۔

اپنے دینی اور شرعی مسائل کے حل کے لیے ای میل کریں۔

masailjanggroup.com.pk