تجزیہ: پٹرول پر سبسڈی کے پاکستانی معیشت پر منفی اثرات

May 26, 2022

تعطل کے شکار عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) پروگرام کو دوبارہ بحال کرنے کی خاطر شہباز شریف کی اتحادی حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 30 روپے اضافے کا اعلان کردیا۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ناگزیر ہوگیا ہے کیونکہ موجودہ حکومت عمران خان کی حکومت کی جانب سے اعلان کردہ سبسڈی برداشت نہیں کرسکتی۔

وزیر خزانہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ اسی وجہ سے حکومت نے پٹرول، ڈیزل، مٹی کے تیل اور لائٹ ڈیزل کی قیمتوں میں 30 روپے اضافے کا فیصلہ کیا ہے، جبکہ نئی قیمتوں اطلاق 27 مئی سے ہوگا۔

پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ درست ہے یا نہیں؟ یہ جاننے کے لیے جنگ نے تجزیہ کاروں سے ان کی رائے لی۔

’یہ سبسڈی مالیاتی نظام کو نقصان پہنچارہی تھی‘

صحافی مہتاب حیدر کا ماننا ہے کہ سبسڈی واپس لینا پاکستان کے لیے انتہائی ضروری تھا کیونکہ یہ پاکستان کے مالیاتی نظام کو نقصان پہنچا رہی تھی۔

انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف نے اسلام آباد کو پیغام دیا تھا کہ اگر حکومت پٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی کو ختم کرنے میں ناکام رہی تو وہ پاکستان کے لیے اپنے پروگرام کو دوبارہ بحال نہیں کرے گا۔

مہتاب حیدر نے کہا کہ ’حتیٰ کہ ابھی حکومت نے عالمی مالیاتی ادارے کی جانب سے رکھی گئی شرائط کو جزوی طور پر قبول کیا۔ لہٰذا یہ حکومت کے لیے آئی ایم ایف کو پاکستان کے لیے اپنا پروگرام شروع کروانے کے لیے قائل کرنے کا ایک ٹاسک ہوگا۔ اس کے بغیر پاکستان کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ بڑھتا رہے گا کیونکہ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کم ہورہے ہیں۔ یہی وہ وجہ ہے کہ ہم ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے پر دباؤ دیکھ رہے ہیں۔

انہوں نے اعتراف کیا کہ حکومت نے ایک ’سخت فیصلہ‘ لیا ہے لیکن اس کے پاس ملک کی معیشت کو دوبارہ اٹھانے کے لیے کوئی دوسرا آپشن موجود نہیں تھا۔

’آج کی سبسڈی کل کا قرضہ ہوگا‘

ایلفا بیٹا کور کے چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) خرم شہزاد نے جنگ کو بتایا کہ 1300 سی سی، 3 ہزار سی سی اور 4 ہزار سی سی انجن کی حامل بڑی گاڑیاں بڑا فیول ٹینک رکھتی ہیں اور وہ پٹرولیم مصنوعات پر دی جانے والی سبسڈی کا فائدہ اٹھا رہی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر ملک میں فی لٹر پٹرول کی قیمت 250 تک پہنچ جائے تو ایسی گاڑیاں رکھنے والوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا، لیکن ایک ایسا شخص جو موٹر سائیکل چلاتا ہو یا پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرتا ہو، وہ اس سے سب سے زیادہ متاثر ہوگا۔

انہوں نے تجویز دی کہ حکومت کو ایک ایسا طریقہ کار بنانا چاہیے جو غریب طبقے یا پھر کم آمدنی والی افراد کو فائدہ پہنچا سکے، اب چاہے اس کے لیے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا سہارا لیا جائے یا پھر کوئی پری پیڈ کارڈ بنایا جائے۔

خرم شہزاد نے کہا کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہونا چاہیے تھا جبکہ اس پر دی جانے والی سبسڈی کو ختم ہونا ضروری تھا کیونکہ آج کی سبسڈی قوم پر کل کا قرضہ اور مہنگائی ہوگی جس کا بلآخر معیشت پر منفی اثر پڑتا ہے۔

انہوں نے یہ بھی تجویز دی کہ ٹارگیٹڈ سبسڈیز کا فارمولا اپنانا چاہیے، جبکہ حکومت دیگر اقدامات بھی اپنائے جیسا کہ ماکیٹیں بند کرے، توانائی بچائے اور ورک فرام ہوم متعارف کروائے۔

معاشی تجزیہ کار کا کہنا تھا کہ ٹارگیٹڈ سبسڈی ان لوگوں کے لیے فائدہ مند ہوگی جنہیں اس کی ضرورت ہے جبکہ اس کا حکومت پر بھی کوئی بوجھ نہیں پڑے گا۔

’حکومت کا درست سمت میں ایک قدم‘

ماہر معاشیات سید علی سجاد کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف پروگرام کے تعطل کی وجہ سے پاکستان اس صورتحال کے نزدیک ہے جہاں وہ دیوالیہ ہوسکتا ہے، لہٰذا پٹرول کی قیمت میں اضافہ حکومت کا درست سمت میں ایک قدم ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ صرف عالمی مالیاتی ادارے کی جانب سے 90 کروڑ ملنے کا معاملہ نہیں، ایک مرتبہ جب آئی ایم ایف یہ منظور کرے تو دیگر بھی ہمیں قرضہ فراہم کریں گے۔ لہٰذا آئی ایم ایف کا پرگرام بحال ہونے کے لیے سبسڈی کا ختم ہونا ضروری ہے۔

ماہر معاشیات کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سیاسی وجوہات کی بنا پر پٹرولیم مصنوعات کی قیمیں فسکڈ تھیں، جبکہ بین الاقوامی منڈیوں میں یہ قیمتیں تاریخی بلندی پر ہیں۔

سید سجاد علی نے کہا کہ پاکستانی معیشت ایک ’کاسینو معیشت‘ ہے، جہاں کچھ لوگ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کو خاطر میں لائے بغیر بڑی گاڑیاں رکھتے ہیں جبکہ اکثریت قیمتوں میں اضافے سے متاثر ہوتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی کے ختم ہونے کے بعد جاری کھاتہ خسارہ بھی استحکام کی جانب جائے گا۔

’سبسڈی ملکی مفاد میں نہیں‘

پاکستان کویتی انوسٹمنٹ کمپنی کے ریسرچ ہیڈ سمیع اللّٰہ طارق نے کہا ہے کہ سبسڈیز ملک کے مفاد میں نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ سبسڈی سپلائی چین اور مجموعی طور پر دیگر سبسڈی کو بھی خطرے میں ڈالتی ہے اور بڑے مالی خسارے کا سبب بھی بنتی ہے جو شرح سود میں اضافے کی وجہ بنتی ہے۔ سبسڈی کی رقم ادھار لینی پڑتی ہے اور اسے پھر سود کے ساتھ واپس کرنا پڑتا ہے۔

’آئی ایم ایف کا اہم مطالبہ‘

عارف حبیب لمیٹڈ کے ہیڈ آف ریسرچ طاہر عباس نے اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان اپنی توانائی ضروریات 75 فیصد درآمدات کے ذریعے پورا کرتا ہے اس لیے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں پر سبسڈی دینا ملک کے مفاد میں نہیں۔

انہوں نے حکومتی فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ سبسڈی کو ختم کرنا بھیآئی ایم ایف کی جانب سے اہم مطالبات میں سے ایک تھا۔