نظم: ہوا چلی

May 29, 2022

اسماعیل میرٹھی

ہونے کو آئی صبح تو ٹھنڈی ہوا چلی

کیا دھیمی دھیمی چال سے یہ خوش ادا چلی

لہرا دیا ہے کھیت کو ہلتی ہیں بالیاں

پودے بھی جھومتے ہیں لچکتی ہیں ڈالیاں

پھلواریوں میں تازہ شگوفےِ کھلا چلی

سویا ہوا تھا سبزہ اسےتو جگاچلی

سر سبز ہوںدرخت نہ باغوں میں تجھ بغیر

تیرے ہی دم قدم سے ہے بھاتی چمن کی سیر

پڑ جائے اس جہاں میں ہوا کی اگر کمی

چوپایہ کوئی زندہ بچے اور نہ آدمی

ِچڑیوں کو یہ اُڑان کی طاقت کہاں رہے

پھر کائیں کائیں ہو نہ غٹر غوں نہ چہچہے

بندوں کو چاہیے کہ کریں بندگی ادا

اس کی کہ جس کے حکم سے چلتی ہے سدا