اوورسیز کے ووٹ کا حق ختم نہیں کیا، وزیر قانون

May 27, 2022

فائل فوٹو

وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا ہے کہ اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹ کا حق ختم نہیں کیا گیا، ہم اوور سیز پاکستانیوں کو قومی اسمبلی اور سینیٹ میں نمائندگی بھی دینا چاہتے ہیں، الیکٹرانک ووٹنگ کیلئے وقت درکار ہے۔

اسلام آباد میں کامران مرتضیٰ اور فیصل کریم کنڈی کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ پی ٹی آئی نے بہت عجلت میں اس بل کو منظور کیا تھا،اس وقت بھی متحدہ اپوزیشن نے تمام جماعتوں کی رائے لینے کا کہا تھا۔

اعظم نذیرتارڑ نے کہا کہپی ٹی آئی حکومت نے 23 بلوں کے درمیان بل رکھ کر آدھے گھنٹے میں منظور کیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن نے 34 کے قریب اعتراضات سامنے رکھے تھے، الیکشن کمیشن نے کہا تھا پہلے پائلٹ پراجیکٹ کرنا ہوں گے، قائمہ کمیٹی پارلیمانی امور میں کثرت رائے کے ساتھ بل مسترد کرکے الیکشن کمیشن پر چھوڑ دیا گیا۔

اعظم نذیرتارڑ کا کہنا تھا کہ حکومت الیکشن نہیں کراتی، یہ الیکشن کمیشن کا اختیار ہے، الیکشن کرانا اور اس کا طریقہ کار وضع کرنا الیکشن کمیشن کا اختیار ہے، الیکشن کمیشن نےکہا فوری انتخابات ای ووٹنگ یا ای وی ایم سے ممکن نہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ ای وی ایم کے لیے بھی کہا ہے الیکشن کمیشن اپنی پالیسی کے مطابق طریقہ کار استعمال کرے، الیکشن کمیشن نے کہا مشین پر الیکشن چاہتے ہیں تو درجہ بدرجہ کریں، الیکشن کمیشن جب جس انتخابات میں چاہے ای وی ایم استعمال کرسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اوورسیزپاکستانیوں کو ووٹ کے حق سے محروم کرنے کا جھوٹا پروپیگنڈا کیا جارہا ہے۔

اعظم نذیرتارڑ نے کہا ہے کہ عدالت نے لکھا کہ نیب کو پولیٹیکل انجینرنگ کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے،سپریم کورٹ نے کہا نیب کے ادارے پرانگلیاں اٹھ رہی ہیں، سپریم کورٹ نے کہا نیب قوانین کا غلط استعمال کیا جارہا ہے، نیب قوانین ایک آمرنے متعارف کرائے تھے، نیب قوانین سیاسی انجینئرنگ کے لیے استعمال کیے گئے۔

اعظم نذیرتارڑ نے کہا کہ قتل کے مقدمے میں ضمانت لی جاسکتی ہے لیکن نیب کیس میں نہیں، نیب ملک سے رشوت ختم کرنے کے لیے بنایا گیا تھا، نیب نے سرکاری ملازمین کو اتنا متاثر کیا کہ بیوروکریسی نے کام کرنا چھوڑدیا، 30 دن میں ٹرائل ختم ہونے کی پالیسی تھی، اس کو ایک سال کیا ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ نیب نے سیاست کو مقدم رکھتے ہوئے اپنا کردار ادا کیا۔

انہوں نے کہا کہ گرفتاری چیئرمین نیب یعنی فرد واحد کا اختیار تھا، یہ ترامیم لوگوں کو غلط مقدمات میں ڈالنے سے بچانے کے لیے ضروری تھیں، تفتیش ایک سیکرٹ عمل ہے، نیب کی طرف سے اعلامیہ جاری کیا جاتا تھا، جب تک نیب تفتیش مکمل نہ کرلے کوئی پریس ریلیز نہیں نکلے گی، ہم نے جو بھگتنا تھا بھگت لیا ہے، ہمیں کہا گیا ان ترامیم سے فائدہ آنے والوں کو ہوگا۔