عمران کی جو باڈی لینگویج، گھن گھرج تھی وہ دکھائی نہیں دی، تجزیہ کار

May 28, 2022

کراچی (ٹی وی رپورٹ)عمران خان کی پریس کانفرنس پر جیو کی خصوصی نشریات پر گفتگو کرتے ہوئے تجزیہ کاروں نے کہاہے کہ میرے خیال میں ہمیں عمران خان کے مذاکرات کے بیانیہ کو سراہنا چاہئے کیونکہ اب وہ بات چیت کی گنجائش پیدا کرنا چاہ رہے ہیں اور یہ اس ملک کے استحکام کے لئے انتہائی بہترین اقدام ہے، ان کی باڈی لینگویج اور جو ان کی آواز میں ایک گھن گھرج تھی وہ دکھائی نہیں دی۔

عمران خان غصے میں آگئے


کسی بھی صورت میں کوئی انہیں ڈی چوک آنے نہیں دے گا اور اگر کوئی یہ کہہ دے کہ آپ ڈی چوک میں آکر بیٹھ جائیں تو یہ ناممکنات میں سے ایک بات ہے،پاکستان تحریک انصاف کو دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ان کی کمزوری کیا ہے، مجھے نہیں لگتا کہ عمران خان نے کوئی بہت زیادہ اپنی پوزیشن تبدیل کی ہے۔

خصوصی نشریات میں تجزیہ کار منیب فاروق، شہزاد اقبال، شاہزیب خانزادہ اور انصار عباسی نے اظہار خیال کیا۔

تجزیہ کار منیب فاروق نے کہا کہ عمران خان بیانیہ بنانے میں تو بہت ماہر ہیں لیکن جو وہ کچھ صبح ہورہا تھا تصادم کا فیکٹر اپنی جگہ موجود تھا، وہ ایک بہت بڑے شو کو لیڈ کررہے تھے اور اگر عمران خان وہاں موجود رہتے تو کچھ دیر بعد سپریم کورٹ کی سماعت شروع ہوجانی تھی جو رعایت آنی چاہئے تھی وہ نہیں ملنا تھی ظاہری بات ہے وہ وہاں جارہے تھے جہاں انہیں جانے کی اجازت نہیں تھی۔

باقی عمران خان کا یہ کہنا کہ مجھے کسی نے نہیں کہا اور ناں میری کوئی ڈیل تھی تو بالکل ڈیل نہیں تھی اور بعض اوقات تو عمران خان اپنے قریبی لوگوں کی بات بھی کئی مرتبہ نہیں سنتے اور اب ان کا یہ کہنا کہ اب ہم 5 دن یا چھ دن بعد دوبارہ آئیں گے اور لوگوں کو موبلائز کرنا یہ علیحدہ فیکٹر ہے کہ وہ کس حد تک کرپائیں گے.

لیکن کسی بھی صورت میں کوئی انہیں ڈی چوک آنے نہیں دے گا اور اگر کوئی یہ کہہ دے کہ آپ ڈی چوک میں آکر بیٹھ جائیں تو یہ ناممکنات میں سے ایک بات ہے اگر عمران خان اسلام آباد آتے اور اسی جگہ پر جو بابر ایوان نے عدالت میں بتائی تھی آکر بیٹھ جاتے ہیں تو ایسی صورتحال میں حکومت وقت کے لئے وہ اتنا بڑا خطرہ نہیں ہیں وہاں پر بیٹھے رہنا جہاں 12 ہزار کے قریب لوگ آسکتے ہیں تو اس پر حکومت کسی ایک فیصلے کے اوپر مجبور نہیں ہوسکتی اگر ان پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی بھی گئی گئی تو وہ دباؤ عمران خان کا نہیں ہوگا وہ کچھ اور دباؤ ہوتے ہیں جو دیکھنے ہوں گے۔

عمران خان نے اگر اپنا جمہوری حق استعمال کرنا ہے تو وہ جمہوری حق بھی کسی قائدے اور قانون کے تحت ہی وہ استعمال کریں گے سپریم کورٹ بھی انہیں کوئی ایسی خاص گنجائش نہیں دے سکتی اور جو دے سکتی ہے وہ یہی کہ جی گرفتاری نہ ہو، کریک ڈاؤن نہ ہو۔