نواز شریف ایٹمی دھماکوں کے حامی نہیں تھے؟

May 28, 2022

پاکستان کو ایٹمی طاقت بنے 24 برس مکمل ہو گئے ، بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں سابق وزیراعظم نوازشریف کے دورِ حکومت میں پاکستان نے 28 مئی 1998 کو بلوچستان کے علاقے چاغی کے مقام پر 5 کامیاب ایٹمی دھماکے کیے جس کے بعد اس دن کو ’’یوم تکبیر ‘‘کے نام سے منایا جاتا ہے۔

سابق وزیر شیخ رشید نے کچھ عرصہ قبل یہ بیان داغا تھا کہ نواز شریف 1998ءکے ایٹمی دھماکوں کے حامی نہیں تھے، ان دھماکوں کی حمایت اس وقت کی کابینہ میں سے راجہ ظفر الحق اور گوہر ایوب خان کر رہے تھے یا میں کر رہا تھا۔


راجہ ظفر الحق نے شیخ رشید احمد کے اس دعوے کی فوری تردید کی تھی، اور کہا تھا کہ 1998ءمیں نواز شریف پاکستان کے وزیراعظم تھے اور دھماکوں کا کریڈٹ اس وقت کے وزیراعظم کے سوا کسی اور کو نہیں مل سکتا۔

آپ کو بتاتے ہیں کہ 1998میں ایٹمی دھماکوں کا کون مخالف اور کون حامی تھا؟

بھارت نے 11مئی 1998ءکو ایٹمی دھماکا کیا اور 12مئی 1998ءکو حامد میر نے کالم تحریر کیا جس کا عنوان ’’تھینک یو مسٹر واجپائی‘‘ تھا، کالم میں کہا گیا تھا کہ پاکستان کو واجپائی کا شکریہ ادا کرنا چاہئے کیونکہ انہوں نے ایٹمی دھماکا کرکے پاکستان کو بھی دھماکے کا جواز مہیا کر دیا ۔

جب بھارت نے دھماکا کیا تو وزیراعظم نواز شریف قازقستان کے شہر الماتے میں تھے۔ انہوں نے وہاں سے آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت کو فون کیا اور کہا کہ آپ ایٹمی دھماکوں کی تیاری کریں۔ جنرل جہانگیر کرامت نے یس سر یا اوکے نہیں کہا بلکہ یہ گزارش کی کہ آپ واپس پاکستان آجائیں، کابینہ کی ڈیفنس کمیٹی کا اجلاس بلائیں اور پھر کوئی فیصلہ کریں۔ اس وقت کے وزیر اطلاعات مشاہد حسین الماتے میں نواز شریف کیساتھ تھے۔ نواز شریف نے مشاہد حسین سے پوچھا کہ ہمیں کیا کرنا چاہئے؟

مشاہد حسین نے نواز شریف سے کہا کہ تاریخ نے آپ کو موقع دیدیا ہے کہ پاکستان کو ایٹمی طاقت بنا دیں Now or Never(اب یا کبھی نہیں ) والی صورتحال ہے لہٰذا آپ بھارت کے کڑاکے نکال دیں۔ نواز شریف قازقستان سے واپس اسلام آباد پہنچے تو ایئرپورٹ سے وزیراعظم ہائوس جاتے ہوئے پی ٹی وی کے چیئرمین سنیٹر پرویز رشید انکے ہمراہ تھے۔

وقت گزرنے کیساتھ ساتھ پتا چلا کہ امریکہ سمیت کئی مغربی ممالک پاکستان کو ایٹمی دھماکوں سے باز رکھنا چاہتے ہیں۔

گوہر ایوب خان کا اپنی خود نوشت میں انکشاف

گوہر ایوب خان نے اپنی خود نوشت ’’ایوان اقتدار کے مشاہدات‘‘ میں 1998 کے جوہری تجربات پر جو باب رقم کیا اس میں انہوں نے کئی حقائق بیان کئے

گوہر ایوب لکھتے ہیں کہ 13 مئی 1988 کو کابینہ کی دفاعی کمیٹی کا اجلاس ہوا، جہاں جوہری دھماکوں کے حق میں اپنےدلائل پیش کئے۔ راجہ ظفرالحق نےجنرل جہانگیر کرامت سے ان کی رائے پوچھی، جنرل جہانگیر کرامت نے کہاکہ ہمیں بھارت کے اقدام کاجواب دینا ہوگا لیکن یہ سیاسی فیصلہ ہوگا۔

دو دن بعد دفاعی کمیٹی کا دوبارہ اجلاس ہوا، وزیراعظم نے اعلا ن کیا کہ وہ جوہری دھماکے کرنے کے حق میں نہیں جب میں نے جوہری دھماکے کرنے پر اصرار کیا تو ان کاچہرہ غصے سے لال ہوگیا۔ تھوڑی دیر بعد وزیراعظم نے گہری سانس لی، وہاں موجود ممبران پر ایک نظر دوڑائی اور کہنے لگے میں کمیٹی کے ہر رکن کی رائے سننا چاہتا ہوں۔

جب ممبران نےاپنی رائے دھماکوں کے حق میں دے دی تو نواز شریف خود کو بالکل تنہا محسوس کرنے لگے جب وزیراعظم نےمحسوس کیا کہ وہ اکیلے رہ گئے ہیں تو انہوں نے دھماکے نہ کرنے کے اپنے فیصلے سے پسپائی اختیار کرلی اورکہنے لگے میرے حوالے سے کسی غلط فہمی کا شکار نہ ہوں ہم آگے بڑھیں گے اور ایٹمی دھماکے کریں گے۔