جینیاتی سائنس

May 30, 2022

حذیفہ احمد

جینیاتی سائنس ،سائنس کا ایک ایسا سلسلہ ہے جہاں ایک جاندار کے جینوم کو بایوٹیکنالوجی میں مختلف تکنیکوں کا استعمال کرتے ہوئے تبدیل کیا جاتا ہے۔ سائنس دانوں نے ان انقلابی تکنیکوں کو ایجاد کیا تھا ،تاکہ حیاتیات کو انتہائی پیداواری اور انتہائی مناسب ماحولیاتی حالات سے آگاہ کرکےتحقیق کے مختلف شعبوں میں استعمال کیا جاسکے۔نت نئی چیزوں کو دریافت کرنا، تحقیق کرنا ،تلاش کرنا انسان کی فطرت میں شامل ہے۔

اسی لیے ہر چیز کے بارے میں گہرائی سے جاننےکی جستجو ہر وقت رہتی ہےاور جیسے جیسے وقت بدلتا رہتا ہے جستجو مختلف روپ اپناتی رہتی ہے۔اسی فطرت اور جستجو کے تحت انسان کے کائنات میں پوشیدہ راز اور نظام شمی میں چھپی چیزوں کو منظر ِعام لانے میں سر گرداں ہیں۔ جیسے جیسے وقت گزرتا رہا انسان کے علم اور تجربے میں اضافہ ہوتا گیا۔ اسی تحقیق ،علم اور تجربےنے اسے مزید آگے بڑھنے کی ترغیب دی۔ اس طرح انسان کا جستجو، تحقیق، تلاش اور دریافت کا سفر آج بھی جاری ہے۔ نت نئی معلومات، آلات اور سہولتوں نےاس سفر کی رفتار کو روز بہ روز تیز کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔

کائنات کے راز جاننے کی لگن روز ِاوّل سے ہی انسان کی فطرت میں تھی۔ چناں چہ اس لگن کے تحت ایک روزاُس نے یہ بھی معلوم کرلیا کہ جان داروں کے جسم کی بنیادی اکائی خلیہ ہے اور اسی خلیے کے مرکز میں اُس کی تمام خصوصیات اور وراثت دھاگوں کی صورت میں موجود ہے، جسے اُس نے’’ کروموسومز‘‘ کا نام دیا ہے۔ ان کروموسومزکے ساتھ جین موجود ہوتے ہیں جو در اصل لمبے زنجیری مالیکیول ہوتے ہیں جن کی بنیادی اکائی کاربن ہوتی ہے۔ان لمبے زنجیری مالیکیولز کو ’’ڈی این اے‘‘ کا نام دیا گیا۔

ساخت اور کارکردگی کے اعتبار سے تمام جان داروں کے خلیے ایک جیسے ہوتے ہیں، تاہم ڈی این کی مخصوص ساخت اور ترتیب مختلف جان داروں کو ایک دوسرے سے منفرد کرتی ہے۔اگر چہ ہر جان دار کی جسامت کے لحاظ سے اس کےجسم میں موجود ڈی این اےبہت کم حجم کا ہوتا ہے، مگر جسم کے تمام کام، کارکردگی اور خصوصیات کا تعیّن یہ ہی کرتا ہے۔

اسی کھوج کے سفر میں چلتے چلتےانسان نے یہ معلوم کرلیا کہ انسانی جسم تقریباََ تیس ہزار جینز کا حامل ہے اور وراثتی بیماریاں ان ہی جینز میں ہونے والی تبدیلیوں یا فعل میں خرابی کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ لہٰذا اُن کا علاج ادویات سے ممکن نہیں۔ چناں چہ سائنس دانوں نے ضرورت محسوس کی کہ ان جینز پر دست رس حاصل کی جائے، تاکہ ایک تو یہ معلوم کیا جاسکے کہ کہاں خرابیاں ہیں اور اُن کو درست کیسے کیا جائے۔ اسی جستجو نے طبی سائنس کی دنیا میں ایک نئے دور کا آغاز کیا جسے ٹرانس جینک ٹیکنالوجی transgenic technology کہا جاتا ہے۔

اس تحقیق و جستجو میں انسان اب جین کے فعل کو اپنی مرضی سے دیکھنا چاہتا تھا کہ اگر کسی جین کو جسم سے نکال دیا جائے تو کیا ہوگا اور اگر کسی میں کوئی جین موجود نہیں لیکن اگر وہ اُس میں داخل کردی جائے تو پھر صورت حال کیا ہوگی۔ اس طرح وراثتی بیماریوں کا باعث بننے والی جین تلاش کی جاسکیں گی اور پھر جین تھراپی سے علاج کا مرحلہ طے ہوگا۔چوں کہ جس طرح سے انسانوں میں جینز موجود ہیں اسی طرح تمام جانداروں میں جینز ہوتے ہیں ۔

لہٰذا اگر کوئی ایسا جانور مل جائے جسے تجربہ گاہ کے طور پر استعمال کیا جاسکے۔ اس مشکل کا حل چوہے نے دیا ، کیوں کہ انسان اور چوہے کے جین اٹھانوے فی صد سے زائد ایک جیسے ہیں۔ لہٰذا چوہا جینیاتی سائنس کے میدان میں تحقیق کا باعث بنا۔ میڈیکل سائنس نے اس قدر ترقی چوہوں کی وجہ سے کی ہے اور اس وقت میڈیکل ریسرچ میں سب سے زیادہ چوہے ہی زیر استعمال ہیں۔

جین کی تبدیلیوں کی بنیاد پر پہلا ٹرانس جینک چوہا 1974 ء میں پیدا کیا گیا۔ ایک حیاتیات جو جینیٹک انجینئرنگ کے ذریعہ پیدا ہوتا ہے اسے جینیاتی طور پر تبدیل شدہ (GM) سمجھا جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں وجود جینیاتی طور پر تبدیل شدہ حیاتیات (GMO) ہوتا ہے۔ پہلا جی ایم او 1973 میں ہربرٹ بوئیر اور اسٹینلے کوہن نے پیدا کیاجو کہ ایک بیکٹیریم تھا۔ روڈولف جینیش نے پہلا جی ایم جانور بنایا جب اس نے 1974 میں غیر ملکی ڈی این اے کو ماؤس میں داخل کیا۔

جینیاتی انجینئرنگ پر توجہ دینے والی پہلی کمپنی ، جنیٹیک 1976 میں قائم ہوئی تھی اور انسانی پروٹین کی تیاری شروع کردی۔ جینیاتی طور پر انجنیئر انسانی انسولین 1978 میں تیار کی گئی تھی اور انسولین تیار کرنے والے بیکٹیریا کو 1982 میں تجارتی بنایا گیا تھا ، لیکن بیشتر موجودہ جی ایم فصلوں میں کیڑوں اور جڑی بوٹیوں سے دوچار ہونے والی مزاحمت کو بڑھانے کے لئے تبدیل کیا گیا ہے۔ پالتو جانور کے طور پر ڈیزائن کیا گیا پہلا GMO ، گلو فش، دسمبر 2003 میں ریاست ہائے متحدہ میں فروخت کیا گیا تھا۔ 2016 میں نمو میں ترمیم شدہ نمو فروخت ہارمون کے ساتھ کیا گیا تھا۔

ٹرانس جینک تحقیق کا یہ سلسلہ آگے بڑھتا گیا۔ پیچیدہ انسانی بیماریاں جو کہ وارثت کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں ان کے کھوج کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ سرطان، پارکنسن، ہیموفیلیا، ذیابیطس، الزائمر اور دوسری بہت سی بیماریوں کے ماڈل چوہے اس تیکنیک سے بنے لگے،پھر اس بات کی ضرورت بھی محسوس ہوئی کہ دنیا بھر میں اس ہونے والی تحقیق میں رابطہ اور آپس میں معلومات کے تبادلہ کے لیے ایک مربوط پلیٹ فارم ہونا چاہیے، جس کا آغاز سویڈن کی معروف میڈیکل یونیورسٹی کارولنسکا انسٹی ٹیوٹ کے شعبہ ٹرانس جینک ٹیکنالوجی نے اس کابیڑا اُٹھایا اور 1999ء میں پہلی بین الاقوامی کانفرس اسٹاک ہوم میں منعقد کی۔

اب یہ دنیا بھر کے جینیاتی سائنس دانوں اور ماہرین کا سب سے بڑا پلیٹ فارم بن گیا ہے۔اس کے تحت منعقد ہونے والی کانفرس میں دنیا بھر سے پانچ سو سے زائد سائنس دان اور ماہرین شریک ہوتے ہیں، مگر افسوس ناک بات یہ ہے کہ اس میں اسلامی دنیا کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔اس سے اسلامی ممالک کی سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں پس ماندگی کا اندازہ بہ خوبی لگایا جاسکتا ہے۔ حالاں کہ مستقبل کی دنیا جینیاتی تحقیق کی دنیا ہے۔اور اس پر مستقبل میں مزیدتحقیق کی جائے گی۔ نینو ٹیکنالوجی اور جینیاتی تحقیق ایسے دو میدان ہیں، جو مستقبل کا تعین کریں گے۔ مستقبل میں روایتی علاج کا انداز بدل جائے گا۔

جینیٹک انجینئرنگ کی بدولت نئی فصلیں ، بیماریوں کے خلاف مدافعت رکھنے والے پودے، انسانی علاج کے لیے اہم مادّے پیدا کرنے والے جانور اور بیماریوں کے علاج میں نئے نئے طریقے کار وضع ہوں گے۔ بڑھتی ہوئی انسانی آبادی اور کم ہوتی زرخیز زمین کی وجہ سے انسانی خوارک کا مسئلہ بھی یہی علم سائنس حل کرے گا ۔ایسی کانفرنسز میں دنیا بھر کے سائنس داں اور ماہرین کئی کئی روز تک اپنی تحقیق پیش کرنے کے ساتھ مستقبل کے منصوبے پیش کرتے ہیں۔ ایڈنبرا سائنسی تحقیق کا اہم مرکز ہے اسی شہر میں 1996ء میں کلونگ کے ذریعہ سے ڈولی بھیڑ پیدا کی گئی تھی ،جو کہ طبی تحقیق کی دنیا کا نہایت اہم واقعہ ہے۔گلاسگو یونیورسٹی کی پرشکوہ عمارت دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ یونیورسٹی 1451ء میں قائم ہوئی تھی۔