سوشل میڈیا سے قربت، کتاب سے دوری

June 04, 2022

’’گذشتہ ہفتے این ای ڈی یونی ورسٹی کے ایڈوانسمنٹ اینڈ فنانشل اسسٹنس کے زیرِ اہتمام میکینکل تھیٹر ہال میں سیمینار کا انعقاد کیا گیا، عنوان تھا ’’سوشل میڈیا کے معاشرے پر اثرات‘‘۔ صدارت شیخ الجامعہ پروفیسر ڈاکٹر سروش حشمت لودھی نے کی۔ سیمینار میں سابق معین الجامعہ صاحب زادہ فاروق احمد رفیقی، ڈین فیکلٹی مکینیکل اینڈ مینوفکچرنگ انجینئرنگ پروفیسر ڈاکٹر عامر اقبال، ڈین سول انجینئرنگ پروفیسر ڈاکٹر اسد الرحمان، رجسٹرار سید غضنفر حسین نقوی، ڈائریکٹر اوریک ڈاکٹر ریاض الدین، ڈائریکٹر ڈاکٹر اسد دعارفین، اساتذہ اور طالب علموں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔

ڈین فیکلٹی آف آرکیٹکچر اینڈ مینجمنٹ سائنسز پروفیسر ڈاکٹر نعمان احمد نے خطبئہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ،’’ سوشل میڈیا ہماری تخلیقی صلاحیتوں کو کھاتا جارہا ہے ہمیں حقیقی دنیا سے دور، خیالی دنیا کا مسافر بنایا جارہا ہے، جس سے نسل نو اپنے مقاصد سے بہت دور ہوچکی ہے۔ سوشل میڈیا کے قیدی نوجوان سماجی سرگرمیوں سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ جس کے منفی ا ثرات ذہن و جسم دونوں پر مرتب ہورہے ہیں۔ اس سارے منظرنامے میں یہ بات سمجھنے کی ہے کہ نوجوانوں کی دُرست سمت میں رہنمائی کے لیے ناصرف والدین بلکہ اساتذہ کو بھی بھرپور ذمے داری نبھانی ہوگی۔

شیخ الجامعہ پروفیسر ڈاکٹر سروش حشمت لودھی نے اپنے خطاب میں کہا کہ’’ نوجوان خود کو موبائل کی دنیا میں گم کرتے جارہے ہیں۔ طلبا اس بات پر غور کریں کہ آپ موبائل کو استعمال کررہے ہیں یا موبائل آپ کو؟ اس وقت سوشل میڈیا ایک نشے کی طرح ذہنوں پر طاری ہے، اس کی الگ ہی دنیا ہے، جس میں قدم رکھیں تو پھر وقت گزر نے کا احساس نہیں ہوتا، یوں کہیں کہ ضائع ہوجاتا ہے۔ یہ نشہ نوجوانوں کوبری طرح اپنی گرفت میں لے رہا ہے ۔ پہلےنوجوان اپنے بزرگوں کے ساتھ وقت گزرا کرتے تھے،ان کے علم سے استفادہ حاصل کرتے تھے لیکن آج کل وہ حقیقی رشتوں سے دُور تخیلاتی دنیا کے رشتے کھوج رہے ہیں۔

جہاں ایک کلک پر دنیا سے رابطہ جوڑنے میں کامیاب ہورہے ہیں وہیں اپنے گھر والوں سے بے خبر ہوتے جارہے ہیں۔ ڈاکٹر سروش نے مزید کہا کہ، دعا زہرہ کیس ناصرف ہماری طالبات کے لیے توجہ طلب ہے بلکہ طالب علم بھی اس سے سیکھیں۔ نوجوان اس سائبر ورلڈ سے مثبت اور منفی دونوں کام لے سکتے ہیں لیکن موجودہ دور میں سوشل میڈیا کا استعمال محدود کرنے کی اشدضرورت ہے۔ جلد اور متواتر پروگرام اسی موضوع پر رکھے جائیں۔ سوشل میڈیا سے متعلق طالب علموں میں بحث و تمحیص کے مقابلے کراوئے جائیں، جن سے آگاہی کا سلسلہ جاری رہے ۔جب کہ اساتذہ بھی اس میں شرکت کرکے معاشرتی بہتری میں اپنا کردار ادا کرتے رہیں۔

معین الجامعہ این ای ڈی پروفیسر ڈاکٹر محمد طفیل نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ،’’ یہ لمحہ فکریہ ہے، والدین بچوں کو موبائل دے کر اپنے دیگر معاملات کی انجام دہی میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ اسمارٹ فون کا بے دریغ استعمال کم عمر ذہن کو بری طرح متاثر کررہا ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے کوئی بھی بات جو سچ یا جھوٹ پر مبنی ہو، آسانی سے پھیلائی جاسکتی ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ ہمارے پاس جس عمر کے طالب علم موجود ہیں ، اُن کے لیے ایک مخصوص ٹرم’’ intelligentia ‘‘استعمال کی جاتی ہے۔ اس عمر کے افراد جلد ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔ خبروں کے اس پھیلاؤ سے بد امنی کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔

چیئر پرسن ہومنٹیس پروفیسر ڈاکٹر ساجدہ ذکی نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ،’’ ہمارے نوجوانوں کا کتاب اور قلم سے رشتہ کمزور پڑتا جارہا ہے، جس کی بنیادی وجہ سوشل میڈیا سے قربت ہے۔ فیس بک ، ٹویٹر، واٹس ایپ اور ٹک ٹاک کی صورت میں اس چھوٹے سے آلے نے ہمارے اتنے بڑے ذہن ، قلب و سکون کو غلام کرلیا ہے۔ جس سے ہماری نسل نو پستیوں کی جانب رواں دواں ہے۔

سوشل میڈیا کے حوالے سے اس وقت گھمبیر چیلنجز کا سامنا ہے ، چین میں نوجوانوں کو معاشرتی پستی سے بچانے کے لیے ریاستی سطح پر اس کا استعمال ممنوع ہے۔ باحیثیت استاد میں سمجھتی ہوں کہ لیگل فریم ورک میں لاتے ہوئے سوشل میڈیا کے استعمال سے متعلق پالیسیاں مرتب کی جانی چاہیں۔

ممبر سینڈیکیٹ مفتی محمد مجیب نے کہا کہ، سوشل میڈیا کو گناہِ جاریہ نہ بنائیں۔ اس وقت ایک بے لگام گھوڑا ہے، جس کی کوئی حدود و سمت متعین نہیں ہے۔ لیکن اس کا تعمیری پہلو بھی ہے، اسے مثبت انداز سے بھی استعما ل کیا جاسکتا ہے، تاہم اسے خود نمائی کے لیے استعمال نہ کریں۔ گزشتہ دہائی میں سوشل میڈیا کی ڈرامائی ترقی قابلِ ذکر ہے لیکن ہم پر اس کے منفی اثرات ٹینشن اور ڈپریشن کی صورت میں نظر آرہے ہیں۔

بہرکیف اگر حالات کو تبدیل کرنا ہے تو ہر فورم پر اس مسئلے کو اُٹھانا ہم سب کی مشترکہ ذمّے داری ہے۔ سوشل میڈیا کےاستعمال کا وقت مقرر کریں تاکہ دیگر معاملات متاثر نہ ہوں۔ والدین خود بھی اس کے اتنے عادی ہوگئے ہیں کہ بچوں پر توجہ نہیں دے رہے ہیں، ان سے گزارش ہے کہ اولاد پر توجہ دیں، یاد رکھیں ہمارے گھر یعنی معاشرتی اکائی جو ذہن بنائے گی، کل وہی معاشرے کی عکاس ہوگا۔ (رپورٹ: فروا حسن، کمیونی کیشن منیجر اوآرآئی سی، این ای ڈی یونیورسٹی)