صحت و صفائی اور ماحولیات کا تحفظ (گزشتہ سے پیوستہ)

June 10, 2022

مولانا نعمان نعیم

یہ قدرت کا عجیب نظام ہے کہ اس کائنات میں جہاں ماحول کوآلودہ کرنے والے غیر قدرتی عوامل پائے جاتے ہیں، وہیں ربِ کائنات نے ماحولیاتی کثافتوں کو جذب کرنے والے اہم ترین ذرائع بھی پیدا کررکھے ہیں۔ زمین میں اللہ تعالیٰ نے ایسی صلاحیت رکھی ہے کہ وہ ساری غلاظتوں کو اپنے سینے میں دفن کرلیتی ہے۔ ذرا سوچیں، مرنے والے انسان اور دیگر جانور اگر زمین میں دفن نہ کیے جائیں، تو سارا ماحول کس قدر متعفّن ہوکر رہ جائے۔

اسی طرح کوڑا کرکٹ کی شکل میں موجود مَنوں ٹنوں غلاظت بھی زمین ہی اپنے سینے میں اتار کر تحلیل کردیتی ہے۔ پھر سمندر کا حیرت انگیز نظام بھی ماحولیاتی آلودگی کے کنٹرول میں غیر معمولی کردارادا کرتا ہے۔ ہر دن سمندر میں بے شمار حیوانات مرتے ہیں، کارخانوں کے آلودہ پانی کا رُخ بھی سمندروں کی طرف موڑا جاتا ہے اور سمندروں کا کھارا پانی ان ساری چیزوں کو تحلیل کرکے ماحولیاتی تحفّظ کا سبب بنتا ہے، جو اللہ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ لیکن ان سارے قدرتی ذرائع کے باوجود ماحولیاتی کثافت اس وقت پوری دنیا کے لیے ایک چیلنج بنی ہوئی ہے، جدید طرزِ زندگی کے سبب ہر گزرتے دن کے ساتھ آلودگی میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔

قیامت تک انسانیت کی رہنمائی کرنے والے دینِ اسلام نے جہاں موجودہ دَور کے دیگر مسائل کا حل پیش کیا ہے، وہیں اس کی تعلیمات میں ماحولیاتی آلودگی کا حل بھی موجود ہے۔ محسنِ انسانیت، حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے شجر کاری کو صدقہ قرار دیا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا ’’جو مسلمان دَرخت لگائے یا فَصل بوئے، پھر اس میں سے جو پرندہ یا اِنسان یا چوپایا کھائے، تو وہ اس کی طرف سے صدقہ شُمار ہوگا۔ (صحیح بخاری) شجرکاری کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس حوالے سے حضور اکرم ﷺ نے فرمایا،’’اگر قیامت کی گھڑی آجائے اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں پودا ہو اور وہ اُسے لگا سکتا ہو، تو لگائے بغیر کھڑا نہ ہو۔‘‘ (مسندِ احمد)

ایک اور حدیث میں ہے، ’’جو کوئی درخت لگائے، پھر اس کی حفاظت اور نگرانی کرتا رہے، یہاں تک کہ وہ درخت پھل دینے لگے، وہ اس کے لیے اللہ کے یہاں صدقہ کا سبب ہوگا۔‘‘(مسند احمد) عرب میں بالعموم ببول یا بیری کے درخت ہوا کرتے تھے، نبی کریمﷺ نے بیری کے درخت کے بارے میں فرمایا، ’’جو بیری کا درخت کاٹے گا، اُسے اللہ تعالیٰ اوندھے منہ جہنّم میں ڈالےگا۔‘‘ (سنن ابو داؤد) آپ ﷺ نے جہاں عام دنوں میں درخت کاٹنے کی ممانعت فرمائی، وہاں دورانِ جنگ بھی نہروں کو آلودہ کرنے اور درختوں کو کاٹنے کی ممانعت فرما کر نہ صرف آبی ذخائر کی حفاظت کی تعلیم دی بلکہ ماحول کو آلودہ ہونے سے بھی بچایا۔

سیّدنا علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں، ’’حضور نبی اکرم ﷺجب اسلامی لشکر کو مشرکین کی طرف روانہ فرماتے، تو یوں ہدایات دیتے، ’’کسی بچّے کو قتل نہ کرنا، کسی عورت کو قتل نہ کرنا، کسی بوڑھے کو قتل نہ کرنا، چشموں کو خشک و ویران نہ کرنا، درختوں کو نہ کاٹنا۔‘‘ (بیہقی)

حضرت جابر ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، ’’جو مسلمان درخت لگاتاہے، پھر اس میں سے جتنا حصّہ کھالیا جائے، وہ درخت لگانے والے کے لیے صدقہ ہوجاتا ہے، اور جو اس میں سے چوری کرلیا جائے، وہ بھی صدقہ ہوجاتا ہے۔ یعنی اس پربھی مالک کو صدقے کا ثواب ملتا ہے اور جتنا حصّہ اس میں سے چرندپرند کھالیتے ہیں، وہ بھی اس کے لیے صدقہ ہوجاتا ہے، (غرض یہ کہ) جو کوئی اس درخت میں سے کچھ بھی پھل وغیرہ لے کر کم کردیتا ہے، تو وہ اس درخت لگانے والے کے لیے صدقہ ہوجاتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم) درختوں کی اسی افادیت کے پیشِ نظر آپﷺ نے ایسے درخت وغیرہ جن سے لوگوں کو فائدہ پہنچتا ہو، کاٹنے یا برباد کرنے سے سختی سے منع فرمایا ہے۔

ماحولیات کو بہتر بنانے میں جانوروں، پرندوں کا اہم رول ہے۔ دین فطرت میں اس طرف خصوصی رہنمائی کی گئی ہے۔ جانوروں کے ساتھ بدسلوکی پرآں حضرت ﷺ کی ذکرکردہ وعیدیں موجود ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے جانوروں کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید اور بدسلوکی کوعذاب وعتاب کی وجہ گردانا او رانتہائی درجہ کی معصیت اور گناہ قرار دیا اورانسانی ضمیر جھنجوڑنے والے سخت الفاظ استعمال فرمائے۔

ماحولیات کے تحفظ اور صحت و صفائی کے حوالے سے اسلام جہاں انسان کے بدن، کپڑے، مکان کی صفائی چاہتا ہے، وہیں آس پاس کی صفائی کی بھی تلقین کرتا ہے۔ حضور ﷺ نے گھر سے باہر سڑکوں کی صفائی کا بھی حکم دیا ہے اور اس بات سے سختی سے منع کیا ہے کہ لوگ راستوں اور دیواروں کے سایے میں پیشاب یا پاخانہ کریں۔ حدیث نبوی ﷺہے: ’’دوقابل لعنت چیزوں سے بچو، راستے میں پیشاب پاخانے سے اور اس شخص سے جو لوگوں کے راستے یا سایے میں قضائے حاجت کرتا ہو۔ ‘‘کھلے عام رفع حاجت کرنا، سڑکوں، پارکوں اور عام گزرگاہوں پر پان اور گٹکے کھاکر تھوکنا، پیشاب کرنا، گھروں کا آلودہ پانی گلیوں میں بہانا، گھروں کی گندگی اور کوڑا کرکٹ عام جگہوں پر ڈالنا، تعمیراتی کاموں کے وقت گرد و غبار روکنے کی تدابیر اختیار نہ کرنا، یہ سب دین اسلام کے مزاج کے خلاف ہے۔

مسلم شریف کی ایک حدیث ہے کہ "مجھ پر میری امت کے اچھے اعمال پیش کیے گئے تو میں نے اس کے اچھے اعمال میں سے یہ دیکھا کہ تکلیف دہ چیز کو راستے سے ہٹا دیا گیا ہو اور اس کے برے اعمال میں سے یہ عمل دیکھا کہ مسجد میں بلغم ہو، اور اسے دفن نہ کیا جائے۔ ” یہاں مسجد کو بطور مثال پیش کیا گیا ہے ورنہ مطلوب یہی ہے کہ راہِ عام پر تھوکا جائے ،نہ ہی کوئی اور غلاظت پھینکی جائے۔ ہمارے معاشرے میں دریا یا نہروں کے کناروں پر بھی گندگی کے ڈھیر ملتے ہیں، لیٹرین اورغلاظت سے پُر نالیاں صاف پانی کی لائن میں چلی جاتی ہیں، جس کی وجہ سے ماحولیاتی آلودگی پیدا ہوتی ہے، حالانکہ اسلام نے ان چیزوں سے روکا ہے۔

صوتی آلودگی بھی ہمارا بڑا مسئلہ ہے، ایک سروے کے مطابق ہمارے ہاں کا ہر بارہواں شخص بڑھتے ہوئے شور و شغب کے باعث سماعت سے محروم ہوتا جارہا ہے۔ برین ہیمبرج، ہارٹ اٹیک، بلڈپریشر اور شوگر وغیرہ جیسی کئی خطرناک بیماریاں صوتی آلودگی کی وجہ سے پیدا ہورہی ہیں۔ موٹر گاڑیوں اور کارخانوں کے شور کے سبب بہرے پن کی شکایت بھی روز بروز عام ہوتی جارہی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ سب غیرفطری طرز زندگی کی دَین ہے اور جہاں ہم اس آلودگی سے بچ سکتے ہیں ،وہاں بھی بچنے کی کوشش نہیں کرتے۔

ٹریفک میں پھنسی گاڑیاں غیرضروری طور پر ہارن بجاتی ہیں ، اس سے بھی صوتی آلودگی پھیلتی ہے۔ قرآن کریم میں حضرت لقمان علیہ السلام کی نصیحت نقل کرتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے:’’اور اپنی آواز کو پست رکھ، بے شک، سب سے زیادہ مکروہ آواز گدھے کی آواز ہے۔ ‘‘(سورۂ لقمان)جب اسلام کرخت لہجے میں بات چیت کرنے سے منع کرتا ہے تو یہ شور شرابہ کیسے ممکن ہے؟

حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ روایت کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺکے ساتھ سفر کر رہے تھے، جب مدینے سے قریب ہوئے تو لوگوں نے بلند آواز میں ’ اللہ اکبر‘ کا نعرہ لگایا، اس پر رسول اللہ ﷺ نےفرمایا (اپنی آواز دھیمی رکھو) تم کسی بہرے اور غائب کو نہیں پکار رہے ۔

حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ مسجد میں معتکف ہوئے اور لوگوں کو قرأت کرتے ہوئے سنا تو پردہ ہٹایا اور ارشاد فرمایا کہ تم سب اپنے رب سے سرگوشی کر رہے ہو، تم ایک دوسرے کو تکلیف نہ دو اور قرآن پڑھنے میں ایک دوسرے پر آواز بلند نہ کرو۔ (سنن ابو داؤد) آپ ﷺنے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ بازار میں شور و ہنگامے کرنے والوں کو ناپسند فرماتا ہے۔

دین اسلام کی تعلیمات ماحولیاتی آلودگی کو درست رکھنے میں اہم رول ادا کر سکتی ہے ،لیکن بدقسمتی سے امت مسلمہ کا بڑا طبقہ ان امور کو دین کا حصہ نہیں سمجھتا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اہل اسلام آگے آئیں اور اسلام کا نظام رحمت عملاً لوگوں کے سامنے پیش کریں۔ علاوہ ازیں سائنس وٹیکنالوجی میں بھی اس حوالے سے اصلاحات کی انتہائی ضرورت ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک ایسا نظام دیا جائے جو ماحول دوست ہو۔ بے لگام سائنس وٹیکنالوجی اور مشینی زندگی نے فطرت کومسخ کیا ہوا ہے۔ اقدارسے عاری اس نظام نے ہمیں انسانیت سے گراکر حیوان کی صف میں لاکھڑا کیا ہے۔ ایسے میں صحت و صفائی اور ماحولیات کے تحفظ کے حوالے سے اسلامی تعلیمات پر عمل اور اس حوالے سے شعور و آگہی کو فروغ دینا ہم میں سے ہر فرد کی ذمے داری ہے۔