قربانی کے واجب ہونے کا نصاب

June 17, 2022

تفہیم المسائل

سوال: اگر کسی کے پاس صرف ایک یا دو تولے سونا ہے جو کہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کو پہنچ رہا ہے تو اس پر قربانی واجب ہوگی یا نہیں؟ ہم نے بعض مفتیان کرام سے اس مسئلے کے بارے میں پوچھا تو بعض نے کہا: قربانی واجب نہیں ہو گی، کیونکہ سونے کا اپنا الگ نصاب ہے اور وہ ساڑھے سات تولہ سونا مکمل نہیں ہو رہا، جبکہ بعض نے کہا : قربانی حدیث مبارکہ کے الفاظ ’’مَنْ کَانَ لَہٗ سَعَۃً‘‘کی وجہ سے صاحب وسعت پر واجب قرار دی گئی ہے اور مذکورہ آدمی صاحب وسعت ہے۔

نیز یہ بھی بعض کتابوں میں موجود ہے کہ صدقہ فطر، وجوب قربانی ،نفقہ اقارب اور حرمت صدقہ کا نصاب ایک ہے اور صاحب بہارشریعت نے لکھا ہے: جس کے پاس ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت جتنا سونا ہو تو وہ زکوٰۃ نہیں لے سکتا، جب وہ زکوٰۃ نہیں لے سکتا تو اس پر قربانی واجب ہوگی، کیونکہ دونوں کا نصاب ایک ہے، بہرحال ہمیں اس مسئلے میں مفتی صاحب کا تفصیلی موقف درکار ہے، (محمد رفیق مدنی، مدرس جامعہ نعمانیہ عیسیٰ خیل، میانوالی)

جواب: قربانی کے واجب ہونے کا نصاب بعینہٖ وہی ہے جو صدقۂ فطر کا نصاب ہے اور صدقۂ فطر کے واجب ہونے کا نصاب تقریباً وہی ہے جو زکوٰۃ کے فرض ہونے کا نصاب ہے اور زکوٰۃ کا نصاب حاجتِ اصلیہ کے علاوہ ساڑھے سات تولہ سونا (87.48گرام) یا ساڑھے باون تولہ چاندی(612.36گرام) یا اس کے برابر نقد یا سامانِ تجارت کا مالک ہونا ہے۔ لہٰذا جب اس نصاب پر سال مکمل ہونے کی صورت میں زکوٰۃ کی ادائیگی فرض ہوجاتی ہے۔

جس شخص کے پاس ساڑھے باون تولہ سے کم چاندی ہو یا ساڑھے سات تولہ سے کم سونا ہو تو وہ شخص صاحب نصاب نہیں کہلائے گا اور اس کے ذمے زکوٰۃ کی ادائیگی فرض نہیں ہے، لیکن اگر کسی شخص کے پاس چند اموالِ نامی ہیں، مثلاً: سونا نصاب سے کم ہے اور رقم بھی چاندی کے نصاب سے کم ہے، تو ایسی صورت میں مختلف اموالِ نامی آپس میں ملائے جائیں گے، اگر اُن کی قیمت حاجتِ اصلیہ سے زائد ہوکر ساڑھے باون تولہ چاندی کو پہنچتی ہے تو ایسا شخص صاحبِ نصاب کہلائے گا اور اس کے ذمے زکوٰۃ کی ادائیگی فرض ہوگی، البتہ صدقۂ فطر اور زکوٰۃ کے نصاب میں دو طرح کا فرق ہے: (۱)زکوٰۃ کے نصاب میں سال کا گزرنا شرط ہے ،جبکہ صدقۂ فطر اورقربانی کے لیے نصاب پر سال کا گزرنا شرط نہیں ہے، اگر عیدالفطر کی صبح صادق سے پہلے یا عیدالاضحی کے تین دنوں میں کسی بھی وقت نصاب کا مالک ہوگیا تو اس پر صدقۂ فطر اور قربانی واجب ہوگی۔

(۲)زکوٰۃ کے نصاب کے لیے مال کا حقیقتاً یا حکماً نامی ہونا شرط ہے،جبکہ صدقۂ فطر اور قربانی کے لیے مال کانامی ہونا شرط نہیں ہے، لہٰذا جس شخص کے پاس اس کی حاجاتِ اصلیہ سے زائد اشیاء ہوں، خواہ وہ تجارت کے لیے نہ ہوں، تو اس پر زکوٰۃ تو فرض نہیں ہوگی، لیکن صدقۂ فطر اور قربانی واجب ہوگی۔ علامہ علاء الدین کاسانی حنفیؒ لکھتے ہیں: ترجمہ:’’قربانی کے وجوب کی شرائط میں سے ایک شرط ’’غنیٰ‘‘بھی ہے، اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ جو شخص گنجائش رکھتا ہو ،اُسے چاہیے کہ وہ قربانی کرے ‘‘، سونبی کریمﷺ نے گنجائش کی شرط عائد فرمائی ہے اوروہ مال دار ہونا ہے۔

غنیٰ کی حدیہ ہے کہ آدمی کی ملکیت میں دوسو درہم یا بیس دینار ہوں یا کوئی ایسی شئے ہو جس کی قیمت دوسو درہم یا بیس دینار کو پہنچتی ہو، بشرطیکہ وہ شئے اس کی رہائش، گھریلو سازو سامان، لباس، خادم، گھوڑا، ہتھیار اور دیگر ضروری ساز و سامان کے علاوہ ہو اور یہی صدقۂ فطر کا بھی نصاب ہے، (بدائع الصنائع، ج:4،ص:64) ‘‘۔ فتاویٰ عالمگیری میں ہے: ترجمہ: ’’قربانی ایسے آزاد مسلمان شخص کے ذمے واجب ہے جو نصاب کی مقدار کا مالک ہو اور وہ نصاب اس کی حاجاتِ اصلیہ سے زائد ہو’’الِاخْتِیَارِ شَرْحِ الْمُخْتَار‘‘ میں اسی طرح ہے اور اس نصاب میں بڑھوتری کے وصف کا پایا جانا معتبر نہیں ہے (یعنی مالِ نامی کا ہونا ضروری نہیں ہے) اور اس نصاب کی وجہ سے قربانی کا وجوب اور قرابت داروں کے نفقے کا وجوب متعلق ہوتا ہے، ’’فتاویٰ قاضی خان ‘‘میں اسی طرح ہے، (فتاویٰ عالمگیری، ج:1،ص:191)‘‘۔

صدرالشریعہ علامہ امجد علی اعظمی لکھتے ہیں:’’جو شخص دو سو درہم یا بیس دینار کا مالک ہو یا حاجت کے سوا کسی ایسی چیز کا مالک ہو ،جس کی قیمت دو سو درہم ہو، وہ غنی ہے، اُس پر قربانی واجب ہے، حاجت سے مراد رہنے کا مکان اور خانہ داری کے سامان جن کی حاجت ہواور سواری کا جانور، خادم اور پہننے کے کپڑے، ان کے سوا جو چیزیں ہیں، وہ حاجت سے زیادہ ہیں، (بہارِ شریعت، ج:3،ص:333، مکتبۃ المدینہ، کراچی)‘‘۔