خواتین کے قاتل قانون کے شکنجے سے باہر کب تک ؟

June 19, 2022

ایک خوبرو لڑکی تانیا خاصخیلی کو ایک وڈیرے نے شادی کے نام پر اپنی رشتے کا پیغام بھیجا، لیکن اس کے ماضی کے کارناموں کے پیش نظر تانیا خاصخیلی کی والدہ نے یہ رشتے دینے سے صاف انکار کردیا اور پھر وہی ہوا، جو ایک طاقت ور کمزور کے ساتھ کرتا آیا ہے اور طاقت کے نشے میں بدمست اس وڈیرے نے تانیہ خاصخیلی کو نہ صرف قتل کردیا، بلکہ اس کے خاندان کا اس علاقے میں ان کے اپنے گھروں میں رہنا بھی محال کر دیا۔

تانیا خاصکیلی کی والدہ نے اپنا گھر بار چھوڑا اور محکمہ پولیس کے افسران کے آفس اور عدالتوں کا دروازہ انصاف کی فراہمی اور اپنی بچی کے قاتل کو قرار واقعی سزا دینے کے لیے کھٹکٹاتی رہیں اور یہ قانونی جنگ وہ پانچ سال تک لڑتی رہیں، جس کے بعد ان کے لاغر جسم نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا اور بیماریوں کے یکے بعد دیگرے ان پر حملے ہوتے رہے اور اس کے بعد خورشید بیگم کی سانس کی ڈوری ٹوٹ گئی اور ان کی نماز جنازہ نواب شاہ کے محلہ تاج کالونی میں اہل خانہ اور محلے کے لوگوں نے ادا کی اور ان کے جسد خاکی کو قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا۔

اس طرح تانیا خاصخیلی جس کے خون کا حساب لینے کے لیے پانچ سال تک اس کی بوڑھی والدہ بھاگ دوڑ کرتی رہی، پھر بالآخر زندگی کی بازی ہار گئی، اب ہوگا وہی جو پہلے اسی طرح کے مقدمات میں ہوتا چلا آیا ہے، مدعی کی وفات کے بعد مقدمہ عدم پیروی کی بنیاد پر خارج کر دیا جائے گا اور اس کے بعد پھر کسی تانیا کا قتل ہوگا، میڈیا میں خُوب خبریں چلیں گی ،پولیس افسران، علاقے کے ممبران اسمبلی اور وزیر، مظلوم خاندان کو انصاف کی فراہمی اور قاتل کو قرار واقعی سزا دلانے کے بلند و بانگ دعوے کریں گے اور پھر جو انجام تانیا کے کیس کا ہوا، وہی ان کیسوں کا بھی ہوگا۔

تاہم اب امید کی ایک کرن پھوٹی ہے، جس میں آئی جی پولس سندھ غلام نبی میمن کی جانب سے سندھ پولیس کو جاری کی گئی ہدایات میں یہ حُکم دیا گیا ہے کہ قتل کے تمام مقدمات ایس ایس پی، ڈی ایس پی اور ایس ایچ او کی نگرانی میں قانون کے ماہر سرکاری وکیل کی مشاورت سے اس طرح بنائے جائیں گے کہ ان میں کوئی بھی قانونی سقم نہ ہو اور مقدمہ اپنے منطقی انجام تک پہنچ سکے اور ظالم کو اس کے ظلم کی سزا دلائی جا سکے۔

اس سلسلے میں رابطہ کرنے پر ڈاکو کلچر کے خاتمے کے لیے فرنٹ لائن پر لڑنے والے ایس ایس پی تنویر حسین تنیو نے بتایا کہ بہت سے قتل اغوا برائے تاوان لوٹ مار اور منشیات فروشی کے مرتکب ملزمان اس لیے بھی عدالت سے باعزت بری ہوجاتے ہیں کہ ان کے مقدمات میں قانونی سقم کا مخالف وکیل فائدہ اٹھا کر ملزم کو بری کرا لیتا ہے۔ اکثر یہ بھی ہوتا ہے کہ مقدمات عدالت میں زیر سماعت ہوتے ہیں اور پولیس افسران کو یہ بھی علم نہیں ہوتا کہ کون سا مقدمہ کس اسٹیج پر ہے۔

ملزمان بھاری فیسیں دے کر نامور وکلا کی خدمات حاصل کر کے مقدمے میں موجود قانونی سقم کا فائدہ لے کر باعزت بری ہو جاتے ہیں۔ سب اہم مرحلہ جُرم ہونے کے بعد مقدمے کی تیاری کا ہوتا ہے، لیکن اس موقع پر دیکھا یہ گیا ہے کہ اکثر مدعی فریق مخالف کے تصفیہ کے جھانسہ میں اپنا مقدمہ کمزور کر بیٹھتے ہیں اور اس کا فائدہ فریق مخالف کو عدالت میں ہوتا ہے اور چند پیشیوں کے بعد وہ باعزت بری ہو جاتا ہے۔ ملزم کے خلاف ایف آئی آر کا درج نہ کرایا جانا بھی اس کو فائدہ دیتا ہے۔

اس کی مثال دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اکثر جب پولیس کسی عادی چور ڈاکو یا قاتل کو گرفتار کرتی ہے، تو اس کے خلاف کوئی بھی کسی تھانے میں مقدمہ سامنے نہیں آتا، جس کی وجہ سے عدالت میں وہ اپنا پہلا جُرم بتا کر انصاف کے حصول میں رکاوٹ بن جاتا ہے اور پھر وہ عادی مجرم نہ ہونے کی صف سے نِکل کر پہلا اور نادانستہ جرم ہونے کی صف میں داخل ہوکر قانون کا فائدہ اٹھا لیتا ہے اور یُوں وہ باعزت بری ہو جاتا ہے۔

اگر ہمارے معاشرے میں یہ رواج عام ہو جائے کہ جو بھی جُرم کرے اس کی ایف آئی آر داخل ہو تو پھر کوئی وجہ نہیں ہے کہ ایسے افراد جو کہ عادی مجرم ہوتے ہیں، قانون کے شکنجے سے بچ سکے۔ تھانوں میں ایف آئی آر کے کم اندراج کا ایک نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ اسی حساب سے نفری بھرتی کی جاتی ہے، جن اضلاع میں زیادہ ایف آئی آر داخل ہوتی ہیں ، وہاں پولیس کی نفری کی تعداد زیادہ بھرتی کی جاتی ہے، جب کہ جہاں پر کم ایف آئی آر ہوتی ہیں اور لازمی بات ہے کہ اس سے یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ اس ضلع میں جُرم کی شرح کم ہے، تو لازمی بات ہے کہ پولیس اہل کاروں کی بھی اسی حساب سے وہاں پر بھرتی کی جائے اور اس کا نقصان ان علاقوں کو ہوتا ہے، جن میں جُرم تو ہوتا ہے، لیکن ایف آئی آر درج نہیں کی جاتی۔

سندھ میں کاروکاری کے بیش تر واقعات کا پس منظر غیرت کے سِوا جائیداد زمین ہتھیانا یا پُرانی دشمنی کا بدلہ لینا ہوتا ہے اور اس سلسلے میں دیکھا یہ گیا ہے کہ چوں کہ یہ قتل اکثر برادریوں میں عام ہے، اس وجہ سے ان برادریوں کی معتبر شخصیات ان مقدمات کو آپس میں ہی نمٹا لیتے ہیں، جس کی وجہ سے قاتل سزا سے بچ جاتے ہیں اور معاشرے میں پھر کوئی اور غیرت کے نام پر قتل کر دیا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ہمارا معاشرہ اٹھ کھڑا ہو اور کسی مظلوم اور معصوم خاتون کا غیرت کے نام پر قتل ہو اور اس کے قاتل کو پھانسی پر چڑھا کر دم نہ لے تو پھر اس قبیح روایت کا سندھ سی خاتمہ ممکن ہے۔

ان کے سامنے ایک ایسا مقدمہ آیا جس کو دیکھ کر وہ دنگ رہ گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک نوجوان نے رات کو اپنی زرعی زمین پر پانی دینے کے سلسلے میں پڑوسی زمین دار کو تلخ کلامی کے بعد غصے میں آ کر قتل کر دیا اور اس کے بعد اس کو احساس ہوا کہ اس نے یہ خون کیا ہے اور اس کی سزا وہ پاکر رہے گا ، اس کے شیطانی دماغ نے یہ منصوبہ بنایا کہ وہ قریب میں واقع اپنے گاؤں میں گیا اور جا کر اپنی اسی سالہ نابینا والدہ کو کندھے پر اٹھا کر اس مقام پر لے کر آیا اور آکر اس نے اس نوجوان جس کو اس نے پانی کی تکرار پر قتل کیا تھا، اس کے ساتھ اپنی والدہ کو بھی وہاں پر کلہاڑیوں کے وار کر کے قتل کر دیا اور گاؤں میں آکر لوگوں کو بتایا کے اس نے اپنی والدہ کو اس لیے قتل کیا کہ وہ کاری تھی۔

تاہم گاؤں کے لوگوں نے پولیس کو یہ گواہی دی کہ ایک تو رات کو تین بجے یہ اپنی ماں کو کندھے پر ڈال کر لے کر گیا، جب کہ وہ نابینا تھی اور اس نے شور بھی کیا تھا اور اس واردات کی جگہ تک ایک ہی شخص کے پاؤں کے نشان تھے، جب کہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی والدہ اکیلی وہاں جاتی، لیکن ایسا نہیں تھا۔ اس لیے بھی کہ وہ بیچاری نابینا تھی اور اس کے بعد اس قاتل کوسزا ملی اور وہ پھانسی کے پھندے پر جھول گیا۔