کراچی میں پہلی بارش برس گئی، نالے صاف نہ ہوئے

June 23, 2022

—فائل فوٹو

کراچی میں نالوں کی صفائی کا کام مون سون کی بارشوں سے محض چند روز قبل شروع کیا گیا، وقت سے قبل اور تسلسل سے یہ کام پورا نہ ہونے کے باعث ہر سال یہ نالے مکمل طور پر صاف نہیں ہو پاتے، اس بار بھی یہی صورتِ حال دیکھنے میں آ رہی ہے۔

کراچی میں 41 بڑے اور 518 چھوٹے نالے ہیں، ان نالوں کا اصل کام برساتی پانی کو شہر کی 2 ملیر اور لیاری ندی میں ڈال کر بحیرۂ عرب میں پہنچانا ہے۔

ان نالوں کے اطراف قانونی اور غیر قانونی آبادیاں قائم ہو گئی ہیں، شہر کا کچرا ان برساتی نالوں میں پھینکا جا رہا ہے، سیوریج کی لائنیں ان نالوں میں ملا دی گئی ہیں اور بلدیاتی ادارے بھی انہی نالوں میں کچرا ڈال رہے ہیں۔

اس صورتِ حال میں یہ نالے صاف رکھنا ایک ناممکن سا عمل بن گیا ہے جسے ٹھیک کرنے کے لیے ایک مکمل اور مربوط نظام کی ضرورت ہے۔

اس سال بھی نالوں کی صفائی کا عمل بارشوں کے آغاز سے محض چند روز قبل شروع کیا گیا، گزشتہ 5 سال میں ان نالوں کی صفائی پر 2 ارب روپے سے زائد کی خطیر رقم خرچ کی گئی لیکن کوئی خاص اثر نہیں پڑا۔

گزشتہ 2 سال سے بارشیں بھی کم ہوئیں جس پر انتظامیہ نے سب اچھا ہے کا کریڈٹ اپنے سر کر لیا لیکن وفاقی حکومت کی جانب سے محمود آباد، گجر اور اورنگی نالہ ناصرف صاف کیا گیا بلکہ اسے اصل حالت میں بحال کرنے کے ساتھ دونوں اطراف دیوار بھی لگائی جا رہی ہے، گو کہ وفاقی حکومت کا کام بھی سست روی کا شکار ہے لیکن اس سے کافی حد تک بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔

’جیو نیوز‘ نے تحقیق کی تو حاصل دستاویزات کے مطابق شہر کے 27 بڑے نالوں پر تجاوزات قائم ہیں، شیر شاہ نالے پر لیاری ندی سے اردو بازار تک 80 فیصد تجاوزات ہیں۔

یونیورسٹی روڈ پر سونگل نالے پر 70 فیصد تجاوزات قائم ہیں، رنچھوڑ لائن سے مائی کولاچی تک سٹی نالے پر 70 فیصد تجاوزات ہیں۔

نیو کراچی کے 9 ہزار روڈ نالے پر 60 فیصد تجاوزات قائم ہیں، نیو کراچی کے 7 ہزار روڈ نالے پر 30 فیصد تجاوزات ہیں۔

لیاری کے ہارون آباد نالے پر 30 فیصد تجاوزات قائم ہیں، پہلوان گوٹھ کے نالے پر 30 فیصد تجاوزات قائم ہیں۔

برساتی نالوں پر قائم تجاوزات کا سروے محکمۂ آبپاشی سندھ اور کے ایم سی نے چند سال قبل کیا تھا۔

سروے کے بعد سے اب تک تجاوزات میں مزید اضافہ ہوا ہے، تاہم محمود آباد، گجر اور اورنگی نالے سے کئی ہزار گھر مسمار کر کے نالے کو بہتر کیا گیا ہے لیکن پورے شہر کے برساتی نالوں کو اصل شکل میں بحال کرنے کے کام کے لیے جس پلاننگ اور مشکل فیصلوں کی ضرورت ہے وہ ہوتے دکھائی نہیں دے رہے۔

گزشتہ سال ورلڈ بینک نے بھی نالوں کی صفائی مہم میں تعاون کیا اور انتظامیہ نے 5 کروڑ کے اخراجات سے کچرا نالوں سے نکال کر ٹھکانے لگانے کا دعویٰ کیا۔

30 جولائی 2021ء کو سیکریٹری سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ نے کمشنر کراچی سے نالوں میں کچرا پھینکے پر پابندی عائد کرنے اور ایسا کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کی درخواست کی، جس پر کمشنر کراچی نے حکم نامہ جاری کیا لیکن عمل درآمد نظر نہیں آیا، انتظامیہ ناکام نظر آئی، حکم نامے پر عمل درآمد ہوتا تو نالوں میں نہ کچرا ہوتا اور نہ صفائی کی اس قدر ضرورت پیش آتی۔

کراچی میں مون سون کی بارشیں شروع ہوئی نہیں کہ انتظامیہ کی قلعی کھل کر سامنے آ گئی، گزشتہ روز ہونے والی 34 ملی میٹر بارش سے شہر کے درمیان گزرنے والے نالوں کے اطراف کی آبادیاں نالے ابلنے سے شدید متاثر ہوئیں۔

سوال پھر وہی ہے کہ یہ سب کام ماضی میں بھی ہوا ہے اور پاک فوج کے انجینئرنگ کور نے بھی چند سال قبل اس کی نگرانی کی، لیکن ماہرین کہتے ہیں کہ جب تک نالوں کے اطراف دیواریں قائم اور غیر قانونی تعمیرات ختم نہیں کر لی جاتیں بہتر نتائج سامنے نہیں آئیں گے۔