اللّٰہ کے ساتھ اعلان جنگ۔ کب تک؟

June 28, 2022

سودی لین دین ایک ایسا عمل ہے جس کے متعلق سورۃ بقرہ کی آیت نمبر 278اور 279میں واضح طور ارشاد ہو،ا اے ایمان والو سود چھوڑ دو اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو یاد رکھو اللہ اور اس کے رسولؐ کی طرف سے اعلانِ جنگ ہے۔۔سود کو عربی زبان میں ربا کہتے ہیں جس کا لغوی معنی زیادہ ہونا ہے اور شرعی اصطلاح میں ربا کی تعریف یہ بیان کی گئی ہے کہ کسی کو اس شرط کے ساتھ رقم ادھار دینا کہ واپسی کے وقت وہ کچھ رقم زیادہ لے گا۔سود کسی غریب یا مسکین سے لیا جائے یا کسی امیر اور سرمایہ دار سے، یہ ایک ایسا عمل ہے جس سے نہ صرف معاشی استحصال،لالچ و حرص،خود غرضی و طمع،شقاوت و سنگدلی،اور بخل جیسی اخلاقی بیماریاں جنم لیتی ہیں بلکہ معاشی اور اقتصادی تباہ کاریوں کا ایک طوفان برپا ہوجاتاہے۔یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے دین اسلام میں سود کو ہر صورت میں حرام قرار دیا ہے۔ اللہ تعالی نے واضح طور پر بیان کردیا ہے کہ تجارت حلال ہے اور سود حرام۔یوں تو قیام پاکستان کے ساتھ ہی سود سے پاک نظامِ معیشت رائج کرنے کی کوشش کی گئی۔جولائی 1948 میں اسٹیٹ بینک کے افتتاح کے موقع پر قائد اعظم محمد علی جناح نے اسٹیٹ بینک کو یہ احکامات دیئے کہ وہ اسلامی اصولوں پر نظام معیشت قائم کرنے کے لیے عملی اقدامات کرے۔لیکن قائد اعظم محمد علی جناح کی جلد رحلت کی وجہ سے یہ منصوبہ پایۂ تکمیل تک نہ پہنچ سکا۔1977 کے بعد کچھ نمائشی اقدامات کیے گئے۔اسلامی نظریاتی کونسل کی تشکیل نو کی گئی۔وفاقی شرعی عدالت قائم کی گئی۔علما میں سے جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری اور مفتی تقی عثمانی کو عدالت کا جج نامزد کیا گیا لیکن دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ وفاقی شرعی عدالت کو دس سال کے لئے پابند کیا گیا کہ وہ مالیاتی امور کے متعلق کوئی رائے نہیں دے گی۔اس دوران 30 جون 1990ءکو پہلی درخواست عدالت میں دائر کی گئی، جس کے بعد مختلف جماعتوں،اداروں اور افراد کی جانب سے 88درخواستیں دائر کی گئیں۔جب یہ دس سال کی مدت ختم ہوئی تو 14 نومبر1991ءکو وفاقی شرعی عدالت پاکستان کے اس وقت چیف جسٹس جناب ڈاکٹر تنزیل الرحمٰن نے سود کے خلاف وہ پہلا تاریخی فیصلہ دیا جس نے پہلی مرتبہ سودی نظام کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا۔اس فیصلے میں واضح طور پر قرار دیا گیا کہ ایسے تمام قوانین جن سے سود کو تحفظ دیا گیا،وہ اسلامی احکامات سے متصادم ہیں لہٰذا انہیں کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔اس وقت میاں نواز شریف وزیراعظم پاکستان تھے۔ان کی حکومت نے وفاقی شرعی عدالت کے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا۔اس دوران مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی باری باری حکومت کرتی رہیں لیکن کسی حکومت نے اس معاملے میں دلچسپی نہ لی۔وفاقی شرعی عدالت کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ کے شریعت ایپلٹ بینچ میں اس مقدمے کی سماعت ہوئی۔آٹھ سال کے بعد 23 دسمبر 1999کو سپریم کورٹ کے شریعت بینچ نے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھا۔اس دوران پرویز مشرف برسر اقتدار آئے۔ان کی حکومت نے ایک سرکاری بینک کے ذریعے نظر ثانی کی اپیل دائر کی۔اس اپیل کی سماعت سے قبل سود کیخلاف فیصلہ دینے والے جج صاحبان جسٹس وجیہہ الدین احمد اور جسٹس خلیل الرحمٰن خان کو پی سی او کے تحت حلف نہ اٹھانے کی بنا پر سپریم کورٹ سے فارغ کر دیا گیا۔مولانا تقی عثمانی کا کنٹریکٹ بحال نہ کیا گیا جبکہ جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری پہلے ہی وصال فرما چکے تھے۔سپریم کورٹ کے نئے بندوبست نے 24جون 2002کے تاریک دن جسارت کرتے ہوئے 1999 کے اپنے فیصلے اور وفاقی شرعی عدالت کے 1991 کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا اور کیس اسی وفاقی شرعی عدالت میں از سر نو سماعت کے لیے بھیج دیا گیا جس کے متعلق کہا گیا تھاکہ اسے حق سماعت ہی حاصل نہیں۔ان 20 برس میں کتنے حکمران آئے اور چلے گیے۔کتنے ججز تبدیل ہوئے،وفاقی شرعی عدالت کے 9 چیف جسٹس صاحبان تبدیل یا ریٹائرڈ ہوئے۔عدلیہ بحالی تحریک چلی،لانگ مارچ ہوئے،آئینی ترامیم ہوتی رہیں۔لیکن کسی حکومت کو یہ توفیق نہ ہوئی کہ سود جیسی نحوست سے جان چھڑائے اور اللہ کے ساتھ جنگ بند کر کے عجز و انکسار کا مظاہرہ کرے۔2002 سے لے کر اپریل 2022 تک تقریباً 20 سال یہ مقدمہ وفاقی شرعی عدالت میں لٹکا رہا۔اور 28اپریل 2022 بروز جمعرات کو بالآخر وفاقی شرعی عدالت کے جج جسٹس سید محمد انور نے تاریخی فیصلہ سناتے ہوئےیہ قرار دیا کہ سود سے پاک بینکاری دنیا بھر میں ممکن ہے۔معاشی نظام سے سود کا خاتمہ معاشی اور قانونی ذمہ داری ہے۔عدالت نے حکومتوں پر برہمی کا اظہار کرتے ہوے کہا کہ کئی دہائیاں گزر گئیں لیکن کسی حکومت نے اس حوالے سے سنجیدہ کوشش نہیںکی۔پاکستان کی پارلیمان نے اس پر تحسین و تائید کی قرار داد منظور کی۔اب یہ افسوسناک خبرپڑھنے کو ملی ہے کہ ا سٹیٹ بینک آف پاکستان اور پانچ دیگر بینکوں نے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا ہے۔کیا حکومتِ وقت کو اندازہ ہے کہ وہ کس کے ساتھ جنگ میں مصروف ہے؟کیا معاشی ماہرین جان بوجھ کر عذابِ خداوندی کو دعوت دے رہے ہیں؟کیا وزیراعظم پاکستان اس معاملے کی سنگینی سے آگاہ ہیں؟خدا کے لیے ہوش کے ناخن لیں۔اب تمام دینی اور سیاسی رہنماؤں کو اس موقف پر اکٹھا ہونے کی ضرورت ہے۔ملک کے تمام دینی ادارےاور علما ملکر اس مقدمے میں فریق بنیں اور پوری تیاری کے ساتھ سپریم کورٹ میں اس مقدمے کا دفاع کریں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ بھی لیت و لعل سے کام لئے بغیر اس اپیل کو واپس لے، ملکی بینکنگ کو غیر سودی نظام پر منتقل کرے۔