اصل مشکل فیصلے

June 28, 2022

ہم کافی دنوں سے یہ سنتے آرہے ہیں کہ یہ حکومت بڑے سخت اور مشکل فیصلے کر رہی ہے اور ان مشکل اور سخت فیصلوں کے بغیر پاکستان ڈیفالٹ کر جائے گا اور ہمیں معاشی طور پر سنگین تباہی کا سامنا کرنا ہو گا۔ آئی ایم ایف کی سخت شرائط مان کر پیٹرول کی قیمت بڑھانے اور اضافی ٹیکس لگانے وغیرہ جیسے مشکل فیصلے اس لیے کیے جا رہے ہیں تا کہ کسی نہ کسی طرح پاکستان بس آئی ایم ایف کے پروگرام کو بحال کر لے، جو اب لگ رہا ہے کہ بجٹ کی منظوری کے بعد بحال ہو جائے گا اور پاکستان ڈیفالٹ سے بچ جائے گا۔ پاکستان کا معاشی سائیکل اسی طرح چلتا ہے جس میں ہم قرض لے کر درآمدات کی بنا پر گروتھ کرتے ہیں اور پھر اس عیاشی کی قیمت چکانے کے لیے دوبارہ سے قرض کے لیے مارے مارے پھرتے ہیں جو صرف آئی ایم ایف سے ہی ملتا ہے۔

یہ آئی ایم ایف پروگرام ہمارے ملک کا نا تو پہلا پروگرام ہے اور نہ ہی آخری ہوگا۔ایسا لگتا ہے کہ ہم یونہی آئی ایم ایف سے قرض مانگ مانگ کر ہی اپنا ملک چلاتے رہیں گے۔ آئی ایم ایف کو عمومی طور پر لینڈر آف لاسٹ رسورٹ کہا جاتا ہے یعنی کہ اگر کوئی اور آپ کو قرض نہ دے رہا ہو تو بھی آئی ایم ایف شاید آپ کو قرض دے دیتا ہے۔ پاکستان اب تک 23 دفعہ آئی ایم ایف سے قرض لے چکا ہے یعنی پاکستان 23 دفعہ معاشی طور پر اس نہج پر آچکا ہے کہ اس کے لیے کوئی اور چارہ نہیں تھا۔ ہمارے برعکس بھارت نے آخری دفعہ آئی ایم ایف سے قرض1993 میں لیا تھا اور آئی ایم ایف کے سارے قرضے 2000 سے پہلے واپس کر چکا ہے اور بھارت صرف 7 دفعہ اپنی تاریخ میں آئی ایم ایف کے پاس گیا تھا۔ بنگلہ دیش نے12 دفعہ آئی ایم ایف سے قرض لیا ہے اور سری لنکا جو ابھی ڈیفالٹ کر رہا ہے اس نے 16 دفعہ آئی ایم ایف سے قرضہ لیا ہے۔ افغانستان جہاں طالبان حکومت کو عالمی دنیا تسلیم نہیں کر رہی وہ آئی ایم ایف کے پاس ابھی تو نہیں جا سکتا لیکن ماضی میں11 دفعہ آئی ایم ایف سے قرض لے چکا ہے، اسی طرح نیپال آٹھ دفعہ اور ملڈوس تین دفعہ آئی ایم ایف سے قرض لے چکا ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کی معیشت اس خطے میں سب سے زیادہ تباہی کی طرف گئی ہے۔ پاکستانی روپیہ بھی خطے میں بنگلہ دیش اور انڈیا دونوں کے مقابلے میں کمزور ہے اور ہماری برآمدات بھی ان دونوں ممالک کے مقابلے میں کافی کم ہیں۔بنگلہ دیش ہم سے 15 ارب ڈالر زیادہ کی برآمدات کرتا ہے اور انڈیا ہم سے 250 ارب ڈالر سے زیادہ کی برآمدات کرتا ہے۔ اسی طرح زرمبادلہ کے ذخائر میں بھی ابھی ہم ان دونوں ملکوں سے کافی پیچھے ہیں جہاں ہمارے تقریباً 14 ارب ڈالر کے قریب زر مبادلہ کے ذخائرہیں وہاں بنگلہ دیش کے 40 ارب ڈالر سے زیادہ اورانڈیا کے601 ارب ڈالر سے زیادہ ہیں۔

پاکستان کی تاریخ کا ایک افسوسناک پس منظر یہ رہا ہے کہ یہاں پر سیاسی عدم استحکام اتنا زیادہ رہتا ہے کہ ہر حکومت حکمران اور معیشت خود ہر وقت بقا کی جنگ میں ہی ہوتے ہیں اور اس سے آگے سوچنے کے لیے نہ ماحول کبھی اجازت دیتا ہے اور نہ ہی ہمارے اندرونی اوربنیادی مسائل۔ میں اس حکومت کے ان دعووں سے اختلاف کرتا ہوں کہ وہ بڑے مشکل فیصلے کر رہی ہے۔ اختلاف اس لیے نہیں کہ یہ فیصلے مشکل نہیں ہیں بلکہ اختلاف اس وجہ سے کیوں کہ یہ حکومت کے فیصلے نہیں بلکہ واحد اور اکلوتی بچی ہوئی آپشن ہے۔ فیصلے انسان تب کرتا ہے جب اس کے اختیار میں کچھ ہو یہاں پر تو اس کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہیں۔

اگر ہم اس دلدل سے نکلنا چاہتے ہیں تو ہمیں حقیقی مشکل فیصلے کرنا ہوں گے جن سے ہر حکومت چاہے وہ جمہوری ہو یا غیر جمہوری حتیٰ کہ مقتدرہ بھی کتراتی ہے۔یہ فیصلے ہماری بنیادی سمت درست کرنے کے لیےاہم ہیں۔ وہ سمت جو ہمیں بار بار آئی ایم ایف کے دروازے پر لے جاتی ہے اور ہمارے عوام کے لیے نئی سے نئی مشکلات کا سبب بنتی ہے۔ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ہماری ریاست اپنی آمدن سے زیادہ خرچ کرتی ہے اور یہ خرچہ زیادہ تر غیر پیداواری ہوتا ہے یعنی اس سے براہ راست نہ ہماری برآمدات بڑھتی ہیں اور نہ ہی ہماری معیشت کو کوئی فائدہ پہنچتا ہے۔ ہمیں چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانے کی ضرورت ہے اور چاہے وہ ریاست کی کمپنیاں ہوں جیساکہ پی آئی اے یا اسٹیل مل وغیرہ جن کا خسارہ ہم برداشت نہیں کر سکتے یا پھر ہماری بیوروکریسی کی شاہ خرچیاں ہوں جن کو سرکاری گھر ، گاڑیوں اور ڈرائیوروں وغیرہ سے نوازا جاتا ہے۔ ہمارے جیسے قرض پر زندہ رہنے والے ملکوں کویہ زیب نہیں دیتا۔ یہ مشکل فیصلہ کون کرے گا کہ ہم نے اپنے اخراجات کم کرنے ہیں اور یہ فضول خرچیاں جو حکومت کرتی ہے وہ ختم کرنی ہیں؟

پھر اسی طرح ہم بجٹ میں سب سے کم پیسے تعلیم بالخصوص ہائر ایجوکیشن کیلئے مختص کرتے ہیں۔ ہماری آئی ٹی ا یکسپورٹ اب بھی ملک کے لیے ایک اہم لائن ہے، اس میں اتنا پوٹینشل ہے کہ تین سال میں 15 ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔ لیکن ایک سرکاری بلٹ پروف لینڈکروزر جو دس کروڑ سے زائد کی پاکستانی عوام کو پڑھتی ہے، کے پیسوں سے ایک ہزار نوجوانوں کو ہنر اور آئی ٹی سکلز سکھائی جا سکتی ہیں، اس لینڈ کروزر کی بجائے اس سمت میں پیسے لگانے کیلئے مشکل فیصلے کون کرے گا؟

پاکستان میں اشرافیہ ہی سب کچھ کنٹرول کرتی ہے اور ہم بار بار دیکھتے ہیں کہ ایمنسٹی سکیم ہو یا پھر کوئی اور ریاست کی مدد سے فائدہ، اس میں اشرافیہ کے مفادات کو ہی مد نظر رکھا جاتا ہے اور اس کا بھاری بوجھ غریب عوام پر ڈال دیا جاتا ہے۔ سیاست سے لے کر اقتدار اور طاقت کے ہر ایوان تک ہماری اشرافیہ کو روکنے کا مشکل فیصلہ کون کرے گا؟

پاکستان کا اس وقت مسئلہ یہ ہے کہ ہماری سمت اس قدر غلط ہے کہ ہم بہتر کیا بد سے بد ترین حالات کی طرف ہی جاتے جا رہے ہیں۔ ہم یہ حقیقت تسلیم کرنے کو تیار ہی نہیں ہیں کہ بنگلہ دیش اور انڈیا ہم سے کتنا آگے نکل چکے ہیں اور ہم کہاں پرانی باتوں، 1992 کے ورلڈ کپ اور اپنی بنائی ہوئی چند ایک مصنوعی کی چودھراہٹ میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اس حقیقت کو تسلیم کرنے اور سمت بدلنے کا اصل مشکل فیصلہ کون کرے گا؟

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)