معیشت: مثبت اور منفی پہلو

June 29, 2022

ملک میں بدترین سیاسی عدم استحکام ، بڑھتے ہوئے غیر ملکی قرضے، بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی من مانی شرائط، برداشت سے باہر ہوتی روزافزوں مہنگائی، بیروز گاری، زرعی و صنعتی انحطاط ، غربت کی شرح میں اضافہ اور بعض دوسرے منفی عوامل بلا شبہ ملکی معیشت کو دیوالیہ پن کی طرف لے جا رہے تھے۔ ایسے میں 13جماعتی اتحادی حکومت کو عام ڈگر سے ہٹ کر سخت اور مشکل فیصلے کرنا پڑے جو یقیناً عام آدمی کیلئے قابل قبول نہیں ہو سکتے۔ اسی لئے خود حکومتی زعما بھی کہہ رہے ہیں کہ ہم نے ریاست کو بچانے کیلئے سیاسی نقصان اٹھانے کی پروا نہیں کی۔ حکومت کی معاشی ٹیم نے جہاں پٹرولیم مصنوعات، بجلی اور گیس کی قیمتوں اور ٹیکسوں میں اضافہ کر دیا ہے جس سے اشیائے خوردنی سمیت عام استعمال کی ہر چیز کی مہنگائی کو پر لگ گئے ہیں، تنخواہ دار طبقے سمیت دکانداروں تاجروں اور صنعت کاروں پر ٹیکسوں کی بھرمار کر دی ہے وہاں کچھ ریلیف دے کر لوگوں کو اشک شوئی کی بھی کوشش کی ہے۔ ساتھ ہی بین الاقوامی سطح پر قرضوں کے حصول اور ان کی ادائیگی میں رعائتیں لے کر معیشت کو سنبھالنے کی بھی تگ و دو کی جا رہی ہے۔ اس سلسلے میں فرانس سے قرضے کی ادائیگی موخر کرانا تازہ ترین کامیابی ہے۔ مجموعی طور پر پاکستان اب تک تقریباً پونے چار ارب ڈالر کی ادائیگی موخر کرا چکا ہے۔ جی ۔20ممالک سے باقی قرضوں کی ری شیڈولنگ کیلئے بات چیت جاری ہے۔ پٹرول مہنگا کرنے سے اس کی کھپت 20فیصد کم ہو گئی ہے جس سے درآمدی بل بھی کم ہوا ہے۔ آئی ایم ایف سے معاہدہ ہونے والا ہے جس سے ڈالر کی قیمت میں ہونے والا اضافہ ، معمولی اتار چڑھائو کے ساتھ تقریباً رک گیا ہے۔ اسٹاک مارکیٹ میں تیزی کا رجحان پیدا ہوا ہے ۔ یہ صورتحال خوش آئند ہے لیکن حکومت کے سخت اقدامات بھی جاری ہیں جو عوام میں بے چینی پیدا کر رہے ہیں۔ ایل پی جی کی قیمتوں میں دس روپے کا اضافہ کر دیا گیا ہے جس سے گھریلو سلنڈر 120روپے مہنگا ہو گیا ہے۔ فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بجلی 7روپے 90پیسے فی یونٹ مہنگی کی جا رہی ہے اور یکم جولائی سے پٹرولیم مصنوعات پر دس روپے لیوی عائد کی جائے گی۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے پیر کو مختلف اعلیٰ سطحی میٹنگز میں حکومت کے سخت اقدامات کا دفاع کیا ہے اور کہا ہے کہ ان سے ملک دیوالیہ ہونے سے بچ گیا ہے انہوں نے امیروں پر براہ راست ٹیکس کو حکومت کا انقلابی قدم قرار دیا اور کہا کہ اس سے صنعتیں متاثر نہیں ہوں گی کیونکہ ٹیکس مالکان کی آمدنی پر لگایا گیا ہے۔ شاید اس پہلو پر غور نہیں کیا گیا کہ صنعت کاروں کی آمدنی پر ٹیکس لگے گا تو وہ اپنی پروڈکشن کی قیمتیں بڑھا کر اپنا نقصان پورا کر لیں گے۔وزیر اعظم نے بتایا کہ بجلی پیدا کرنے کیلئے افغانستان سے اعلیٰ کوالٹی کا سستا کوئلہ درآمد کیا جا رہا ہے جس کی ادائیگی ڈالروں کی بجائے روپوں میں کی جائے گی۔ اس سے دو ارب ڈالر کی سالانہ بچت ہو گی۔ اسی کوئلے سے ٹرانسپورٹ اور ریلوے بھی چلے گی۔ شمسی توانائی سے بھی بجلی پیدا کرنے کا پروگرام جلد شروع ہو گا۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو مہنگائی کا احساس ہے اسی لئے غریب اور پسماندہ طبقے کو بے نظیر پروگرام کے تحت مالی مدد فراہم کی جا رہی ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ اگر حکومت نے اس پر خاطر خواہ توجہ دی تو معاشی بحالی آسان ہو جائے گی۔وزیر اعظم شہباز شریف ایک محنتی اور ان تھک لیڈر ہونے کی شہرت رکھتے ہیں۔ انہیں مرد میدان آصف زرداری اور دوسرے سیاسی قائدین کی مشاورت بھی حاصل ہے۔ اگر انہوں نے متفقہ قومی ایجنڈے پر کام جاری رکھا تو امید کی جانی چاہئے کہ گڈ گورننس اور معاشی استحکام لانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔