کاغذ کی قیمت میں 200 فیصد اضافہ؟

June 29, 2022

یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ کاغذ ہماری زندگی کا جزو لاینفک بن چکا ہے ، چاہے ضروریات زندگی خریدنے کیلئے نوٹوں کا استعمال ہو یا رقم کی ادائیگی کیلئے بینک کے چیک یا ڈرافٹ، معلومات کو محفوظ رکھنے کیلئے کتابیں ،کاپیاں ہوں یا اخبارات و رسائل،کاغذ ہماری زندگی کا لازمی حصہ ہے۔دریں صورت یہ خبر تشویشناک ہی قرار پائے گی کہ کاغذ کی قیمت میں 200 فیصد اضافے اور مقامی ملز کی جانب سے منافع خوری کے سبب کتابوں کی اشاعت ناممکن دکھائی دے رہی ہے۔ایک انگریزی معاصر کے مطابق کاغذ کے کاروبار سے متعلق تاجروں کا کہنا ہے کہ ’’درآمدی کاغذ پر بلند شرح ٹیکس، روپے کی قدر میں نمایاں کمی، ڈالر کے مہنگا ہونے اور کاغذ کی مقامی ملز کی منافع خوری کے سبب ملک بھر میں کاغذ کا سنگین بحران ہوگیا ہے، نتیجتاً کاغذ کی قیمتیں آسمان پر پہنچ گئی ہیں ،چنانچہ بچوں کیلئے درسی کتب دستیاب نہیں ہوں گی اور اگر ہوئیں تو وہ قیمت کے اعتبار سے لوگوں کی قوت خرید سے باہر ہوں گی۔‘‘یادرہے کہ حکومت نے کتابوں اور دیگر مواد کی اشاعت کیلئے استعمال ہونیوالے کاغذ کی درآمد پر 70 فیصد ڈیوٹی عائد کردی تھی۔کاغذ کی قیمتوں ،خاص طور پر اس کا غذ کی قیمت میں اضافہ جو درسی اور دیگر کتب کی اشاعت میں استعمال ہوتا ہے ،علم دوستی کے برعکس ہے ،ملک میں لاکھوں بچےمحض اس لیے اسکول نہیں جاتے کہ انکے والدین تعلیم کے اخراجات برداشت نہیں کر پاتے،سوال یہ ہے کہ کیا سرکاری اسکولوں میں اب بھی مفت کتابیں مہیا کرنیکا سلسلہ جاری رہے گا ؟ اگر ایسا ہی ہو گا تو نجی اداروں میں تعلیم حاصل کرنیوالے بچوں کے والدین کا کیا قصور ہے،کتابوں کی قیمتیں ان پر اضافی بوجھ نہ ہو گا ،حکومت کاغذ کی قیمتوں میں اضافے کا فیصلہ واپس لے تاکہ تعلیم و اشاعت کا سلسلہ جاری رہ سکے ۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998