’’بلوچستان کی ترقی پاکستان کی ترقی‘‘ کا نعرہ کب حقیقت بنے گا؟

June 30, 2022

بلوچستان کے آئندہ مالی سال کا 612 ارب روپے سے زائد کا بجٹ دوبار صوبائی اسمبلی کا اجلاس موخر کیے جانے کے بعد بالاخر پیش کردیا گیا، جس میں 72 بلین روپے کا خسارہ ظاہر کیا گیا ہے، 3367 جاری ترقیاتی منصوبوں کے لیے 133 ارب روپے ، 3470 نئے ترقیاتی منصوبوں کے لیے 59 ارب روپے مختص کیے، 2852 سے زائد نئی اسامیاں تخلیق کی گئی ہیں، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں 15 فیصد اضافہ جبکہ مزدور کی کم سے کم اجرت 25000 روپے مقرر کی گئی ہے۔

یہ صوبے کی تاریخ کا اپنی حجم کے حوالے سے سب سے بڑا بجٹ ہے یاد رہے کہ گزشتہ مالی سال کے بجٹ کا کل حجم 584 بلین روپے تھا، جس میں ترقیاتی منصوبوں کے لئے 172 بلین روپے رکھے گئے تھےلیکن مالی سال کے اختتام پر صرف 92 ارب روپے کے فنڈز جاری کیے جاسکے تھے جبکہ صوبائی وزیر خزانہ، مواصلات و تعمیرات سردار عبدالرحمٰن کھیتران نے اپنی پوسٹ بجٹ پریس بریفنگ میں ترقیاتی منصوبوں کے لئے جاری ہونے والے 92 ارب روپے کے فنڈز کے اجرا کو صوبے کی تاریخ میں ریکارڈ قرار دیا تھا یہاں یہ امر قابل غور ہے گزشتہ مالی سال کا ترقیاتی منصوبوں کے لئے 172 بلین روپے مختص کیے گئے تھے لیکن جاری صرف 92 ارب روپے ہوئے یعنی کل کے نصف سے کچھ ہی زیادہ فنڈز جاری ہوئے۔

تاہم صوبائی حکومت اس بار بجٹ خسارہ گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں کچھ کم کرنے میں کامیاب ہوئی ہے ، صوبائی حکومت اپنا بجٹ اپنے محاصل اور وفاق سے مختلف مدات میں ملنے والے متوقع فنڈز کو مدنظر رکھ کر بناتی ہے لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ وفاق کی جانب سے اکثر پورئے فنڈز نہیں ملتے تو دوسری جانب نہ صرف موجودہ بلکہ ماضی کی صوبائی حکومتوں پر فنڈز استعمال کرنے کی بجائے لیپس کرنے کے الزامات لگتے رہے ہیں، آئندہ مالی کے بجٹ میں وفاق سے ملنے والے متوقع فنڈز میں سوئی گیس لیز ایکسٹنشن سے 40 ارب روپے بھی ظاہر کیے گئے ہیں جبکہ معاشی ماہرین کی رائے ہے کہ وفاقی حکومت جو اس وقت مالی مشکلات میں گھری ہوئی ہے اس کے لئے اس مد میں پوری رقم کی ادائیگی مالی سال کے دوران شائد ممکن نہ ہو اگر واقعی ایسا ہوتا ہے تو اس کا براہ راست اثر یقینی طور پر ایک بار ترقیاتی منصوبوں کے لئے مختص فنڈز پر پڑئے گا جس سے بجٹ میں شامل ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل ممکن نہ ہوسکے گی۔

بلوچستان میں یوں بھی ترقیاتی منصوبوں پر عمل کرنا دوسرئے صوبوں کے مقابلے میں مشکل ہے کہ یہاں ایک جانب تو صوبے کے پاس ترقیاتی منصوبوں کے لئے فنڈز کم ہوتے دوسری جانب آبادی منتشر اور فاصلے طویل ہیں اور پھر ترقیاتی منصوبوں میں کرپشن کے سوالات ہمیشہ ہی اٹھائے جاتے رہے ہیں، ماضی میں صوبے میں آنے والی ہر حکومت کا یہ موقف رہا ہے کہ صوبے کے اپنے وسائل سے صوبے کی ترقی ممکن نہیں جب تک وفاق اس سلسلے میں صوبے کے حصے سے بڑھ کر اسے فنڈز دئے لیکن وہیں اقتدار سے باہر کی جماعتیں ہر حکومت کو فنڈز لیپس کرنے پر تنقید کا نشانہ بناتی رہی ہیں۔

وجہ چاہے کچھ بھی ہو حقیقیت یہ ہے کہ بلوچستان آج بھی پسماندگی کا شکار اور عوام سہولیات سے محروم ہیں اور کہیں سے بھی صوبے کی ترقی اور ملک کے دوسرئے صوبوں کے برابر آنے کے آثار کم ہی نظر آتے ہیں یہ الگ بات ہے کہ وفاق اور صوبے میں چاہے حکومت کسی بھی جماعت کی رہی ہو بلوچستان کی ترقی کے دعوئے سب ہی کرتے رہے بلکہ گزشتہ چند سال سے بلوچستان کی ترقی پاکستان کی ترقی کا نعرہ بھی بلوچستان کے عوام تسلسل سے سنتے آرہے ہیں جبکہ حقیقیت کیا ہے اس سے بلوچستان کے عوام بخوبی آگاہ ہیں۔

ماضی میں صوبے کی ترقی کے حوالے سے حکومتیں دعوئے اور وعدئے کرتی رہی ہیں تو ہر اپوزیشن نے اپوزیشن کا کردار نبھاتے ہوئے حکومتوں کو تنقید کا نشانہ بنایا جبکہ گزشتہ مالی سال کے بجٹ کے موقع پر بلوچستان مین جو ہوا اس کی مثال نہ تو اس سے پہلے بلوچستان اور نہ ہی ملک کی سطح پر دیکھنے میں آئی جب بجٹ سے چند روز قبل بلوچستان میں متحدہ اپوزیشن نے بجٹ سے کئی روز قبل احتجاج کا سلسل شروع کیا اور بلوچستان اسمبلی کے سامنے احتجاجی کیمپ بھی لگایا جبکہ صوبائی بجٹ پیش کیے جانے کے موقع پر اسمبلی کے داخلی دروازوں پر دھرنا دیا جس کے بعد داخلی دروازئے کھلوانے کی کوشش میں ارکان اسمبلی زخمی ہوئے اپوزیشن ارکان کے خلاف ایف آئی آر درج ہوئی تاہم کسی اپوزیشن رکن کو گرفتار تو نہیں کیا گیا لیکن اپوزیشن ارکان خود پولیس اسٹیشن چلے گئے اور کئی روز وہاں رہے۔

یاد رہے کہ سابق وزیراعلیٰ جام کمال خان کے دور میں پیش کیے جانے والے تمام صوبائی بجٹ پر نہ صرف بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن جماعتیں احتجاج کرتی رہیں بلکہ صوبائی بجٹ پر عدالت بھی گئی نہ صرف یہ بلکہ گزشتہ مالی سال کے بجٹ کے اگلے ہی روز متحدہ اپوزیشن کے رہنماوں نے اسمبلی کے گیٹ پر پیش آنے والے واقعے پر سابق وزیراعلیٰ جام کمال خان کے خلاف مقدمہ درج نہ کئے جانے کی صورت میں عدالت سے رجوع ، بلوچستان اسمبلی کے بجٹ سیشن کے بائیکاٹ اور اپوزیشن جماعتوں کا اسمبلی کے احاطے میں اپنا اجلاس منعقدہ کرنے کا اعلان کیا تھا۔

گزشتہ مالی سال کا بجٹ جس ٹینشن میں پیش کیا گیا تھا نئے مالی سال کا بجٹ اس سے بالکل مختلف صوتحال مین پیش کیا گیا ، وزیرخزانہ نے بجٹ پرسکون ماحول میں پیش کیا ، ان سطور کے تحریر کیے جانے تک بلوچستان اسمبلی کا بجٹ سیشن جاری ہے ، 29 جون کو بجٹ کی منظوری دی جائے گی، جہاں ماضی کے چند سالوں کے مقابلے میں بجٹ الگ اور پرسکون انداز میں پیش کیا گیا جس کی پہلے ہی سے توقع کی جارہی تھی۔