پاکستانی بینکوں کا روسی خام تیل درآمد کرنے کیلئے ایل سیز کھولنے سے انکار

July 02, 2022

اسلام آباد (خالد مصطفیٰ) پاکستانی بینکوں نے روسی خام تیل درآمد کرنےکےلئے ایل سیز کھولنے سے انکار کردیا ہے۔ جب کہ روس کی بندرگاہ سے فرائٹ چارجز ، یو اے ای کے مقابلے میں 8 سے 12 گنا زیادہ ہیں۔ حکومتی خط کے جواب میں چار ریفائنریز پارکو، بائکو (سنرجی پی کے لمیٹڈ)، پی آر ایل اور این آر ایل کا کہنا ہے کہ پاکستانی بینکوں نے روسی خام تیل درآمد کرنے کے لیے ایل سیز کھولنے سے انکار کردیا ہے۔ جب کہ ریفائنریز کا کہنا ہے کہ وہ روسی خام تیل اپنے طور پر درآمد نہیں کرسکتیں کیوں کہ ماسکو پر عائد پابندیوں کی وجہ سے روس کو امریکی ڈالرز میں ادائیگی ممکن نہیں ہے۔ تاہم، اگر حکومت روس کے ساتھ کمرشل معاہدہ کرنے میں کامیاب ہوتی ہے جس میں روبیل میں خریداری ممکن بنائی جاسکے ، جس سے پاکستان پر عالمی پابندیوں کا کوئی اثر نہ ہو تو رو س سے تیل درآمد کیا جاسکتا ہے۔ پارکو کا کہنا ہے کہ وہ 15 سے 30فیصد روسی خام تیل کو قابل استعمال بناسکتا ہے۔ اس کے علاوہ روسی بندرگاہ سے موجودہ فرائٹ ٹرانسپورٹیشن کا تخمینہ 30سے 35لاکھ ڈالرز لگایا گیا ہے ، جب کہ مشرق وسطیٰ کی بندرگاہوں سے فرائٹ 8 سے 10لاکھ ڈالرز میں پہنچتا ہے۔ بحیرہ اسود سے سمندری سفر بھی 16 سے 26روز کا ہے۔ جب کہ مشرق وسطیٰ سے یہ سفر 4 سے 5روز کا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ روس کی بندرگاہ سے فرائٹ چارجز ، یو اے ای کے مقابلے میں 8 سے 12 گنا زیادہ ہیں۔