احادیث کی روشنی میں ماہ ذوالحجہ کے فضائل

July 03, 2022

تحریر:قاری محمد عباس.....ویکفیلڈ
رب کریم نے ماہ ذوالحجہ کو بالخصوص اس کے پہلے عشرہ کو عظمت و فضیلت اور شان و شوکت عطا فرمائی ہے۔( پہلی فضیلت) اس مہینے کا شمار ان چار مہینوں (ذوالقعدہ، ذوالحج، محرم اور رجب)میں ہوتا ہے جن کو حرمت وعزت والے مہینے کہا جاتا ہے ان میں خونریری، لڑائی جھگڑا وغیرہ کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔ حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ زمانہ گھوم کر اسی حالت پر آ گیا جیسے اس دن تھا جب اللہ رب العزت نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا تھا۔ سال کے بارہ مہینے ہیں اور ان میں سے چار حرمت یعنی عزت و احترام والے ہیں۔ تین تو اکٹھے ترتیب کے ساتھ ہیں یعنی ذوالقعدہ، ذوالحج، محرم اور چوتھا مہینہ رجب والا ہے جو جمادی الثانی اور شعبان کے درمیان میں ہے۔ (صحیح البخاری، باب قولہ ان عدۃ الشھور، الرقم:4662)۔ اس ماہ کی دوسری فضیلت یہ ہے کہ اس مہینے کے پہلے دس دنوں میں کیے جانے والے نیک اعمال کا ثواب باقی ایام کے مقابلے میں زیادہ عطا کیا جاتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا،عشرۂ ذو الحج میں کیے جانے والے نیک اعمال دوسرے عام دنوں میں کیے جانے والے نیک اعمال کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کے ہاں زیادہ فضیلت والے ہیں۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! کیا جہاد(جیسی عظیم عبادت)بھی ان کے برابر نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ہاں۔ مگر وہ شخص جو جان و مال لے کر جہاد کے لیے نکلے اور پھر ان جان و مال میں سے کچھ بھی واپس نہ آئے(یعنی وہ شہید ہو جائے)۔ (صحیح البخاری باب فضل العمل فی ایام التشریق، الرقم:969) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں عشرۂ ذو الحج زیادہ عظمت والا ہے اور ان دس دنوں میں کی جانے والی عبادت باقی عام ایام کی بہ نسبت اللہ کو زیادہ محبوب ہے۔ ان دنوں میں کثرت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرو یعنی سبحان اللہ کہو، تہلیل یعنی لا الہ الا اللہ کہو، تکبیر یعنی اللہ اکبر اور تحمیدیعنی الحمد للہ کہو۔ (مسند عبد بن حمید، احادیث ابن عمر، الرقم:805) اس مہینے کیتیسری فضیلت یہ ہے کہ اس مہینے کو یہ فضیلت بھی حاصل ہے کہ یہ دین اسلام کے پانچویں اہم ترین رکن”حج“ کی ادائیگی کا مہینہ ہے۔ اس لیے اس مہینے کا نام ہی ذوالحج رکھا گیا ہے یعنی حج والا مہینہ۔ چوتھی فضیلت یہ ہے کہ اس مہینے کے مخصوص ایام(نویں ذوالحج کی نماز فجر سے تیرہویں ذوالحج کی نماز عصر تک)میں ہر فرض نماز کے بعد تکبیرات تشریق کہی جاتی ہیں۔ تکبیر تشریق یہ ہے، (اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد )۔پانچویں فضیلت یہ ہے کہ اس مہینے کے پہلے عشرہ(مراد پہلے نو دن ہیں) کے روزوں کا ثواب بہت زیادہ ہے یہاں تک کہ اس کے ایک دن کا روزہ سال بھر کے روزوں کے برابر ہے اور اس کی ایک رات کی عبادت لیلۃ القدر کی عبادت کے برابر ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں عام دنوں کے مقابلے میں عشرۂ ذو الحج کی عبادت زیادہ محبوب ہے، اس ایک دن کا روزہ(عام دنوں کے)ایک سال کے روزوں کے برابر ہے اور(عشرۂ ذو الحج کی)ایک رات کی عبادت لیلۃ القدر کی عبادت کے برابر ہے۔ (جامع الترمذی، باب ماجاء فی العمل فی ایام العشر، الرقم: 689) ۔چھٹی فضیلت یہ ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ نے اسلام کو مکمل فرمایا اور اپنی نعمت کو پورا فرمایا۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک یہودی نے ان سے کہا اے امیر المومنین!آپ کی کتاب(قرآن کریم)میں ایک آیت ایسی ہے اگر وہ ہمارے اوپر یعنی دین یہود میں نازل کی جاتی ہے تو ہم اس دن عید مناتے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس یہودی سے پوچھا کہ کون سی آیت؟ یہودی نے کہا: اَلْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی وَرَضِیتُ لَکُمُ الْإِسْلَامَ دِینًاجس کا مفہوم یہ ہے کہ آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لئے اسلام کو بحیثیت دین پسند کرلیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے فرمایا کہ ہم اس دن کو خوب جانتے ہیں اور اس جگہ کو بھی اچھی طرح سے جہاں یہ آیت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی۔ یوم عرفہ(نویں ذوالحج)بروز جمعہ میدان عرفات میں وقوف فرما رہے تھے۔ (صحیح البخاری، باب زیادۃ الایمان ونقصانہ،الرقم 45) ۔ساتویں فضیلت یہ ہے کہ اس مہینے کی نویں تاریخ یعنی ”یوم عرفہ“ کا روزہ ہے۔ جس کا احادیث مبارکہ میں بہت زیادہ اجر ذکر کیا گیا ہے۔ فائدہ: پہلے عرض کیا جا چکا ہے یہ عظیم الشان فضیلت ان لوگوں کے لیے ہے جو حج ادا نہ کر رہے ہوں، حجاج کرام کو روزہ کی وجہ سے وقوف عرفہ جیسی عبادت میں سستی پیدا ہونے کا اندیشہ ہو تو بہتر یہ ہے کہ وہ روزہ نہ رکھیں۔آٹھویں فضیلت یہ ہے کہ اس مہینے کی نویں تاریخ یعنی یوم عرفہ میں اللہ رب العزت لوگوں کو جہنم سے کثرت کے ساتھ آزاد فرماتے ہیں۔ حضرت ابن المسیب سے مروی ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ رب العزت باقی ایام کی بہ نسبت یوم عرفہ(نویں ذوالحج)والے دن لوگوں کو کثرت کے ساتھ جہنم سے آزاد فرماتے ہیں۔(صحیح مسلم،باب فی فضل الحج والعمرۃ ویوم عرفۃ، الرقم: 2402) ۔نویں فضیلت یہ ہے کہ اس مہینے کی دسویں تاریخ کو نماز عید ادا کی جاتی ہے، عید کا دن بھی فضیلت والا ہوتا ہے اور اس کی رات بھی۔ عیدین کی راتیں ایسی مبارک راتیں ہیں اگر کوئی شخص ان میں اللہ کی عبادت کرے تو اللہ تعالیٰ اس کو قیامت کی ہولناکیوں سے محفوظ فرماتے ہیں۔ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص دونوں عیدوں (عید الفطر اور عید الا ضحیٰ) کی راتوں میں ثواب کا یقین رکھتے ہوئے عبادت میں مشغول رہا تو اس کا دل اس دن نہ مرے گا جس دن لوگوں کے دل مردہ ہو جائیں گے۔(سنن ابن ماجہ، باب فیمن قام فی لیلتی العیدین، الرقم: 1782) ۔ دسویں فضیلت یہ ہے کہ اس مہینے کی دسویں، گیارہویں اور بارہویں تاریخ کو اللہ کے نام پر متعین جانور کو ذبح کیا جاتا ہے یعنی قربانی کے مبارک عمل کی ادئیگی کی جاتی ہے اس دن اس عمل سے زیادہ کوئی اور عمل زیادہ اجر و ثواب والا نہیں۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں کسی خرچ کی فضیلت اس خرچ سے ہرگز زیادہ نہیں جوعید قربان والے دن قربانی پر کیا جا ئے۔(سنن الدارقطنی،با ب الصید والذبائح، الرقم: 4815) 2۔ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عید الاضحی کے دن کوئی نیک عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک قربانی کا خون بہانے سے محبوب اور پسندیدہ نہیں اور قیامت کے دن قربانی کا جانور اپنے بالوں، سینگوں اور کھروں سمیت آئے گا اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے ہاں شرفِ قبولیت حاصل کر لیتا ہے لہٰذا تم خوش دلی سے قربانی کیا کرو۔(جا مع الترمذی با ب ما جاء فی فضل الاضحیہ،الرقم: 1413) حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ رضی اللہ عنہم نے سوال کیا کہ یارسول اللہ!یہ قربانی کیا ہے؟ (یعنی قربانی کی حیثیت کیا ہے؟) آپﷺ نے فرمایا: تمہارے(روحانی)باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت (طریقہ) ہے صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ ہمیں قربانی کے کرنے سے کیا ملے گا؟ فرمایا ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے (پھر سوال کیا) یارسول اللہ!اون (کے بدلے کیا ملے گا) فرمایا کہ اون کے ہر بال کے بدلے میں نیکی ملے گی۔ (سنن ابن ماجہ، باب ثواب الاضحیہ، الرقم:3127) فائدہ، جس شخص نے قربانی کرنی ہو اسے چاہیے کہ ذوالحج کا چاند نظر آنے سے قربانی کرنے تک ناخن اور بال وغیرہ نہ کاٹے۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب ذو الحج کا پہلا عشرہ شروع ہوجائے (یعنی ذو الحج کا چاند نظر آجائے) اور تم میں سے کسی کا ارادہ ہو قربانی کا تو اس کو چاہیے (قربانی کرنے تک) اپنے بال اور ناخن نہ تراشے۔ (صحیح مسلم، باب اذا دخلت العشر واراد احدکم ان یضحی، الرقم: 5233) اللہ کریم ہمیں ان مبارک ایام کی قدر توفیق نصیب فرمائے۔ آمین۔