دو نمبر کی معیشت

July 04, 2022

تحریر:ضیاالاسلام زبیری۔۔کراچی
دل پر پتھر رکھ کر پیٹرول پمپ کا رخ کیا، اب وہ پرانی والی عیاشی تو نہیں کہ جیب میں ایک دو ہزار بھی ہوتے تھے تو اطمینان اور اعتماد کے ساتھ کسی بھی پیٹرول پمپ کا رخ کرتے تھے۔ اب تو کم از کم کوئی معتبر کریڈٹ یا ڈیبیٹ کارڈ ہو تو ہی گاڑیوں کی پیٹرول ٹنکی کی پیاس بجھائی جا سکتی ہے۔ میں سمجھ رہا تھا کہ پیٹرول پمپ پر ویرانی کا سماع ہوگا۔ پیٹرول ڈالنے والے ملازمین خوش گپیوں میں مصروف ہونگے اورہو سکتا ہے کہ کچھ منچلے یا تو گانے سن رہے ہوں یا زمین پر چادر پھیلا کرشطرنج کی چالوں میں مصروف ہوں۔ حیرت کی بات ہے کہ حالات اس کے بالکل الٹ تھے۔ پمپ پر گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کا ہجوم تھا اورتل دھرنے کو جگہ نہیں تھی۔ میرے آگے دو ڈبل کیبن گاڑیاں تھیں جنہوں نے ٹنکی فل کرائی اور اسی طرح موٹر سائیکل سوار اپنی اپنی سواریوں میں پیٹرول بھرنے کے لئے بے چین نظر آئے۔ مجھے ڈر ہوا کہ شاید کیوںکہ رات کے بارہ بجنے والے ہیں اور ان حضرات کو کچھ بھنک پڑ گئی ہے کہ ہمارے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل پھر کوئی پریس کانفرنس کرنے والے ہیں تو یہ حفظ ماتقدم کے طور پر پہلے سے پیٹرول حاصل کر رہے ہیں۔ پمپ والے سے پوچھا تو اس نے کہا ایسی کوئی بات نہیں یہ تو روزمرہ کا معمول ہے جو کسی بھی اعلان سے کبھی متاثر نہیں ہوتا۔ پیٹرول پمپ سے واپسی پر ساحل سمندر کے پاس سے گزرا۔ یہ مولانا ستار ایدھی روڈ ہے جو سمندر کے ساتھ ساتھ چلتی ہے رات کو بھی اس پر گہما گہمی کچھ کم نہ تھی اور گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں کی قطاریںلگی ہوئی تھیں۔ کچھ منچلے گاڑیاں کھڑی کرکےسمندر کے پاس جا چکے تھے اور دورسے سایوں کی طرح نظر آرہے تھے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ خلاف توقع ساحل سمندر پر وہی بھیڑ بھاڑ اور گہما گہمی تھی جو ہمیشہ سے معمول رہی ہے۔ یہ خواتین اور حضرات یہاں کسی نوکری کی مجبوری یا کسی کے دبائو میں نہیں آئے تھے بلکہ معمول کےمطابق سمندر کی ٹھنڈی ہوائوں کا لطف اٹھانے اور اہل خانہ کے ساتھ گویا ایک پکنک منانے آئے ہوئے تھے۔ یہ پورے شہر سےیہاں پہنچے تھے کوئی گلستان جوہر سے کوئی لیاری سے اور کوئی بنارس چوک سے۔ ظاہر ہے ان دوردراز علاقوں سے آنے پر پیٹرول تو خرچ ہوا ہوگا مگر لگتا ہےکہ کراچی کے عوام اور ہو سکتا ہے باقی ملک کے عوام بھی ان تجزیہ نگاروں سے زیادہ بے پروا نہیں جو روز گھنٹوں ہمیں اور آپ کو آنے والی قیامت کی نوید سناتے ہیں اور ایسا منظر نامہ پیش کرتے ہیں جیسے قیامت بس چند کوس دور رہ گئی ہے۔ اس لاپرواہی اور کہہ سکتے ہیں لاتعلقی کی اور کچھ بھی وجوہات ہوں مگر ایک بات جس نے مجھے ہمیشہ ایسےلمحات میں حوصلہ دیا ہے وہ ہے ہماری پوشیدہ معیشت جسے دو نمبر کی معیشت بھی کہا جاتا ہے۔ مجھے حیرت بھی ہوتی ہے اور تکلیف بھی جب ہر آنے والا وزیر خزانہ یا ایف بی آر کا سربراہ دوسری یا ڈھکی چھپی معیشت کا سرقلم کرنے کو اپنی منصوبہ بندی کا بنیادی جز بتاتا ہے اور وہ اس کے گماشتے دن رات اسی فکر میں لگے رہتے ہیں کہ اس دوسری اور ڈھکی چھپی معیشت کا تیاپانچہ کریں۔ میرے خیال میں تو پاکستان جو اتنے لمبے عرصے اور ہمارے پیارے سیاست دانوں کے تمام کھیل کود کے باوجود خدا کے فضل سے قائم و دائم ہے اس میں بہت بڑا ہاتھ اس چھپی یا دوسرے نمبر کی معیشت کا ہے کہنے کو تو ہم دیوالیہ ہونے والے ہیں (خدا نہ کرے) اور زیادہ جذباتی سیاست دان یہ بھی کہہ گزرتے ہیں کہ ہم سری لنکاہونے جا رہےہیں مگر اس قسم کے حالات کہیں نظر نہیں آرہے۔ ابھی بقرعید سر پر ہے جب اور قریب آئے گی تو تماشا دیکھئے گا۔ متوسط طبقہ کے علاقوں میں ایک سے ایک لحیم شہیم بیل گائے اور اونٹ قربانی کے لئے خریدا جائے گا اور اب تو ایک بکرے سے کسی کا دل نہیں بھرتا تو زیادہ تر حضرات دو اور تین بکرے بھی کریں گے۔ یہ سب ان کروڑوں کی مالیت کے جانوروں کے علاوہ ہے جو شہر کی مشہور ہستیاں ملکی اور غیر ملکی ذرائع سے حاصل کریں گی اور عید کے ایک ہفتے پہلے سے ان کے گھروں پر ان کی نمائش شروع ہو جائےگی جو قربانی کے دن تک جاری رہے گی۔ ایک ایک جانور دو دو اور تین تین کیراٹ کے ہیروں کی طرح قیمتی ہوتا ہے اور کچھ تو اس قدرعجوبہ ہوتے ہیںکہ ان کی قیمت کا تعین کرنا بھی مشکل ہے۔ ایک اندازہ لگانے کے لئے پچھلے سال پاکستان میں جب کے کورونا کے اثرات بھی باقی تھے پورے ملک میں ساڑھے چارکھرب کے جانوروں کی قربانی کی گئی۔ ہم غور نہیں کرتے مگراسلام میں ہر چیز کے پیچھے انسان کی فلاح و بہبود کا کوئی گوشہ پوشیدہ ہے اور یہی قربانی کے عمل میں بھی ہے۔ قربانی ایک ایسے تجارتی ماحول اور عمل کو شروع کر دیتی ہے جس سے ملکی معیشت پر اگرجمود بھی طاری ہو تو وہ چل پڑتا ہے اور پورے نظام کا ایک طریقے سے اوورہال ہو جاتا ہے۔ ہم ایف اے ٹی ایف کے پیچھے پڑے ہیں یا پھر آئی ایم ایف کے پائوں پکڑ رہے ہیں مگر ہمارے مذہب نے ہمیں جو حل عطا کئے ہیں ان پر غور نہیں کرتے۔ اب یہ پچھلے سال کی قربانی کے اعدادوشمار ہی دیکھئے۔ جانوروںکی قیمت تو ایک طرف جس میں بھی پورے ملک میں ایسی معاشی سرگرمی شروع ہوگئی جس کا ہر سطح پر اثر ہوا۔ پچھلے سال پورے ملک میں 40لاکھ بکرے اور تیس لاکھ گائیں قربان کی گئیں۔ صرف ان کے کھانے پینے کی اشیاء کی قیمت دو ارب تھی جو اوپر سے لے کر نیچے تک تقسیم ہوا پھر اب یہ بھی معمول ہو گیا ہےکہ بچے قربانی کے جانوروں کی سجاوٹ کی ضد کرتے ہیں تو اس پر بھی ایک کثیر رقم خرچ کی گئی۔ قربانی کے لئے پیشہ ور قصائیوں نے 25ارب کمائے اور کھالوں کی مد میں ساڑھے سات ارب کمائے گئے۔ یہ کھالوں کے اثرات تو بہت دور تک جاتے ہیں اور اب پاکستان میں اندرونی طور پر ان کھالوں کو مختلف مراحل سے گزارنے کے بعد چمڑہ اور پھر اس سے چمڑے کی جیکٹ اور دوسری مصنوعات تیار کی جاتی ہیں اور پوری دنیا میں بھیجی جاتی ہیں اور قیمتی زرمبادلہ کماتی ہیں۔ اس بات سے بھی کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ اس پورے عمل کے دوران کوئی کسی چیز کو چاہے وہ قربانی کا جانور ہو یا اسےکھلانے والی گھاس نقصان میں نہیں بیچ رہا توسب کو منافع ہو رہا ہے اور اس کام سے منسلک افراد کو تو کم سے کم موجودہ حالات میں کمائی کا ایک ذریعہ مہیا ہے اور ان کےذریعہ جب یہ پیسہ واپس گردش میں آئے گا تو حالات پر اس کے مثبت اثرات مرتب ہونگے۔ جہاں تک ڈالر کا تعلق ہے ہمیں اس بات کی فکر کھائے جا رہی ہے کہ ملک میں ڈالر ختم ہونے والے ہیں اور تو اور پیٹرول اور دوسری ضرورت کی چیزیں بھی ہم خرید نہیں سکیں گے۔ ہو سکتاہے کہ اسٹیٹ بینک کے پاس ڈالر نہ ہوں مگر اس ملک کے کچھ طبقوں کے پاس اس کی کوئی کمی نہیں۔ یہ جو کابل سامان لے جا رہے ہیں کیا ان ٹرک ڈرائیوروںکو پاکستانی روپے میں قیمت ادا کی جاتی ہے، روزانہ ہزاروں ٹرک سرحد پار کرتے ہیں اور لاکھوں ڈالر کماتے ہیں۔ یہ دوسری بات ہے کہ اس کا ریکارڈ کسی کے پاس نہیں مگر ملک میں یہ پیسہ تو بہرحال آرہا ہے ملک میں ڈالر اور دوسری غیر قانونی کرنسی کا ایک اور ذریعہ پراپرٹی کا کاروبار ہے۔ کوئی آئے اور کوئی جائے یہ کاروبار کبھی بند نہیں ہوتا اور اس میں ایک کثیر تعداد ایسے سرمایہ کاروں کی ہے جو غیر ممالک میں اور خاص طور پر امریکہ اور کینیڈا سے تعلق رکھتے ہیں۔ جب سے مارکیٹ میں گوادر میں سرمایہ کاری کا رجحان آیا ہے، اس میں بھی غیر ملکی سرمایہ کاروں کی دلچسپی بڑھ گئی ہے اور اب امید کی جارہی ہے کہ جب اس سال کے آخر یا اگلے سال کے دوران گوادر کا نیا ائر پورٹ کھلے گا تو شاید ڈھونڈے سے زمین نہ ملے اس وقت بھی یہ صورت حال ہے کہ کانٹے کے مقامات اور کمرشل پلاٹ خریدنے والوں کو خواہش کے مطابق زمین نہیں مل رہی۔ جہاں ایک طرف ڈالر کی قیمت میں بے پناہ اضافہ خطرے کی گھنٹیاں بجا رہا ہے وہاں غیر ممالک میں مقیم پاکستانیوں کے لیے جو اس کاروبار میں سرمایہ کاری کرنے کے خواہشمند ہیں زندگی کا انمول موقع مہیا کررہا ہے۔ ویسے بھی پاکستان کی جو ڈی ای چ اے قسم کی رہائشی کالونیاں ہیں ان میں سرمایہ کاری غیر ممالک میں مقیم پاکستانیوں کی ایک کثیر تعداد نے کی ہوئی ہے۔ پاکستان نہ سری لنکا ہے، نہ کوئی اور پڑوسی ملک بلکہ اس کے اپنے ذرائع زرمبادلہ ہیں جس کی نظیر کسی اور ملک میں نہیں ملے گی۔ پریشان نہ ہوں پاکستان ہمیشہ دوسرے نمبر کی معیشت پر پھلتا پھولتا رہتا ہے اور اس میں کوئی کمی نہیں آئی۔ رہی ہماری سرکاری معیشت تو وہ سیاست دانوں کے کھیل کود کے لیے ہے، انہیں کھیلنے دیں اور دل خوش کرنے دیں۔