ضمنی انتخاب: پنجاب کی تقدیر کا فیصلہ کرے گا

July 14, 2022

عالمی سطح کے افق پر شدید ’’کساد بازاری‘‘ کے ماحول نے نہ صرف ترقی یافتہ ممالک کو اپنے حصار میں گرفتار کر رکھا ہے بلکہ ہمارے جیسے ترقی پذیر ملکوں میں بھی ’’بے بسی‘‘ کا سماں ہر طرف محسوس کیا جا رہا ہے۔ وطن عزیز میں ڈالر اور توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے علاوہ زرمبادلہ کے ذخائر میں تشویشناک حد تک کی کمی نے ہوشربا مہنگائی کا طوفان کھڑا کر دیا ہے کہ بے چارے عوام کے لئے سانس لینا دشوار ہو گیا ہے۔

آئی ایم ایف کے بے جا مطالبات اور شرائط نے ڈوبتی ہوئی معیشت کو مزید عذاب سے دو چار کر رکھا ہے۔ معاشی ماہرین بھی اس سنگین ترین معاشی بدحالی کی صورت حال میں گرداب میں مبتلا دکھائی دے رہے ہیں۔ حکومتی اقدامات کے ذریعے ’’کفایت شعاری‘‘ کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کی راہ میں بھی ’’سرخ فیتے‘‘ کی رکاوٹوں کو شدت سے محسوس کیا جا رہا ہے۔

پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے بار بار کے اضافے نے وفاقی وزیر خزانہ کے ماضی کے دعوؤں کو راکھ کا ڈھیر بنا دیا ہے اور عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ ہونے والی ان کی اب تک کی ملاقاتوں کو ان کی اپنی معاشی ٹیم کے کئی ارکان تنقید کی نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں۔ وفاقی دارالحکومت کے سیاسی اور سرکاری حلقوں میں یہ خبریں گردش کر رہی ہیں کہ وزیراعظم میاں شہباز شریف دگرگوں اقتصادی صورتحال کے مشکل ترین مرحلے کو حل کرنے کے لئے سابق تجربہ کار بیورو کریٹوں سے نہ صرف مسلسل ملاقاتیں کر رہے ہیں بلکہ ان سے تجاویز لے کر ان پر عملدرآمد کے سلسلہ میں اپنی معاشی ٹیم کے حوالے کر رہے ہیں۔

حکومتی حلقوں میں یہ بات زبانِ زد عام ہے کہ وزیر اعظم اس ’’تذبذب‘‘ میں مسلسل مبتلا دکھائی دیتے ہیں کہ عوام کو مہنگائی کی وجہ سے کس اذیت سے گزرنا پڑ رہا ہے۔ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں کمی آنے سے وزیراعظم عوام کو بھرپور ریلیف دینے جارہے ہیں۔ پارٹی کی سطح پر بھی یہ صدائیں بلند ہو رہی ہیں کہ عوام کی بے چینی کو دور کرنے سے ہی ’’مقبولیت‘‘ کے مقام کو حاصل کرنے کا مرحلہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ لندن میں مقیم پارٹی کے قائد میاں نواز شریف نے بھی وزیراعظم اورپارٹی کی معاشی ٹیم کو واضح ہدایات دے دی ہیں کہ پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتوں میں کمی کی طرف فوری توجہ دیں تاکہ عوام کے اندر پائے جانے والے اضطراب اور دشواریوں کے عذاب سے ان کو نجات مل سکے۔

سیاسی حلقوں میں سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی واپسی کے امکانات کے بارے میں بھی سرگوشیاں سننے میں آ رہی ہیں۔ پارٹی کے بعض رہنماؤں کا کہنا ہے کہ قومی معیشت کی اس کربناک صورتحال سے نکلنے کے لئے ان کے تجربے سے استفادہ حاصل کرنے کے لئے ان کی واپسی اشد ضروری ہے۔ اندر کی خبر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ اعلیٰ قیادت کو بھی ان کی واپسی کے لئے راضی کرلیا گیا ہے۔ وزیراعظم میاں شہباز شریف گو مشکل ترین صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لئے ہمہ وقت اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا نے کی کوششوں میں مصروف دکھائی دیتے ہیں لیکن یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ وہ قدم قدم پر حکومتی اتحادیوں کو بھی اعتماد میں لینے کو ترجیح دیتے ہیں۔

سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ وزیراعظم میاں شہباز شریف کی شخصیت میں ایک ’’ٹھہرائو کا پہلو‘‘ بھی اتحادی حکومت چلانے کے معاملہ میں نکھر کر سامنے آیا ہے جو کہ اس سے قبل ان کے بارے میں کبھی بھی دکھائی نہیں دیا تھا۔ پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے ادوار میں ان کاطرز عمل کچھ اور زاویے کی عکاسی کرتا رہا ہے۔ صوبائی دارالحکومت کے سیاسی اور سرکاری حلقوں میں صوبے کے اندر ہونے والے بیس نشستوں کے ضمنی انتخابات نے کافی ہلچل مچا رکھی ہے۔ متذکرہ نشستوں کے نتائج پر پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا دارو مدار محسوس کیا جا رہا ہے۔

انتخابی مہم کے دوران مسلم لیگ (ن) کی طرف سے مریم نواز قیادت کا پرچم اٹھائے ہوئے ہیں جبکہ تحریک انصاف کی طرف سے سابق وزیراعظم عمران خان اس محاذ کوسنبھالے ہوئے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی طرف سے لاہور کی چار نشستوں پر انتخابی مہم کو زوردار بنانے کے لئے دو وزراء کو بھی استعفے دلا کر میدان میں اتارا گیا ہے۔ تاکہ الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق کے معیار پر حکومت کے عہدوں سے ہٹ کر اپنے پارٹی امیدواروں کی حمایت میں انتخابی مہم کو چلایا جا سکیں۔

دوسری طرف وزیر اعلیٰ پنجاب میاں حمزہ شہباز شریف کی طرف سے غریب عوام کے لئے سو یونٹ تک مفت بجلی فراہم کرنے کے اقدام کو الیکشن کمیشن نے معطل کردیا ہے جبکہ تحریک انصاف نے عدالتی حکم امتناعی کے ذریعے بھی اس عوامی فلاحی منصوبے کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کر دی ہے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کو اسمبلی میں ابھی تک عددی اکثریت حاصل ہے لیکن پانچ مخصوص نشستوں پر جاری ہونے والے نوٹیفیکیشن نے اپوزیشن کو ’’خاصی کمک‘‘ فراہم کردی ہے۔ا سپیکر چودھری پرویز الٰہی نے اس معاملے میں اتنی تیزی دکھائی کہ اگلے ہی روز ان نشستوں پر حلف اٹھانے کے مرحلے کا بھی کام دکھا دیا۔

تحریک انصاف کے چیئرمین کپتان اوراسپیکر پنجاب اسمبلی مسلسل ضمنی انتخابات سے قبل ہی حکومت پر دھاندلی کے الزامات لگا رہے ہیں اور منحرف پارٹی رہنمائوں کو جلسوں میں کپتان آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں۔ ضمنی انتخابات کی اجتماعی صورتحال پر سیاسی نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ صوبے میں کئی نشستوں پر ’’کانٹے دار مقابلے‘‘ ہونے کی توقع ہے۔

گزشتہ عام انتخابات میں آزاد امیدوار کے طور پر جیتنے والے اس دفعہ بھی آگے دکھائی دے رہے ہیں اور ان کا فائدہ حکمران جماعت کو ہوگا کیونکہ یہ اب ان کی طرف سے امیدوار ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کو بعض حلقوں میں یہ دشواری ہے کہ ان کی پارٹی کے ٹکٹ ہولڈرز کے مقابلے میں ان کی پارٹی کے لوگ بھی امیدوار بنے ہوئے ہیں۔

سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ کپتان اور اسپیکر پنجاب اسمبلی کی طرف سے تسلسل سے دھاندلی کے الزامات لگانے کا معاملہ واضح ہے کہ حکومت کی جیت کو تسلیم کرنے سے وہ نتائج کے آنے کے بعد بھی گریز کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں مسلم لیگ (ن) نے جنوبی پنجاب میں انتخابی مہم کو زوردار انداز میں چلانے کے لئے ایک اور صوبائی وزیر اویس لغاری سے بھی استعفیٰ دلا دیا ہے۔

اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) ضمنی انتخابات میں واضح اکثریت کے لئے ٹھوس اور سنجیدہ اقدامات اٹھا رہی ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ نے حکومت کی طرف سے یقین دلایا ہے کہ ضمنی انتخابات میں گزشتہ دور میں ہونے والے ڈسکہ کے ضمنی انتخاب کی طرح نہ کوئی انتظامیہ حرکت کرے گی اور نہ ’’دھند‘‘ میں کوئی سرکاری اہلکار غائب ہوگا۔