عثمان ذُوالنورین رضی اللہ عنہ

July 18, 2022

پروفیسر خالد اقبال جیلانی

رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام ؓ وہ نفوس قدسیہ ہیں، جنہیں اللہ نے دنیا کے سب سے افضل و اشرف انسان خاتم النبیین ﷺ کی صحبت و معیت کے لئے ازل ہی سے منتخب کر لیا تھا اور مشیت الہٰی یہ قرار پائی کہ یہ اصحاب، رسول اللہ ﷺ سے براہِ راست اکتساب ِ فیض کریں۔ رسول اکرم ﷺ ان نفوس قدسیہ کا روحانی تزکیہ فرمانے کے ساتھ انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم سے مزین و آراستہ فرمائیں۔ صحابۂ کرامؓ کے رسول اللہ ﷺ سے بے مثل و بے نظیر عشق و محبت میں تو کوئی کلام ہی نہیں، لیکن دوسری طرف رسول اللہ ﷺ نے اپنے ان جاں نثار صحابہ کرامؓ کی جو فضیلت و عظمت بیان فرمائی، اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے، رسول اللہ ﷺ کو جماعت صحابہ ؓ سے کس قدر محبت تھی اور آپ کے نزدیک شمع رسالت کے ان پروانوں کی کیا قدر و منزلت تھی۔ صحابہ کرام ؓوہ غریب کمزور مظلوم طبقے کے جاں نثار اور شمع رسالت کے پروانے تھے ،جنہوں نے آپ ﷺ کی دعوتِ توحید و رسالت کو قبول کر کے آپ ﷺ پر ایمان لائے اور آپ ﷺ کے مدد گاروں کی جماعت میں شامل ہو گئے۔

رسول اکرم ﷺ کے ایسے ہی جاں نثاروں میں سے ایک عظیم اور جلیل القدر و فادار عاشق ِ رسول خلیفۃ الرسول صحابیِ مکرم و محترم حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی ذات والا صفات بھی ہے۔ آپ رسول اللہ ﷺ کی دعوت توحید قبول کرنے والے چوتھے مسلمان تھے۔ اسی لئے آپ کا شمار ’’سابقون الالون‘‘ صحابہ کرامؓ میں کیا جاتا ہے۔ کسی مومن کے لئے اس دنیا میں اس سے بڑی سعادت کی بات ہو ہی نہیں سکتی کہ نبی اکرمﷺ کی دو صاحبزادیاں اس کے نکاح میں آئیں۔

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ امت کے وہ واحد شخص ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی دو صاحبزادیاں حضرت امّ کلثومؓ اور حضرت رقیہؓ یکے بعد دیگر آپ کے نکاح میں آئیں اور آپ کا لقب مبارک’’ ذوالنورین‘‘ یعنی ’’دونور والا‘‘ کی وجہ تسمیہ یہی ہے۔ آپ کے فضائل کریمہ اور محامد و محاسن کے لئے یہی کافی ہے کہ صاحبِ خلق عظیم ﷺ نے ارشاد فرمایا’’ بے شک ،عثمانؓ میرے صحابہ میں اخلاق کے اعتبار سے مجھ سے بہت قربت اور مشابہت رکھتے ہیں۔ ‘‘ آپ با اعتبار ایمان اور صفتِ حیا کی بناء پر ’’کامل الایمان و لا حیاء‘‘ کے لقب سے ہر جمعہ منبر رسول سے مقلب کئے جاتے ہیں اور قیامت تک منبر رسول تک آپ کو اسی لقب سے یاد کیا جاتا رہے گا۔

اسی لئے اللہ کے رسول ﷺ نے حضرت عثمان غنیؓ کی صفت حیاء کے حوالے سے آپ کی شان میں فرمایا ’’ میں اس شخص سے کیوں نہ حیاء کروں کہ جس سے فرشتے بھی حیاء کرتے ہیں۔ ‘‘ حضرت عثمان غنی ؓ اپنی صفت حیاء کی بناء پر پوری امت میں منفرد و ممتاز ہیں۔ حضرت عثمان غنی ؓ کا ایک اور شرف اور اعزاز یہ ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے صلح حدیبیہ اور بیعت رضوان کے موقع پر عطا کیا، جب حضرت عثمان غنیؓ مکہ میں اپنی جان کا خطرہ مول لے کر رسول اللہ ﷺ کی سفارت کاری کرنے گئے اور ادھر اسلامی لشکر میں مسلمانوں کے درمیان آپ کی شہادت کی افواہ پھیل گئی تو رسول اللہ ﷺ نے چودہ سو صحابہؓ کو جمع کر کے آپ ؓ کے قصاص پر بیعت لی اور بیعت کے دوران آپ ﷺ نے اپنے بائیں دستِ مبارک کو سیدنا عثمان ؓکا دستِ مبارک قرار دیتے ہوئے ان کی بیعت لی۔ اسی بیعت رضوان کے بارے میں سورۃ الفتح کی آیت18نازل ہوئی جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’یقیناً اللہ ان مومنین سے راضی ہو گیا، جنہوں نے درخت کے نیچے آپ کے ہاتھ پر بیعت لی ‘‘۔

رسول اللہ ﷺ سے حضرت عثمان غنی ؓ کی قربت اور رفاقت کا اندازہ اس فرمانِ نبویؐ سے لگائیے کہ آپ ﷺ نے فرمایا ’’ ہر نبی کا ایک رفیق ہوتا ہے اور جنت میں میرے رفیق عثمان غنیؓ ہوں گے۔ ‘‘ فرمایا نبی ﷺ نے کہ ’’اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے۔ بے شک، جب عثمان ؓجنت میں داخل ہوں گے تو پوری جنت ان (کے چہرے کے نور ) کی وجہ سے چمک اٹھے گی۔ (الحاکم، المستدرک)

حضرت عثمان ؓ کا ایک اور منفرد لقب ’’غنی‘‘ بھی تھا۔ اللہ نے آپ کو بے پناہ اور بے شمار مال و دولت سے نوازا تھا۔ آپ نے اسلام قبول کرنے کے بعد اپنی ساری دولت، مال مویشی ، زمین جائیداد سب کچھ اسلام کی بقا ،قوت و طاقت کے لئے رسول اللہ ﷺ کے قدموں میں نچھاور کر دیا۔ آپ اپنا مال پوری زندگی مسلمانوں اور اسلام کی ضروریات کو کرنے کے لئے خرچ کرتے رہے ، لیکن غزوۂ تبوک کے موقع پر آپ کا انفاق قابلِ رشک تھا۔

غزوۂ تبوک کے لئے رسول اللہ ﷺ کی طلب کرنے پر حضرت عثمان غنی ؓ نے 900اونٹ، 100گھوڑے، 200اوقیہ چاندی اور ایک ہزار دینار بارگاہ رسالت ﷺ میں پیش کئے۔ اس نذرانے پر رسول اللہ ﷺ بے انتہا خوش ہوئے اور فرط انبساط سے اُن دیناروں کو اپنے دستِ مبارک سے اچھالتے جاتے اور فرماتے جاتے کہ ’’آج کے بعد عثمان غنی ؓ کچھ بھی کریں، انہیں اس سے کچھ نقصان نہیں ہوگا۔ ‘‘

اسلام کے مشکل ترین دور اور مسلمانوں کی بد حالی کے زمانے میں حضرت عثمان غنیؓ نے اسلام کی تقویت، سر بلندی و غلبہ اور مسلمانوں کی روزمرہ کی ضروریات کو پورا کرنے میں اپنا مال بے دریغ خرچ کیا۔ خصوصاً ٹھنڈے میٹھے پانی کے کنویں وقف کئے، غزوات میں اسلحہ سواریاں اور اسلامی لشکروں اور سپاہیوں کی خوراک کا بندوبست ، زمین خرید کر مسجد نبوی کی توسیع کرنا آپ کے نمایاں کارنامے اور امتیازی خدمات ہیں۔

حضرت عثمان غنی ؓکے سیرت و کارناموں کے مذکورہ واقعات بےشک اسلامی تاریخ کا درخشندہ باب ہیں، لیکن آپ کے مجاہدانہ کارناموں کو اجاگر کرنا بھی ضروری ہے، تاکہ امت مسلمہ ان سے آگاہ ہو کر ترقی و کامیابی کی راہ پرگامزن ہو سکے۔ حضرت عثمان غنی ؓ نے اپنے دورِ خلافت میں فتوحات کے ذریعے اسلامی مملکت کی حدود کو بے پناہ وسعتیں دیں۔ ایک طرف تو اس کے ڈانڈے وسط ایشا سے جا ملے اور دوسری طرف بحیرۂ روم کے پار، تمام شمالی افریقہ کو زیرِنگیں لے آئے۔

یہ شاندار فتوحات اُن کی اُس دور رس پالیسی اور اقدام کے سامنے دھندلا کے رہ جاتی ہیں جو انہوں نے تاریخ اسلام میں پہلی بار بحری بیڑے کی بنیاد رکھ کر ملت ِ اسلامیہ کو آنے والی صدیوں تک کے لئے سمندروں پر غلبہ اور تسلط دلا دیا۔ جس کے ذریعے نہ صرف اشاعتِ اسلامی کے عمل میں تیزی آئی، بلکہ دنیا کی اقتصادی ترقی کی راہیں بھی کشادہ ہو گئیں۔ انہی کی اس بنیادی حکمت عملی نے روئے زمین کے دور افتادہ علاقوں میں نور اسلام کی روشنی پہنچانے کا انتظام کیا۔ اسلامی بحری بیڑے کا قیام ہی وہ بنیادی کوشش تھی جو آگے چل کر مسلمانوں کی ہر قسم کی بحری سر گرمیوں کو عروج پر پہنچانے کا باعث بنی۔

حضرت عثمان غنی ؓ کی تعمیری سرگرمیاں صرف بحری بیڑے اور جنگی فتوحات اور ریاستِ مدینہ کی سرحدوں کی وسعت تک ہی محدود نہیں تھیں، بلکہ آپ نے مسجد نبوی کو توسیع و تعمیر کے ذریعے ملتِ اسلامیہ کی شیرازہ بندی کے لئے ایک ایسا عظیم الشان مرکز بنا دیا جو دنیا کے دیگر مذاہب کے معابد اور کلیساؤں کو حاصل نہیں ہو سکا۔

آج عالم اسلام کو اگر صحیح معنوں میں غلبہ اور عزت کے ساتھ زندہ رہنا اور ترقی کرنا ہے تو ہمیں اپنی بری، بحری اور فضائی قوت میں وہی عثمانی مجاہدانہ روح پیدا کرنا ہو گی جس کی بنیاد حضرت عثمان غنیؓ نے اب سے ڈیڑھ ہزار سال پہلے رکھی تھی ۔ ہمیں اپنی مساجد کو بھی وہی صحیح اسلامی مقام دینا ہو گا جس کے ذریعہ وہ ہماری ملّی تحریکوں اور سماجی، سیاسی اور عدالتی مسائل کے حل کا مرکز بن سکیں۔

حضرت عثمان غنی ؓ کی شہادت مسلمانوں کے درمیان اسلام دشمن طاقتوں اور مسلم دشمن قوتوں کے پیدا کردہ باہمی اختلافات، منافقانہ طرز عمل، اور اندرونی، سازشوں کا ایک ایسا اندوہناک سانحہ تھا کہ جس کے بعد امت آج تک دوبارہ متحد اور ایک فکری پلیٹ فارم پرجمع نہیں ہو سکی۔