پختونخوا مستقل گورنز کے بغیر معاملات چلانے پر مجبور

July 21, 2022

مرکز میں اتحادی حکومت کے قیام کے باوجود بعض معاملات پر غیر یقینی کی صورت حال اب بھی برقرار ہے، حیرت تو اس بات پر ہے کہ تقریبا تمام اہم جماعتیں برسر اقتدار ہیں مگر اس کے باوجود ملک کے دو صوبے مستقل گورنرز کے بغیر چل رہے ہیں جہاں تک صوبہ خیبر پختونخوا کا تعلق ہے تو سابق وزیر اعظم کیخلاف عدم اعتماد کے فوراً بعد ہی یہاں کے گورنر شاہ فرمان نے اپنے پارٹی قائد کیساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر استعفیٰ دے دیا تھا۔

ان کا موقف تھا کہ وہ بحیثیت گورنر وزیر اعظم شہباز شریف کو پروٹوکول نہیں دے سکتے تاہم اب یہ کہا جارہا ہے کہ شاہ فرمان نے اپنی وفاداری ثابت کرنے کیلئے کچھ زیادہ ہی جلد بازی کا مظاہرہ کیا کیونکہ انتہائی نامساعد حالات میں جس طرح سابق گورنر پنجاب عمر چیمہ نے مرکزی حکومت کو ٹف ٹائم دئیے رکھا تو شاہ فرمان بھی اسی طرح کرسکتے تھے لیکن چونکہ بلدیاتی الیکشن میں پشاور میں پارٹی کی بدترین شکست کی تمام تر ذمہ داری شاہ فرمان پر عائد کی جارہی تھی جنہوں نے ٹکٹوں کی تقسیم کے معاملہ میں آخری حد تک مداخلت جاری رکھی تھی اور اس پر پارٹی کی قیادت سخت نالاں بھی تھی شاید اپنے آپ کو پاک صاف کرنے کیلئے انہوں نے وقت سے قبل ہی استعفیٰ دے دیا۔

یوں اس وقت سوا تین ماہ بعد بھی خیبر پختونخوا مستقل گورنر کے بغیر معاملات چلانے پر مجبور ہے، خیبر پختونخوا اسمبلی کے اسپیکر مشتاق احمد غنی اگرچہ قائم قام گورنر کے طور پر فرائض سرانجام دے رہے ہیں لیکن ظاہر ہے بہت سے آئینی معاملات میں مستقل گورنر کے کردار کی اہمیت ہوا کرتی ہے اس لئے بہت سے آئینی معاملات میں مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے، مستقل گورنر کی غیر موجودگی کی بڑی وجہ اتحادی جماعتوں کے مابین اس منصب کے حصول کی کشمکش ہے۔

عوامی نیشنل پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام کے درمیان جاری کشمکش تو سب کو دکھائی دے رہی ہے تاہم یہ بھی کہا جارہا ہے کہ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے بعض حلقے بھی اس منصب کو اپنا حق قرار دے رہے ہیں، جہاں تک اے این پی کا تعلق ہے تو وہ بار بار یہ تاثر دے رہی ہے کہ وہ حکومت میں شمولیت کی خواہش مند ہے اور نہ ہی صوبہ کی گورنر شپ چاہتی ہے لیکن بعض ذرائع کا یہ دعویٰ ہے کہ گورنر شپ کے معاملہ پر پارٹی میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے میاں افتخار حسین اور حاجی غلام احمد بلور کے نام گورنر کے عہدہ کے لئے سامنے آئے تھے اور شاید دونوں پر ہی پارٹی میں اتفاق نہ ہوسکا، ویسے بھی اے این پی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان ان دنوں جس طرح سولو فلائٹ کا مظاہرہ کرنے میں مصروف ہیں۔

اس پر بھی پارٹی کے سنجیدہ فکر حلقے تشویش کا اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں گزشتہ دنوں ہونے والی چند اہم ترین ملاقاتوں میں کوئی مرکزی عہدیدار موجود نہیں تھا، اے این پی اپنے تمام تر دعوؤں کے باوجود بلدیاتی انتخابات میں شکست سے دوچار ہوچکی ہے اور محض چھ یاسات تحصیل چیئرمین ہی کامیاب کراسکی ہے اسی طرح سوات ضمنی انتخابات میں بھی پارٹی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا، سوات ضمنی الیکشن کے حوالے سے بھی پارٹی کی صوبائی قیادت نے انتہائی غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پارٹی امیدوار کو عملاً تنہا ہی چھوڑ دیا تھا نہ تو پارٹی کی مرکزی اور صوبائی قیادت اپنے امیدوار کے لئے جلسے کرسکی اور نہ ہی اتحادی جماعتوں کو اپنے امیدوار کی حمایت کے لئے متحرک کرانے میں کامیاب ہوسکی چنانچہ اگر پارٹی کے اندر اختلافات کا یہی حال رہا تو اگلے عام انتخابات میں اے این پی کی کارکردگی مزید متاثر ہوسکتی ہے دوسری جانب گزشتہ ساڑھے تین سال تک سیاسی محاذ پر سرگرمیاں دکھانے والی جمعیت علمائے اسلام اور اس کی صوبائی و مرکزی قیادت حکومت کا حصہ بننے کے بعد سے منظر عام سے غائب ہوچکی ہے سب نے اسلام آباد مں ڈھیرے ڈالے ہوئے ہیں تاکہ حکومتی ثمرات سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہوا جاسکے۔

تقریباً تمام مرکزی و صوبائی قیادت فریضہ حج کی ادائیگی کیلئے بھی پہنچی ہوئی تھی جسکا کریڈٹ بعض لوگ وفاقی وزیر مذہبی امور مفتی عبدالشکور کو دیتے ہیں، جے یو آئی مرکز ی حکومت میں ٹھیک ٹاک حصہ وصول کرنے کے بعد اب صوبہ کی گورنری کیلئے بھی سرگرم ہوچکی ہے حالانکہ قبل ازیں جے یو آئی یہ منصب اے این پی کو دینے پر آمادگی ظاہر کرچکی تھی لیکن اس کے بعد مولانا فضل الرحمان کے ایک بھائی کی طرف انگلیاں اٹھ رہی ہیں اور یہ کہا جارہا ہے کہ موصوف کسی قبائلی شخصیت کو گورنر بنانے کے خواہش مند ہیں، اسی مولانا کے ایک اور بھائی کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ سرکاری ملازمت سے استعفیٰ دے کر گورنر بنائے جارہے ہیں ہر دو صورتوں میں جے یو آئی کی طرف ضرور انگلیاں اٹھیں گی کیونکہ مولانا فضل الرحمان پہلے ہی اپنے بیٹے کو انتہائی قیمتی وزارت دلانے میں کامیاب ہوچکے ہیں۔

ان کا ایک بھائی سینیٹر ہے، دوسرا بھائی صوبائی اسمبلی کا رکن ہے جبکہ تیسرے بھائی کو ضلع میں ذمہ داری سونپی گئی ہے اب آخری بچے بھائی کو بھی سیاسی ثمرات سے مستفید کرانے کےلئے میدان میں اتارا جاتا ہے تو حال ہی میں پاکستان تحریک انصاف کیساتھ اتحاد کرنے والے جے یو آئی شیرانی گروپ کے الزامات کو تقویت ملے گی، ویسے بھی پی ٹی آئی کیساتھ اتحاد کے بعد شیرانی گروپ رفتہ رفتہ میدان میں مضبوط ہوتا دکھائی دے رہا ہے اگرچہ اس وقت جے یو آئی کے حامی شیرانی گروپ کا مذاق اڑا کر اسے ہلکا لے رہے ہیں تاہم پی ٹی آئی کیساتھ اتحاد کے بعد مستقبل میں یہی گروپ مولانا فضل الرحمان کےلئے مشکلات پیدا کرسکتا ہے، ادھر وفاق میں حکومت کی تبدیلی کیساتھ ہی خیبر پختونخوا کے اہم سکینڈولوں کے حوالے سے نیب ایک مرتبہ پھر سرگرم ہوگیا ہے۔