عفو و درگزر اور تحمل و برداشت ایمانِ کامل کی علامت

July 22, 2022

مولانا نعمان نعیم

’’غصہ‘‘ درحقیقت شدت جذبات کے اظہار کا نام ہے۔ یہ ایک غیر اختیاری امر ہے اور ہر انسان میں قدرتی طور پر موجود ہے۔ غصہ ہی اکثر دنگا فساد،دو بھائیوں میں افتراق، میاں بیوی میں طلاق آپس میں منافرت اور قتل و غارت گری کا موجب ہوتا ہے، جب کسی پر غصہ آئے اور مار دھاڑ اور توڑ پھوڑ کو جی چاہے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو اس طرح سمجھائے کہ مجھے دوسروں پر جو قدرت حاصل ہے، اس سے کہیں زیادہ اللہ عزوجل مجھ پر قادر ہے۔ اگر میں نے غصے میں کسی کی دل آزاری یا حق تلفی کر ڈالی تو قیامت کے روز اللہ عزوجل کے غضب سے میں کس طرح محفوظ رہ سکوں گا۔

غصہ اور اشتعال شیطانی اثر ہے، شیطان انسان کو مختلف تدابیرکے ذریعے ابھارنا چاہتا ہے، تاکہ وہ جذبات میں آکر کوئی ایسا کام کربیٹھے جو اس کے لیے دور رس نقصانات کا باعث بنے،اسی لیے قرآن نے ہمیشہ عفو و درگزر کی تعلیم دی ہے اور یہ پیغام دیا ہے کہ معاف کرنے والوں کے لیے آخرت میں بڑا اجر ہے۔ بدخواہ اور حاسدین دنیا میں جتنا چاہیں تمسخر اور مذاق اڑالیں، ایک دن ضرور انہیں اپنے کیے ہوئے پر افسوس کا اظہار کرنا ہوگا، دنیا میں اگر کسی مصلحت کے سبب نجات مل بھی گئی تو روزقیامت جو عدل و انصاف کا دن ہے، وہاں پر ہر ایک کو اچھے اور بُرے عمل کا بدلہ مل کر رہے گا۔

اللہ نے اپنا یہ فیصلہ ان الفاظ میں سنایا ہے : ’’ ایمان والوں سے کہہ دیجیے کہ انہیں جو اللہ کے جزاو سزاکے واقعات پر یقین نہیں رکھتے، معاف کردیا کریں،تاکہ لوگوں کو ان کے کاموں کا بدلہ ملے، جس نے اچھا کیا اس نے اپنے بھلے کے لیے کیا اور جس نے براکیا اس نے اپنا برا کیا، پھر تم اپنے پروردگار کے پاس لوٹائے جاوٴگے“۔ (سورہ ٔجاثیہ: ۲۴)اس آیت کے شانِ نزول میں لکھا ہے کہ کسی منافق یا کافر نے کسی مسلمان سے کوئی بدتمیزی کی بات کہی تھی، اس سے بعض مسلمانوں کو طیش آیا، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی اور مسلمانوں کو عفو و درگزر کی نصیحت کی گئی۔ (تفسیر کبیر ۱۴/ ۱۷۳)

اس مفہوم پر مشتمل متعدد آیات قرآن میں نازل کی گئی ہیں، جن میں مختلف پیرا یہ سے جذباتیت کے بدلے حقیقت پسندی، غصہ اور اشتعال کے بجائے صبر و تحمل اور انتقامی کارروائی چھوڑ کر بردباری اور قوتِ برداشت کی صفت اختیار کرنے کی تلقین کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ صبر کا راستہ جنت کا راستہ ہے اور کسی ناخوش گوار واقعے پر کسی بھائی کے خلاف نفرت اور انتقام کی آگ بھڑک اٹھنا شیطانی راستہ ہے اور شیطان انسان کا ازلی دشمن ہے،اس لیے اس سے جہاں تک ہوسکے پرہیز کرنا چاہیے۔ (سورۂ فاطر: ۶)

حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺسے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپﷺ مجھے کوئی وصیت فرمائیے۔ جس پر میں عمر بھر کاربند رہوں، آپ ﷺنے فرمایا : غصہ کبھی مت کرنا، راوی کہتے ہیں اس شخص نے اپنی کوتاہ فہمی کی وجہ سے باربار یہی سوال دہرایا، مجھے وصیت کیجیے، آپ ﷺنے ہر مرتبہ یہی جواب دیا، غصہ کبھی مت کرنا۔ (صحیح بخاری)

غصہ ایمان و عمل کے لیے انتہائی مہلک ہے، خلافِ مزاج کسی واقعے پر جب انسان بے قابو ہوجاتا ہے تو تمام شرعی رکاوٹیں اس کے لیے بے اعتبار ہوجاتی ہیں اور وہ غصے کی حالت میں جو چاہتا ہے کرڈالتا ہے، اس لیے حدیث میں غیظ و غضب سے دور رہنے کی تاکید کی گئی ہے۔

جذبات کو قابو میں رکھنے اور صبر و تحمل کی فضیلت اور ثواب کی کثرت اس بنیاد پر بھی ہے کہ اس میں ایک شخص کو امتحان کی مختلف راہ سے گزرنا پڑتا ہے۔ کہیں ملتے ہوئے فائدوں سے محرومی کو گوارا کرنا پڑتا ہے، کبھی خارجی مجبوری کے بغیر خود سے اپنے آپ کو کسی چیز کا پابند کرلینا پڑتا ہے۔ کہیں اپنی بے عزتی کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ کہیں زیادہ کو چھوڑ کر کم پر قانع ہونا پڑتا ہے، کہیں قدرت رکھتے ہوئے اپنے ہاتھ پاوٴں کو روک لینا پڑتا ہے۔

کہیں اپنی مقبولیت کو دفن کرنے پر راضی ہونا پڑتا ہے، کہیں شہرت اور استقبال کے راستے کو چھوڑ کر گمنامی کے طریقے کو اختیار کرنا پڑتا ہے، کہیں الفاظ کا ذخیرہ ہوتے ہوئے اپنی زبان کو بند کرلینا پڑتا ہے ، کہیں جانتے بوجھتے دوسرے کا بوجھ اپنے سر پر لے لینا پڑتا ہے، کہیں اپنے آپ کو ایسے کام میں شریک کرنا پڑتا ہے جس میں کسی قسم کا کوئی کریڈٹ ملنے والا نہیں، ان تمام مواقع پر نفس کو کچل کر خلافِ نفس کام کرنے پر اپنے آپ کو مجبور کرنا پڑتا ہے، یہی وہ راز ہے جس سے انسان کا سفر ہمیشہ بلندی کی طرف جاری رہتا ہے، وہ کبھی ٹھوکر نہیں کھاتا اور نہ کبھی سخت مایوسی کا شکار ہونا پڑتا ہے، لیکن جذبات اور غیظ وغضب سے ہمیشہ انسان کو نقصان پہنچتا ہے،اس میں فائدے کا کوئی پہلو نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رسولِ اکرم ﷺنے ساری قوتوں کے باوجود کبھی انتقامی جذبات سے کام نہیں لیا۔

قریش مکہ نے مارنے کی دھمکی دی،راستوں میں کانٹے بچھائے، جسمِ اطہر پر نجاستیں ڈالیں، گلے میں پھندا ڈال کر کھینچا، آپ کی شان میں ہزار گستاخیاں کیں، مگر کوئی ایسی مثال نہیں کہ غیظ و غضب سے بے قابو ہوکر آپﷺ نے کوئی کارروائی کی ہو،اگر آپ چاہتے تو ایک اشارے میں ہزاروں تلواریں نکل سکتی تھیں، مگر قربان جائیے رحمتِ دوعالم ﷺپر جنہوں نے اس راہ کو اختیار کیا اور نہ مسلمانوں کو اس کی ہدایت دی، بلکہ موقع بہ موقع آپ صحابہٴ کرامؓ کے جذبات کو سکون دینے کی کوشش کرتے اور انہیں صبر و ضبط تواضع و بردباری کا سبق سکھاتے رہتے۔

رسولِ اکرم ﷺنے جب نبوت کا اعلان کیا تو مکہ کا سارا ماحول آپ ﷺکے لیے اجنبی بن گیا، وہی لوگ جن کے بیچ آپ کا بچپن اور آپ کی جوانی گزری، جو آپ کی امانت و صداقت کے بڑے مداح اور عاشق تھے، آپﷺ کے مخالف اور جانی دشمن ہوگئے، آپ کے رشتے دار اور اہل خاندان جن سے آپ کو بڑی امیدیں وابستہ تھیں، ان کا بھی آپ کو کوئی سہارا نہیں ملا، وہ بھی انجانے اورنا آشنا ثابت ہوئے ، تنِ تنہا توحید کا پیغام لیے گھر سے باہر نکلے، مگر کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ حالات کا رخ بدل گیا، ناموافق ہوائیں اب موافق ہوگئیں، دشمنوں کے دل پسیج گئے اور پھر وہ رسولِ اکرم ﷺکے ایسے دیوانے بنے کہ تاریخِ انسانیت میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔

عرب کی اجڈ اور گنوار قوم کے دل و دماغ میں اسلام اور آپﷺ کی بے پناہ محبت اتنی جلدی کیسے رچ بس گئی اور کس طرح ان جانے دشمنوں نے دل و جان سے آپ کی امارت واطاعت کو قبول کرلی، یقینا ًاس پر انسانی عقلیں دَنگ رہ جاتی ہیں اور حیرت کی انتہا نہیں رہتی۔ سیرت کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ عرب کے اس تاریخی انقلاب میں جہاں رسولِ اکرم ﷺکی شیریں زبان، اعلیٰ اخلاق، بہترلب ولہجہ اور پیہم جدوجہد کا حصہ ہے، وہیں آپﷺ کا صبر و تحمل، بردباری اور قوتِ برداشت نے بھی بڑا اہم رول ادا کیا ۔

بلاشبہ صبرو تحمل کا وصف انتہائی مفید و معنی خیز ہے،اس سے سعادت و بھلائی، سکون و اطمینان اور کیف و نشاط کے مواقع ہاتھ تو آتے ہی ہیں، ساتھ ہی صبر و استقامت کی راہ پر چل کر لوگوں کی قیادت و امامت کا درجہ بھی حاصل کیا جاسکتا ہے، خدا نے اپنا یہ دستور اور قانون بہت پہلے ہی ان الفاظ میں سنایا ہے : ’’ ہم نے ان میں سے بعض کو قائد اور امام بنایا جو ہماری باتوں سے لوگوں کو واقف کراتے تھے، یہ ان کے صبر کا بدلہ ہے‘‘۔(سورۃالسجدہ:۲۴) مؤمن کی زندگی کا وہ کون سا لمحہ ہے جس میں اسے جسمانی اور روحانی اذیت و پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑتا ہو، تاریخ شاہد ہے کہ جس نے بھی ان تکلیف دہ مواقع میں صبرو تحمل سے کام لیا، اس کے لیے بعد میں راستے ہموار ہوگئے، کامیابی کی منزل قریب ہوگئی اور پھر بعد میں دشمنوں کے دل بھی بدل گئے۔

شاید یہی وجہ ہے کہ رسولِ اکرم ﷺنے مکی دَور کی تمام مصیبتوں کو مسکراتے ہوئے قبول کرلیا، اعلانِ توحید کے بعد بت پرستوں نے رسولِ اکرم ﷺکی اذیت رسانی کے لیے جو نت نئے طریقے ایجاد کیے تھے، اس کی طویل اور دردناک داستانِ سیرت کی تقریباً تمام کتابوں میں موجود ہے۔طائف کا واقعہ کسے یاد نہیں ہے، مگروہاں نبی رحمت ﷺکا جواب تھا: اگر ان لوگوں نے ایمان قبول نہیں کیا تو مجھے امید ہے کہ ان کی نسلیں ضرور اسلام سے وابستہ ہوں گی، اس صبر و برداشت کی کیا دنیا مثال پیش کرسکتی ہے؟ یہیں تک نہیں، دشمنوں سے انتقام کا سب سے بڑا موقع فتح مکہ کا تھا۔

مگر آپﷺ نے یہ کہتے ہوئے سب کو معاف فرمادیا ’’تم پر کوئی ملامت نہیں، جاؤ تم سب آزاد ہو‘‘۔ وہ لوگ جو خون کے پیاسے تھے اور جن کے دست ِ ستم سے آپ ﷺنے طرح طرح کی اذیتیں اٹھائی تھیں، ان تمام کورسولِ اللہ ﷺ نے معاف فرمادیا۔ آپ ﷺکے صبر و تحمل اور قوتِ برداشت کے متفرق حیرت انگیز واقعات سیرت کی کتابوں میں موجود ہیں، جن میں بڑی عبرتیں پوشیدہ ہیں اور مصیبت زدگان کے لیے تسلی کا سامان بھی۔ یہ آپﷺ کی سیرت ِ پاک اور حیات طیبہ کا وہ تاریخ ساز پہلو ہے،جو ہمیں غصے اور اشتعال کی راہ کو چھوڑ کرعفوو درگزر اور صبر وبرداشت کی تعلیم دیتا ہے۔