اسپتال میں نادار بچوں کا زکوٰۃ سے علاج

July 29, 2022

تفہیم المسائل

سوال: بچوں کا ایک اسپتال ہے، جس میں باقاعدہ زکوٰۃ ،صدقات کے علیحدہ علیحدہ اکاؤنٹ ہیں۔ غیرمسلم مریض بچوں پر زکوٰۃ کی رقم صرف نہیں کی جاتی ، زکوٰۃ کی رقم سے اسپتال کے عملے کو تنخواہ بھی نہیں دی جاتی۔اسپتال کے ہیڈ زکوٰۃ کے اموال کو بطور وکیل اور امین مستحق مریض بچوں کی ادویات ، خوراک اور ٹیسٹ وغیرہ پر صرف کرتے ہیں۔ اسپتال میں بچے کے ساتھ رہنے والی خاتون کو بھی مالِ زکوٰۃ سے کھانا دیاجاتا ہے ۔ کیا اس اسپتال کو زکوٰۃ دینے والوں کی زکوٰۃ ادا ہوجائے گی ؟ (ذوالفقار علی ، کراچی)

جواب: اگر آپ بطور وکیل سوال میں درج اُمور کا خیال رکھتے ہیں اورزکوٰۃ اُس کے درست مصرف پر صَرف کرتے ہیں ،تو زکوٰۃ دینے والوں کی زکوٰۃ شرعاً اداہوجائے گی اور عنداللہ آپ بھی اجر پائیں گے ۔ آپ کے بیان کے مطابق اس اسپتال میں بچوں کا علاج ہوتا ہے ، نابالغ بچوں پر زکوٰۃ صرف کرنے کے حوالے سے بچوں کے ولی (یعنی باپ یا دادا)کا غنی یا فقیر ہونا معتبر ہے، یعنی غنی باپ کی نابالغ اولاد پر زکوٰۃ صرف نہیں کر سکتے، علامہ علاء الدین ابوبکربن مسعود کاسانی حنفی لکھتے ہیں: ’’ غنی کی اولاد اگر نابالغ ہوتو اسے زکوٰۃ نہیں دے سکتے ،اگرچہ وہ فقیر ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ نابالغ اپنے باپ کے غنی ہونے کی وجہ سے غنی شمار ہوگا اور اگر بالغ اولاد فقیر ہوتو اسے زکوٰۃ دے سکتے ہیں، کیونکہ اسے اپنے باپ کی مال داری کی وجہ سے غنی شمار نہیں کیاجاسکتا ،بلکہ یہ اس کے مال میں اجنبی کی طرح ہوتا ہے ،(بدائع الصنائع، جز ثانی )‘‘۔

تملیک یعنی مالک بنانا زکوٰۃ کا رُکن ہے ، علامہ علاء الدین ابوبکر بن مسعود کاسانی حنفی لکھتے ہیں:’’ اللہ تعالیٰ نے مال داروںکو (اپنے مال کی) زکوٰۃ اداکرتے وقت ملکیت میں دینے کا حکم فرمایا ہے ، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’اور زکوٰۃ دو‘‘ ،اور ’’اِیْتَاء‘‘ کا معنیٰ تملیک اور مالک بناکر دینا ہوتا ہے ، اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کو صدقہ کہا ہے ،چنانچہ ارشاد فرمایا:’’ صدقات فقراء کے لیے ہیں ‘‘، اور صدقہ کرنا تملیک کو کہتے ہیں ،(بدائع الصنائع ،جز ء ثانی)‘‘۔

زکوٰۃ کی تملیک کی دو صورتیں ہیں : (۱) زکوٰۃ مستحق اور فقیر بچے یا ان کے سرپرست کے حوالے کردی جائے ، (۲) ان(مستحقِ زکوٰۃ ) پر جو رقم واجب الادا ہوگئی ہو ، اُن کی اجازت سے وہ زکوٰۃ کی نیت سے اداکردی جائے، اگر نادار بچہ نابالغ ہے تو اس کے ولی کی اجازت سے زکوٰۃ کی مَدّسے اس کے علاج کے اخراجات اداکرسکتے ہیں۔

اسی طرح جو کھانا اُنہیں دیا جاتا ہے ، اُس کا اُنہیں مالک بنادیں ،مباح کردینے سے زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی۔ تنویر الابصار مع الدرالمختار میں ہے: ترجمہ:’’تملیک کی قید سے محض مباح کردینا (یعنی فقرا کومالِ زکوٰۃکے استعمال کی عام اجازت دینا) خارج ہوگیا، پس اگر کسی شخص نے نادار یتیم کو زکوٰۃکی نیت سے کھانا کھلا دیا، تو اس سے زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی، مگر جب وہی کھانا یتیم کے حوالے کر دیا جائے تو زکوٰۃ ادا ہوجائے گی، جیسے اگر ادائیگی زکوٰۃ کے لیے یتیم کو کپڑا پہنایا بشرطیکہ وہ قبضے کی حقیقت کو سمجھتا ہو (توزکوٰۃ ادا ہوجائے گی)‘‘۔ مزید لکھتے ہیں:’’ اور زکوٰۃ ادا کرنے کی شرط یہ ہے کہ نادار کو مالک بنا دیا جائے نہ کہ محض استعمال کرنے کی اجازت دی ہو، جیسا کہ (گزشتہ سطور میں) گزرا، (ردالمحتار علیٰ الدرالمختار، جلد:3)‘‘۔رفاہی ادارے جو مریضوں کے علاج کے لیے زکوٰۃ کی رقم جمع کرتے ہیں، وہ اگر حدودِ شرع میں رہ کر زکوٰۃ خرچ کرنا چاہتے ہیں تو اس کی چند صورتیں یہ ہیں:(۱) جتنی مالیت کی دوا نادار مستحقِ زکوٰۃ کی ملک میں دے دی جائے گی وہ جائز ہے،اتنی زکوٰۃ ادا ہوجائے گی۔ (۲) ڈاکٹر کی فیس، بیڈ کے کرائے، ایکسرے، میڈیکل ٹیسٹ وغیرہ پر جو خرچ آئے،اس کی دو صورتیں ہیں: (1)مریض بچے کا مستحقِ زکوٰۃ والد یا سرپرست کسی سے قرض لے کر خود اداکرے اور اسپتال کی انتظامیہ رسید دیکھ کر زکوٰۃ فنڈ سے اس کو اتنی رقم دےدے ،(2) یہ کہ مریض بچے کے مستحق ِ زکوٰۃ ولی یا سرپرست کو بل کی رقم زکوٰۃ فنڈ سے دےدی جائے اور اُسے کہاجائے کہ اپنا بل اداکردو۔ (۳)نادار بچے کی خدمت ونگہداشت کے لیے جو خاتون تیماردار ہے، خواہ اس کی ماں ہو یا بہن یا کوئی رشتے دار ، اگروہ زکوٰۃ کی مستحق ہے، تو اُسے کھانا دے دیا جائے ،وہ ملکیتی بنیاد پر جہاں چاہے ،بیٹھ کر کھائے یا اپنے کسی اور رشتے دار کو ساتھ کھلائے۔ (۳)زکوٰۃ وفطرہ یعنی صدقاتِ واجبہ کی رقم صرف مستحق مریضوں کو دی جائے اور غیر مسلم نادار مریضوں کے لیے الگ سے ’’ویلفیئرفنڈ‘‘ قائم کیا جائے، جو عطیات پر مشتمل ہو ۔ اگر آپ کے ادارے میں درج بالا صورتوں میں سے کوئی صورت رائج ہے ،تو مستحقینِ زکوٰۃ کا علاج اس طریقے پر کیا جاسکتا ہے ۔

اپنے مالی وتجارتی مسائل کے حل کے لیے ای میل کریں۔

tafheemjanggroup.com.pk