سن ہجری، قمری کیلنڈر اُمت مسلمہ کا امتیاز

July 29, 2022

پروفیسر خالداقبال جیلانی

گزشتہ زمانے کے حالات و واقعات کو دن ، مہینے اور سال کے حوالے سے یاد یا محفوظ اور آئندہ زمانے کے معاملات کی تاریخ کا تعین کرنے کے لئے تقویم یا کیلنڈر انسانی تاریخ میں ہمیشہ رائج رہا ہے۔ کیوں کہ کیلنڈر کے بغیر گزشتہ زمانے کی تاریخ معلوم ہو سکتی ہے، نہ ہی مستقبل کی تاریخ کا تعین کیا جاسکتا ہے۔ دنیا میں مختلف ادوار میں جو بھی کیلنڈر رائج رہے ،اُن کے آغاز و اختتام کی نسبت سورج ، چاند اور ستاروں سے رہی۔ اسی لئے بنیادی طور پر تین قسم کے کیلنڈر دنیا میں رائج رہے ، شمسی ، قمری ، نجومی، پھر شمسی کیلنڈر کی بھی تین قسمیں ہیں ۔ ایک عیسوی (اسے میلادی بھی کہا جاتا ہے) دوسری بکرمی (اسے ہندی بھی کہتے ہیں ۔ تیسری فصلی( یہ مختلف موسمی رتوں اور ان میں پیدا ہونے والی فصلوں سے منسوب ہے)۔

علامہ بدر الدین عینی اپنی کتاب عمدۃ القاری میں لکھتے ہیں کہ جب زمین پر انسانی آبادی وسعت اختیار کرنے لگی تو مختلف واقعات کا تعین کرنے کے لئے تقویم یا کیلنڈر کی ضرورت محسوس ہوئی تو اس وقت سب سے پہلے اس کا تعین ہبوط آدم ؑ سے کیا گیا ، پھر طوفانِ نوح سے اس کا شمار کیا جانے لگا، اس کے بعد نارابراہیمی ؑ سے، پھر یوسفؑ کے مصر میں وزیر بننے سے، اس کے بعد حضرت موسٰی کے مصر سے نکلنے سے، پھر حضرت داؤد ؑ سے ، پھر حضرت عیسٰی ؑ کی پیدائش سے، اس کے بعد ہر قوم اپنے اپنے علاقے میں کسی اہم واقعے کو سن قرار دیتی رہی، مختصراً یہ کہ جس طرح ہر قوم نے اپنی تاریخ کا مدار قومی واقعات و خصائص پر رکھا ۔

اسلامی تقویم یا کیلنڈر کی ابتداء اور آغاز کی تاریخ کچھ یوں ہے کہ محرم الحرام اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے اور اسی مہینے سے اسلامی سال کا آغاز ہوتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا طریقہ اصلاحِ رسوم معاشرہ اور انداز تربیت یہ تھا کہ عرب میں آپ کی بعثت سے پہلے سے جو معاشرتی رسوم و رواج اور عقائد رائج تھے ، ان میں سے جو باتیں اسلام کی بنیادی تعلیم توحید کے خلاف شرک پر مبنی تھیں۔ آپ نے اُن کی شدید مخالفت اور ممانعت فرمائی اور انہیں جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا۔ بعض باتیں ، رسم و رواج اور عقائد جو کہیں کہیں اسلام کی تعلیمات توحید کے خلاف تھیں ،لیکن اصلاح طلب تھیں آپ نے ان کی اصلاح فرماکر انہیں معاشرتی طور پر رائج اور جاری رکھا اور جو باتیں یا رسم و رواج بنی نوع انسان کے لئے فائدہ مند اور اسلامی تعلیمات کے خلاف بھی نہیں تھیں ،انہیں آپ نے جوں کا توں جاری رکھا، اس کے ساتھ کئی نئی چیزیں بھی رائج فرمائیں جو معاشرتی طور پر وقت کے حالات اور تقاضوں کے مطابق ضروری تھیں۔

اسلامی سن ہجری کی ابتداء اس طرح ہوئی کہ جب مکی زندگی کی آزمائشوں سے گزر کر رسول اللہ ﷺ مدینہ منورہ روانہ ہوئے تو راستے میں قبا کے مقام پر قیام فرمایا، سن ہجری کی ابتدا ءاسی دن سے ہوتی ہے۔ اس کی تاریخ کچھ یوں ہے جیسا کہ پہلے بیان کیا اسلام سے پہلے عربوں میں کسی خاص سن یا تاریخ کا رواج نہیں تھا، کسی خاص واقعے کو ایک تاریخ مان کر کسی دوسرے واقعے کی یاد دہانی کرادی جاتی تھی۔ جیسے ’’عام الفیل ‘‘ مگر یہ کوئی حقیقی اور مستقل تاریخیں یا سن نہیں تھے اور اس طرح واقعات کی صحیح تاریخیں ضبط تحریر میں نہیں لائی جاسکتی تھیں۔ اس مشکل کو حل کرنے کی طرف حضرت عمر فاروق ؓ کے عہد خلافت میں توجہ دی گئی اور سن ہجری اسلامی سال کی حیثیت سے اسلامی کیلنڈر میں داخل ہو گیا۔

امیر المومنین فاروق اعظم ؓکے زمانہ ٔ خلافت میں اسلام دنیا کے بیشتر حصوں میں پہنچ چکا تھا۔ دنیا کے تین حصوں پر حضرت عمر فاروق ؓ کی اسلامی حکومت کا جھنڈا لہرا رہا تھا۔ حضر ت عمر ؓ اسلامی سلطنت کے دار الخلافہ مدینہ منورہ میں بیٹھ کر سلطنت کے طول و عرض کے حالات کی خبر گیری اور انتظام سلطنت کی معلومات خط و کتابت کے ذریعے لیتے رہتے تھے۔ ایک مرتبہ آپ نے اپنے گورنر ابو موسیٰ اشعری ؓ کو خط لکھا، انہوں نے جواباً خط میں لکھا کہ امیر المومنین آپ کے خطوط و فرامین جو ہم تک پہنچے ہیں، ان میں کوئی تاریخ درج نہیں ہوتی ۔ حضرت عمرؓ کو اس وقت شدید احساس ہواکہ اسلام ایک عالمگیر ،جامع، انسانی زندگی کے ہر گوشہ اور شعبۂ حیات کو محیط دین ہے ۔اس کی ایک اپنی مستقل تاریخ اور سن کا ہونا ضروری ہے، لہٰذا آپ نے مدینہ میں اپنی مجلس شوریٰ کا اجلاس طلب کیا جو جیدصحابہ کرام ؓ پر مشتمل تھی۔

حضرت فاروق اعظم ؓ نے اسلامی تاریخ و سن کی اہمیت پر ایک جامع خطبہ ارشاد فرمایا، آپ نے فرمایا کہ ’’اسلام ایک عالمگیر دین اور ہم ایک بین الاقوامی امت ہیں۔ اسلام کے مخاطب جہاں پڑھے لکھے افراد ہیں، وہیں اَن پڑھ عوام بھی ہیں، شہر کے رہنے والے بھی گاؤں، دیہات کے باسی بھی ہیں۔ لہٰذا مجلس شوریٰ میں طے یہ پایا کہ بہتر یہی ہے کہ چاند کے حساب سے انتخاب کیا جائے، کیوں کہ چاند کے اتارچڑھاؤ سے تاریخ کا پہچانناآسان ہے۔ بخلاف سورج کے کہ سورج ہر دن ایک ہی حال میں نکلتا ہے، اس کے علاوہ رسول اللہ ﷺ بھی چاند کے حساب کو پسند فرماتے تھے ۔ اس کے بعد امیر المومنین عمر فاروق ؓ نے فرمایا کہ اسلامی سال چاند کے حساب سے ہوگا۔ اب دوسرا سوال اُس مجلس شوریٰ میں یہ اٹھا کہ اسلامی سن یا تاریخ کی ابتداء کب سے ہو؟

بعض صحابہؓ نے مشورہ دیا کہ رسول اللہ ﷺ کی ولادت سے شروع کی جائے، اس پر حضرت عمر ؓ نے ارشاد فرمایا کہ اس میں عیسائیوں کی مشابہت ہے کہ ان کے سن کا آغاز حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش سے ہوتا ہے۔ کچھ نے تجویز دی کہ جس دن رسول اللہ ﷺ کو نبوت عطا ہوئی، اس دن سے سن اسلامی کا آغاز ہو۔ اس تجویز کو بھی رد کرتے ہوئے حضرت عمر فاروق ؓ نے دلیل دی کہ نبوت کا ابتدائی زمانہ مسلمانوں اسلام اور رسول اللہ ﷺ پر ظلم اور نا انصافی کا دور ہے۔ اس پر بعض صحابہؓ نے تجویز دی کہ رسول اللہ ﷺ کے وصال کی تاریخ سے اسلامی تقویم کا آغاز کیا جائے۔ حضرت عمر ؓ نے اسے بھی یہ کہتے ہوئے رد کر دیا کہ رسول اللہ ﷺ کے وصال کا دن امت مسلمہ اور اسلام کے لئے بہت بڑا سانحہ اور نقصان عظیم سے کم نہیں، لہٰذا یہ دن بھی مناسب نہیں۔

حضرت علی ؓ نے یہ تجویز دی کہ اسلامی سال سن اور تاریخ کا آغاز رسول اللہ ﷺ کے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت اسلام کے اہم واقعے سے شروع ہو ، ہجرت نبوی ﷺ انسانی تاریخ کا وہ عظیم واقعہ ہے جس سے کفر و اسلام اور حق و باطل کے درمیان امتیاز اور فرق قائم ہوا۔ جمعہ اور عیدین کی نمازوں جیسے شعائر اسلام کو کھلے بندوں علی الاعلان ادا کیا گیا۔ ہجرت نبوی ﷺ ہی سے اسلام کی فتوحات کا آغاز ہوا۔

اس اتفاق کے بعد یہ سوال اٹھا کہ اسلامی تقویم کی ابتداء کس مہینے سے ہو، کچھ نے رمضان کا مہینہ تجویز کیا، حضرت علی ؓ نے فرمایا کہ جس مہینے میں رسول اللہ ﷺ نے ہجرت فرمائی، اسی مہینے سے اسلامی سال شروع ہو ،رسول اللہ ﷺ نے ہجرت تو ربیع الاول میں فرمائی، لیکن آپ ہجرت کا ارادہ اور نیت محرم الحرام ہی میں فرما چکے تھے ،لہٰذا اسلامی تقویم و تاریخ کی ابتداء محرام الحرام سے ہو۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ محرم کو رسول اللہﷺ ’’شھر اللہ المحرم‘‘ یعنی محرم اللہ کا مہینہ ہے ،فرما چکے ہیں۔ اور اس مہینے میں عموماً حجاج کرام بھی حج سے فارغ ہو کر اپنے اپنے وطن اور گھر کو لوٹ جاتے ہیں۔

اس طرح حضرت عمر فاروق ؓ کے دور خلافت میں آپ کی مجلسِ شوریٰ میں ’’وامر ھم شوریٰ بینھم ‘‘ یعنی اپنے باہمی معاملات کو مشورہ سے طے کرو۔‘‘ قرآنی حکم کے حکم تحت جمعرات 30؍ جمادی الثانی 17ھ (ہجرتِ نبویﷺ کے سترہ سال بعد )بمطابق جولائی 638ء،یکم محرم سے اسلامی کیلنڈر کے اجراء کا فرمانِ فاروقی جاری ہوا جس کا اطلاق ماضی میں اس دن سے ہوا جس دن رسول اللہ ﷺ ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لائے تھے یعنی جولائی 622ء ۔

یہ اسلامی کیلنڈر کے آغاز و اجراء کی مختصراً تفصیل ہے ۔ ہجری تقویم دنیا میں رائج کیلنڈروں کی ایک بہت ہی معروف و مشہور تقویم یا کیلنڈر ہے۔ اس کا نقطہء آغاز دنیا کی عظیم ترین ہستی اور اللہ کے آخری رسول اللہ ﷺ کا اہم ترین سفر ہجرت ہے۔ جو حکم الہٰی کی تعمیل کے ساتھ ساتھ آپ ﷺ کی سیرت کا درخشاں عنوان اور تاریخ انسانی کا قابلِ ذکر و منفرد باب ہے، بلکہ ہجرت اسلامی تاریخ کا ایک اہم موڑ ہے، کفر و ایمان کی کشمکش ، حق و باطل کی آویزش اور اسلامی انقلاب کی جدوجہد میں واقعہ ہجرت کو نمایاں مقام حاصل ہے۔ ہجرت ایک اہم ترین عبادت، انبیائےکرامؑ کی سنت، دعوت دین کی شاہراہ اور کامیابی و ظفر مندی کی دلیل ہے۔

یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ صحابہ کرام ؓ نے اسلامی کیلنڈر کے اجراء کے لئے ہجرت کا انتخاب کیوں کیا؟ جو بظاہر درماندگی ، شکست اور مجبورانہ اقدام سے عبارت ہے۔ انہوں نے دیگر قوموں کی طرح فتح و ظفر کو مبداء تاریخ کیوں نہیں بنایا؟ اس سلسلے میں معروف اسلامی اسکالر سید اسعد گیلانی لکھتے ہیں ’’ حضور اکرم ﷺ کی عظیم اسلامی تحریک کی جدوجہد میں واقعہ ہجرت بظاہر تو ایک ناخوشگوار واقعہ ہے، لیکن حقیقتاً یہ اسلامی انقلاب کی طرف ایک اہم پیش رفت ہے۔ مسلمانوں نے اسی لئے اپنی تقویم کو کسی شخصیت ، خاندان یا قوم کی طرف نسبت دینے کے بجائے ایک نظریے کی جدوجہد کے ایک مخصوص مرحلے سے نسبت دی ہے۔ مسلمانوں کا سن، سنہ ہجری ہے جو ہجرت کے واقعہ سے شروع ہوتا ہے۔

چنانچہ ہر دفعہ جب مسلمان اپنے سال نو کا آغاز کرتے ہیں تو وہ اپنی تاریخ کی عظیم ترین اسلامی تاریخ کی بھر پور جدوجہد کے لئے ایک ایسے مرحلے کی یاد تازہ کرتے ہیں، جب وہ کسمپرسی اور جبر و تشدد کے ماحول سے نکل کر ایک اسلامی ریاست کے قیام کے مرحلے میں قدم رکھ رہے تھے۔ یہ اللہ کی حکمت ہے کہ ہجرت کی تاریخ نئے سال کی تاریخ کے ساتھ اس طرح منطبق ہوگی کہ ہجرت ہی مسلمانوں کے لئے سال نو کا موضوع بن کر رہ گئی ہے۔ اس طرح جب مسلمان اپنے سال نو کا آغاز کرتے ہیں تو وہ اپنے آپ کو ایک نظریاتی قوم کی حیثیت سے دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں ۔ بلا شبہ ہجرت مدینہ کا واقعہ اپنی تاریخی اہمیت کے لحاظ سے فتح مکہ سے کسی صورت کم نہیں ،بلکہ شاید کچھ زائد ہی ہے۔ جس روز ہجرت کر کے مکہ چھوڑا جا رہا تھا، اُسی روز تاریخ کے ایوان میں فتح مکہ کا سنگ بنیاد رکھا جا رہا تھا‘‘۔

مختصر یہ کہ ہجری کیلنڈر کا اسلام اور مسلمانوں سے بڑا گہرا تعلق رہا ہے۔ اس کی ترویج و اشاعت کا ایک اہم سبب یہ بھی ہے کہ قرونِ اولیٰ کے حکمرانوں نے اسے اولین انتخاب کے طور پر استعمال کیا ہے ، لیکن افسوس صد افسوس کہ بعد کے زمانوں میں خود ہماری بے شعوری لاپرواہی اور تساہل کے سبب اس کی وہ حیثیت باقی نہ رہ سکی جو قرونِ اولیٰ میں اسے حاصل تھی۔ نیز امت کی سیادت و خلافت سے محرومی اور سیاسی و تعلیمی زوال بھی اس کی ایک اہم وجہ ہے، کیوں کہ جب کوئی قوم کسی خطہ میں غلبہ پاتی ہے تو وہاں کے باشندوں پر اپنی تہذیبی و معاشرتی ، معاشی اثرات کو مرتب کرتی ہے۔

ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اسلامی تقویم ہجری سال کے استعمال کی عادت ڈالیں، اپنے روزمرہ کے استعمال میں اسلامی تاریخوں کو مدِ نظر رکھیں۔ شمسی یا عیسوی تقویم کے استعمال کی رو میں ہم ہجری تاریخ کو فراموش کر بیٹھے ، ہجری تقویم کا تحفظ بھی امت کی ذمہ داری ہےاور یہ فرض کفایہ ہے۔