ماہِ مُحرم الحرام فضلیت، اہمیت اور مسنون اعمال

July 29, 2022

مفتی غلام مصطفیٰ رفیق

محرم الحرام اسلامی سال کاپہلا قمری مہینہ ہے، اس کے محترم ، معزز اور قابل شرف ہونے کی بناء پر اسے ’’محر م الحرام‘‘کہاجاتاہے۔ نیز قرآن کریم میں بارہ مہینوں میں سے جن چار مہینوں کو خصوصی حرمت اور تقدس حاصل ہے، ان چار عظمت والے مہینوں میں سے بھی پہلا بالاتفاق محرم الحرام کا مہینہ ہے، رجب، ذی قعدہ اورذی الحجہ بھی شامل ہیں۔ اسلام میں ان مہینوں کی حرمت اور عظمت اور زیادہ ہوگئی۔ مسلم شریف کی ایک روایت میں ماہ محرم کواس کے شرف کی وجہ سے ’’شہراللہ‘‘یعنی اللہ کا مہینہ کہا گیا ہے۔ محرم الحرام کی اسی بزرگی اوربرتری کی بناء پرحدیث میں ارشاد فرمایا گیا ہے: رمضان کے بعد سب مہینوں سے افضل محرم الحرام کے روزے ہیں اور فرض نمازوں کے بعد تہجد کی نمازافضل تر ہے۔ (صحیح مسلم)

اس ماہ معظم کے ایام میں عاشوراء یعنی دسویں تاریخ کوخصوصی عظمت حاصل ہے، اور اس کی بنیاد کئی واقعات ہیں ،جنہیں حضرت آدم علیہ السلام کی ولادت سے قیامت کے وقوع کے دن تک بیان کیا جاتا ہے، تاریخ انسانی کے کئی بڑے اہم واقعات کواس دن کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔ یہ بھی یادر ہے محرم کی یہ شان ازلی وابدی ہے، ماہ محرم الحرام اپنے اس امتیاز میں کسی زمان ومکاں کا پابند نہیں، بلکہ خود زمان ومکان کسب شان میں محرم الحرام کے پابند ہیں۔ البتہ اس مہینے کے بارے میں سرکاردوعالم ﷺ سے دواعمال سند صحیح کے ساتھ ثابت ہیں جن کے کرنے کاترغیبی حکم دیا گیا ہے:

۱۔ اس ماہ کی دسویں تاریخ یعنی یوم عاشوراء کاروزہ رکھنا۔ اس بارے میں بخاری شریف میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے یہ روایت منقول ہے کہ رسول اللہﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو اہل کتاب کو اس دن کاروزہ رکھتے ہوئے پایا، جب اس کاسبب دریافت کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ اس دن بنی اسرائیل نے حضرت موسی علیہ السلام کی معیت میں فرعون کے ظلم سے نجات پائی تھی اور فرعون مع اپنے ساتھیوں کے دریائے نیل میں غرق ہوا، اس لیے بطور شکرانہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس دن کاروزہ رکھا تھا، حضورﷺ نے فرمایا پھر ہم اس کے تم سے زیادہ حق دار اورحضرت موسیٰ ؑکے زیادہ قریب ہیں۔ چناںچہ حضورﷺ نے اس دن کاروزہ رکھا اور دوسروں کوبھی حکم فرمایا۔(صحیح بخاری)

البتہ مسلم شریف میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے یہ بھی روایت ہے کہ :جب رسول اللہﷺ نے عاشوراء کے دن خودروزہ رکھنے کومعمول بنایا اور صحابۂ کرام ؓکواس کاحکم دیاتوبعض صحابہؓ نے عرض کیاکہ :یارسول اللہﷺ !اس دن کو یہود و نصاریٰ بڑے دن کی حیثیت سے مناتے ہیں (اوریہ گویاان کاقومی ومذہبی شعار ہے) توآپ ﷺنے فرمایا: ان شاء اللہ جب اگلاسال آئے گا تو ہم نویں محرم کوبھی روزہ رکھیں گے(تاکہ تشبہ والی بات باقی نہ رہے)حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ لیکن اگلے سال ماہ محرم آنے سے قبل ہی رسول اللہﷺ وصال فرماگئے۔ تو اس روایت میں یہود کے ساتھ اشتباہ سے بچنے کے لیے یہ بھی فرمایاکہ: اگر آئندہ سال رہاتوان شاء اللہ ہم اس کے ساتھ نویں تاریخ کاروزہ بھی رکھیں گے۔

اس لیے فقہاء لکھتے ہیں کہ اس کے ساتھ نویں تاریخ کاروزہ بھی ملا لینا چاہیے، بہتر یہ ہے کہ نویں، دسویں تاریخ کاروزہ رکھاجائے ،اگر نویں کاروزہ نہ رکھ سکے تو پھردسویں تاریخ کے ساتھ گیارہویں تاریخ کا روزہ ملا لینا چاہیے، تاکہ مسلمانوں کا امتیاز برقرار رہے۔ اگرچہ بعض اکابرعلماء کی تحقیق یہ ہے کہ فی زمانہ چونکہ یہود و نصاریٰ اس دن کا روزہ نہیں رکھتے، بلکہ ان کاکوئی کام بھی قمری حساب سے نہیں ہوتا، اس لیے اب اس معاملے میں یہود کے ساتھ اشتراک اورتشابہ نہیں رہا، لہٰذا اگر صرف دسویں تاریخ کا روزہ رکھا جائے، تب بھی حرج نہیں۔ اس ماہ کی دسویں تاریخ کے روزے کی فضیلت بھی صحیح احادیث میں رسول اللہﷺ سے منقول ہے ،چنانچہ مسلم شریف میں حضرت ابوقتادہ انصاری ؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا ’’میں اللہ سے امید رکھتا ہوں کہ اس دن کے روزے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ایک سال (گزشتہ ) کے گناہوں کاکفارہ فرما دے گا‘‘۔

۲۔اس دن اپنے اہل وعیال پرکھانے پینے میں فراوانی اوروسعت کرنی چاہیے، احادیث مبارکہ سے اس عمل کابھی ثبوت ہے، چنانچہ مشکوٰۃ شریف کی روایت کے مطابق حضرت ابن مسعودؓ رسول کریم ﷺکایہ ارشادنقل فرماتے ہیں کہ’’جو شخص عاشورہ کے دن اپنے اہل وعیال کے خرچ میں وسعت اختیار کرے گا تو اللہ تعالیٰ سارے سال (اس کے مال وزر میں) وسعت عطافرمائے گا‘‘۔بزرگوں میں سے حضرت سفیان بن عیینہؒ فرماتے ہیں کہ ہم نے اس کا تجربہ کیا تو ایسا ہی پایا۔

مذکورہ بالاتفصیل سے یہ واضح ہوگیا کہ عاشوراء کے دن صحیح احادیث کے ذریعے یہ دو کام آقائے دو جہاںﷺ سے منقول ہیں۔ ایک دسویں تاریخ کاروزہ رکھنا اور دوسرا اپنے زیر کفالت افراد پر رزق میں فراوانی اختیارکرنا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دین اسلام کی صحیح سمجھ اور عمل کی توفیق نصیب فرمائے۔(آمین)