پیارے نبی ﷺ کے پیارے نواسے حسنین کریمین رضی اللہ عنہا

August 05, 2022

ڈاکٹر آسی خرم جہا نگیری

اسلامی سال کا آغاز محرم الحرام سے ہوتا ہے، لیکن سانحۂ کربلا کے بعد جب بھی محرم الحرام کا نام آتا ہے تو فوراً تذکرہ شہدائے کربلاؓ اور حضرت امام حسینؓ کا پاکیزہ نام دل و دماغ میں گونجنے لگتا ہے۔ حضرت امام حسینؓ کی شہادت نے ضمیروں کو بیدار کیا، دلوں کو بدلا، ذہنی انقلاب کی راہیں ہموار کیں اور انسانی اقدار کی اہمیت کو متعارف کرایا۔ کوئی بھی بندۂ مومن ایسا نہیں جو واقعہ کر بلا کو سن کرآبدیدہ نہ ہو ۔آپؓ کی قربانیوں کی بدولت آج پرچمِ اسلام سربلند ہے۔

حضرت امام حسینؓ نہایت عبادت گزار تھے۔ آپؓ کے طرزِ زندگی میں رسول اللہﷺ کا کردار نمایاں تھا۔ آپؓ نے جو کچھ بھی کیا، وہ قرآن و حدیث کی روشنی میں کیا۔ آپؓ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ بادشاہوں کی بدترین صفات یہ ہیں کہ دشمنوں سے ڈریں، بے سہارا اور ناداروں پر رحم نہ کریں اور عطا و بخشش کے وقت بخل سے کام لیں۔

حدیث شریف میں ہے، سرور کائنات ﷺ نے فرمایا : حضرت ہارونؑ نے اپنے بیٹوں کا نام شّبروشبّیر رکھا اور میں نے اپنے بیٹوں کانام ان ہی کے نام پر حسن اور حُسین رکھا۔ اسی لیے حسنین کریمین ؓکو شبّر و شبّیرکے نام سے بھی یا د کیا جاتا ہے، سریانی زبان میں شبّروشبّیر اور عربی زبان میں حسن وحسین دونوں کے معنیٰ ایک ہیں۔ حدیث میں ہے کہ حسنؓ اور حُسینؓ جنتی ناموں میں سے دونام ہیں۔ رسول اللہﷺ نے حضرات حسنین کریمینؓ کے بارے میں گواہی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’حسنؓ اور حسینؓ جنتی نوجوانوں کے سردار ہیں۔‘‘(ابن ماجہ)آپﷺ نے ارشاد فرمایا ’’حسنؓ اور حسینؓ دنیا کے میرے دو پھول ہیں۔‘‘(مشکوٰۃ)

حضرت علی ؓ بیان فرماتے ہیں کہ جب حضرت حسنؓ اورحسینؓ پید ا ہوئے تونبی ا کرم ﷺ نے مجھے بلا کر فرمایا: مجھے ان کے نام تبد یل کر نے کا حکم د یا گیا ہے، میں نے عر ض کیا اللہ اور اس کا رسولﷺ بہتر جانتے ہیں، پس آپ ﷺ نے ان کے نام حسنؓ و حسینؓ رکھے۔ (مسند ا حمد بن حنبل)

حضرت ابو سعید ؓ سے مر و ی ہے کہ نبی کر یم ﷺ نے فرمایا: حضر ت حسن ؓ اور حسینؓ جنتی نوجوانوں کے سردار ہیں۔(تر مذی شریف)

حضرت یعلیٰ بن مرہؓ سے روایت ہے ، انہوں نے کہا کہ حضورﷺ نے ار شا د فرمایا: حسینؓ مجھ سے ہے اور میں حسینؓ سے ہوں ۔(ترمذی شریف)

حضرت سلمان فارسی ؓسے روایت ہے، رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: میں نے ان دونوں یعنی حسنؓ و حسینؓ کے نام ہارون علیہ السلا م کے بیٹوں شبر اور شبیر کے نام پر رکھے ہیں۔(ابن ابی شیبہ)

حضر ت عبد اللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ میں نے حضو ر اکرمﷺ کو دیکھا کہ آپﷺ نے حسنؓ و حسینؓ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا: یہ میرے بیٹے ہیں۔(حاکم،ا لمستدرک)

حضرت سیدہ فاطمہؓ فرماتی ہیں، ایک روز حضور ﷺ میرے پا س تشریف لائے اور فرمایا، میرے بیٹے کہاں ہیں؟ میں نے عرض کیا، علی ؓ انہیں سا تھ لے کرگئے ہیں، نبی اکرمﷺ ا ن کی تلاش میں متوجہ ہوئے تو انہیں پانی کی جگہ پر کھیلتے ہو ئے پایا۔ آپﷺ نے فرمایا: اے علیؓ، خیال رکھنا، میر ے بیٹو ں کو گر می شروع ہونے سے پہلے واپس لے آنا۔ ( ترمذی شریف)

حضرت عمر فاروقؓ فرماتے ہیں کہ ایک روز میں دربار رسالتؐ میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ رسول اللہﷺ نے حضرت حسینؓ کو اپنی پشت مبارک پر سوار کر رکھا ہے اور آپﷺ گھٹنوں کے بل تشریف لے جا رہے ہیں، جب میں نے یہ شان دیکھی تو عرض کیا۔ ’’اے ابوعبداللہ، آپ نے سواری تو بڑی اچھی پائی ہے۔‘‘ تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’عمرؓ، سوار بھی تو بہت اچھا ہے۔‘‘

حضرت اسامہ بن زیدؓ ارشاد فرماتے ہیں، ایک رات میں سرور کائناتﷺ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا‘ آپﷺ باہر تشریف لائے تو کچھ اٹھائے ہوئے تھے، جسے میں نہیں جان سکا۔ دریافت کیا’’آپ ﷺ کیا اٹھائے ہوئے ہیں؟‘‘ آپ ﷺ نے چادر مبارک اٹھائی تو میں نے دیکھا کہ آپﷺ کے دونوں پہلوئوں میں حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا ’’یہ دونوں میرے بیٹے اور میرے نواسے ہیں۔‘‘ اور فرمایا ’’اے اللہ، میں ان دونوں کو محبوب رکھتا ہوں، تُو بھی انہیں محبوب رکھ اور جو ان سے محبت کرتا ہے، انہیں بھی محبوب رکھ۔‘‘(ترمذی شریف)

حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ مسجد میں تشریف لائے اور فرمایا:چھوٹا بچہ کہاں ہے ؟ حضرت امام حسین ؓ دوڑتے ہو ئے آئے اور حضور ﷺکی گود میں بیٹھ گئے اوراپنی انگلیاں آپﷺ کی داڑھی مبارک میں داخل کردیں۔ حضور ﷺنے ان کا بوسہ لیا، پھر فرمایا:’’اے ﷲ، میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت فرما اور اس سے بھی محبت فرماکہ جو اس سے محبت کرے۔‘‘(نورالابصار)

حضرات حسنین کریمین ؓ میں سے کوئی بیت اللہ کے طواف کے لیے نکلتا تو آپ سے سلام و مصافحہ کے لیے لوگ پروانہ وار ٹوٹ کر گرتے کہ ڈرلگتا کہ کہیں انہیں تکلیف نہ پہنچے۔ ایک موقع پر حضور اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا کہ حسینؓ مجھ سے ہیں اور میں حسین ؓ سے ہوں جو حسین ؓ سے محبت کرے، اللہ تعالیٰ اس سے محبت فرمائے گا،حسینؓ میری اولاد کی اولاد ہے۔(ترمذی)

حضرت ابو بکر صدیق ؓ،سیدنا حضرت عمر فاروقؓ اور سیدنا حضرت عثمان ذوالنورینؓ سمیت تمام صحابہ کرام ؓ کو بھی حسنین کریمین ؓ اور خاندانِ نبوت سے بہت زیادہ عقیدت و محبت اور اُلفت تھی۔ حضرت حسین ؓ جب بچپن میں پہلی مرتبہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے سامنے آئے تو آپ نے بے اختیار عقیدت و محبت میں فرمایا ’’بیٹا علیؓ کا ہے، مشابہ نبی اکرمﷺ کے ہے۔‘‘

حضرت امام حسینؓ کی ولادت کی خوش خبری سن کر نبی کریم ﷺ حضرت فاطمہؓ کے گھر تشریف لائے، نومولود کے کان میں اذان کہی، ولادت کے ساتویں دن حضرت علیؓ نے آپ کا نام حرب تجویز فرمایا، جسے بعد میں حضور اکرم ﷺ نے تبدیل کرکے حسینؓ رکھ دیا۔ حضور اکرمﷺ کی محبت کا عالم تو دیکھیے، سرور کائنات ﷺمسجد نبوی میں خطبہ فرمارہے ہیں۔ حضرت امام حسینؓ نیا لباس زیب تن کیے مسجد میں داخل ہوئے، حضرت امام حسین ؓ کا پائوں کُرتے میں الجھ گیا، جس کی وجہ سے آپ گر پڑے۔ ذرا تصور کیجیے۔ کائنات کی معتبر ہستی فخرِ کائنات نبی کریم ﷺ اپنا خطبہ روک کر آپ کے پاس آئے اٹھایا ، آپ کو اپنی گود میں بٹھایا اور فرمایا:’’حسینؓ مجھ سے ہیں اور میں حسینؓ سے ہوں۔‘‘

کربلا میں حضرت امام حسینؓ اور ان کے ساتھیوں نے دین کو جس انداز میں بچایا۔اسلامی تاریخ میں وہ ایک روشن مثال ہے۔

عزم واستقلال …!

امام حسینؓ کامقدس قافلہ’’ قصربنی مقاتل ‘‘کے مقام پر پہنچا تو آپ نے اپنے جاں نثاروں کووہاں خیمہ زن ہونے کاحکم دیا، رات دیر تک مناجات اورعبادت کے بعد ابھی امام حسینؓ کی آنکھ لگی ہی تھی کہ اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُونْ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِین کہتے ہوئے بیدار ہوگئے، آپ کے صاحبزادے سیدنا زین العابدینؓ نے پوچھا ابا جان! آپ نے پہلے اِنَّالِلّٰہ اور پھراَلْحَمْدُ لِلّٰہ کیوں پڑھا؟ فرمایا:’’میری آنکھ لگ گئی تھی کہ میں نے خواب میں ایک سوار کو دیکھا، وہ کہہ رہا تھا کہ قوم جارہی ہے اور موت اُس کی طرف بڑھ رہی ہے، یہ خواب ہماری شہادت کی خبر ہے۔ شیر دل صاحبزادے نے یہ سن کر کہا: اباجان! اللہ آپ کوبرے وقت سے بچائے، کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟ فرمایا:اللہ کی قسم، ہم حق پر ہیں، عرض کیا:جب حق کی راہ میں موت ہے توکوئی پروا نہیں، فرمایا: اللہ میری جانب سے تمہیں اس عزم واستقلال کی جزائے خیردے۔(کنزالعمال)

عبادت اور سخاوت کے عظیم پیکر…!

امام حسینؓ کی ذاتِ گرامی فضائلِ اخلاق کا مجموعہ تھی، آپ بہت بڑے عبادت گزار، روزہ دار، بکثرت حج کرنے و الے تھے، پاپیادہ متعدد مرتبہ حج بیت اللہ کی سعادت پائی، ایک مرتبہ ایک فقیر مدینے کی گلیوں میں پھرتا پھراتا آپ کے درِدولت پرآپہنچا۔ اس گھڑی آپ محوِ نماز تھے، سائل کی پکار سنتے ہی نماز ختم کرکے باہر آئے، اسی وقت خادم سے پوچھا، ہمارے اخراجات میں سے کچھ باقی رہ گیا ہے؟ خادم نے عرض کیا، آپ نے دوسو درہم اہلِ بیتؓ میں تقسیم کے لیے دیے تھے، وہ ابھی تقسیم نہیں کیے گئے ہیں۔ فرمایا، وہ سب درہم لے آئو، اہل بیت ؓسے زیادہ ایک حق دار آگیا ہے، چناںچہ دو سو درہم کی تھیلی اس کے حوالے کردی، ساتھ ہی معذرت کی کہ اس وقت ہمارے ہاتھ خالی ہیں، اس لیے اس سے زیادہ خدمت سے قاصر ہیں۔(تاریخ ابن عساکر)