کربلا... جُرات و شجاعت کی عظیم درس گاہ

August 09, 2022

ڈاکٹر سیّد عطا ء اللہ شاہ بخاری

اسلامی اصطلاح میں جوبندگانِ خدا حق و صداقت کا پرچم بلند کیے دین کی سربلندی اور اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہیں، انہیں ’’شہید‘‘سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ شہادت ’’حق‘‘ کی خاطر اﷲ کی راہ میں جان قربان کرنے کو کہتے ہیں اور لغوی اعتبار سے یہ گواہی و شہادت کے زمرے میں آتی ہے۔ البتہ شہادت کے مرتبے پر فائز ہونے والا دونوں معنویت سے متصف ہوتا ہے۔ وہ حق کی گواہی بھی دیتا ہے اور اپنی جان کا نذرانہ بھی پیش کرتا ہے۔ اس اعتبار سے نواسۂ رسول ؐ، حضرت امام حسین ؓ شہادتِ عظمیٰ کی اعلیٰ ترین مسند پر جلوہ افروز نظر آتے ہیں۔

اس کے علاوہ آپ ؓ کی شان اس اعتبار سے اور بھی زیادہ بلند و بالا نظر آتی ہے کہ آپ امام الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے نواسے ہیں اور آپ ؓ کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ آپؓ کی تعلیم و تربیت آپ کے نانا جان کی آغوش مبارک میں ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ؓ کے چہرۂ مبارک سے نبی محترم ﷺ کی عطا کردہ قدسی تعلیمات ِ نورانی کا ازخود پتاچلتا ہے جس کے معترف اپنے پرائے سب ہی تھے اور آج بھی ہیں اور آپ کے حضور خراج عقیدت پیش کرتے نظر آتے ہیں ۔

حضرت امام حسین ؓ کی ولادت باسعادت مدینہ منورہ میں ہوئی، جس سے عالم منور ہوگیا۔ آپ ؓ کا اسم گرامی حسین آپ کے نانا جان نے تجویز فرمایا۔ حضرت امام حسین ؓ کے کان میں توحید کی پہلی آواز بھی آپ کے نانا جان حضرت محمدمصطفیٰﷺ کی زبان مبارک ہی کے ذریعے پہنچی جس کی گونج نے مشکل سے مشکل وقت میں بھی حق و صداقت کے پرچم کو ہمیشہ بلند رکھنے کا حوصلہ عطا کیا جس پر حضرت امام حسین ؓ ہمیشہ قائم رہے اور آپ نے اپنے لہو سے اپنے نانا جان کے دین مبین کی آبیاری کی، جسے رہتی دنیا تک یاد کیا جاتا رہے گا۔

نبی کریمﷺ اپنے نواسے حضرت امام حسینؓ کو بہت چاہتے تھے اور اکثر بارگاہِ ایزدی میں یوں ملتجی ہوا کرتے ۔"اے پروردگار، میں حسین ؓ کومحبوب رکھتا ہوں تو بھی انہیں چاہ اور جو انہیں چاہیں، انہیں بھی چاہ" آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ حسین ؓ مجھ سے ہیں اور میں حسینؓ سے ہوں اور یہ بھی فرمایا کہ حسینؓ جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں۔

حضرت داتا گنج بخش علی ہجویریؒ کی مشہور تصنیف ’’کشف المحجوب‘‘ کے مطابق حضرت حسن بصریؒ یہ فرمایا کرتے تھے کہ رسول اکرم ﷺ کے خاندان بنی ہاشم کے تمام افراد ان کشتیوں کی مانند ہیں جو ہمیشہ دریائوں میں چلتی رہتی ہیں اور صحابہؓ ان ستاروں کی مانند ہیں جو ہمیشہ چمکتے رہتے ہیں۔ یہی لوگ دین کے امام، ہادی اور سچے نشان ہیں، جو کوئی ان کی متابعت کرے، نجات پاتا ہے، جیسا کہ ان اہل ایمان کو نجات ملی ،جنہوں نے کشتی نوح میں اس متابعت کا حق ادا کیا۔

حضرت امام حسین ؓ انتہائی صاف گو ، ہمدرد اور بہادر تھے۔ آپ نےہر معرکے میں اپنے والدِ محترم حضرت علی شیر خداؓ کا ساتھ دیا اور ہر موقع پر شجاعت اور بہادری کے جوہر دکھائے اور کسی طور بھی حق کو مغلوب ہونے نہیں دیا۔ اسی طرح جب مسلم معاشرہ دین محمدی سے ہٹ کر خلاف اسلام امور کی ترویج کی سمت گامزن ہونے لگا تو اس وقت بھی حضرت فاطمہؓ کے نورعین اور حیدر کرارحضرت علیؓ کے لخت ِجگر حضرت امام حسین ؓ نے یزید اور اس کے ساتھیوں کو للکارا کہ وہ اپنی مذموم حرکت سے باز آجائیں اور خلافت کے منصب پر یزید کے بجائے کسی متقی صحابی رسول ؐ کو فائز کریں، مگر یزید نے اپنی بیعت کے لئے حضرت امام حسینؓ کو مجبور کیا، جسے آپ نے مسترد کر دیا۔

دراصل آپ کی ذات گرامی میں دین محمدی کی چاہت اور اس کی حفاظت ایک فطری امر ہے ،کیونکہ آپ نے دنیا کے سب سے بڑے معلم و محسن انسانیت رسول عربی ﷺ کی گود میں آنکھ کھولی اور ان کے ہی اخلاق کریمانہ اور سیرت پاک کو اپنے دل میں سموئے رکھا اور دین محمدی ﷺ کی محبت اپنے قلب و ذہن میں جلائے رکھی جس کی بقاءکی خاطرآپ نے دس محرم کو اپنے خاندان کے بہتّر افراد کی قربانی کا نذرانہ پیش کیا اور ہمیشہ ہمیشہ کےلیے امر ہوگئے۔

شفاعت ِمصطفیٰ ؐپانے والے چار خوش نصیب

سیدنا علی مرتضیٰ ؓ سے روایت ہے کہ رسولِ خدا ﷺ نے فرمایا ’’قیامت کے دن میں چار طرح کے لوگوں کی شفاعت کروں گا، ایک وہ جو میری اولاد (سادات) کی عزت وتکریم کرتا ہے، دوسرا وہ جو، ان کی ضرورت میں ان کے کام آتا ہے، تیسرا وہ ،جو ان کی مشکل میں ان کے لیے کوشاں رہتا ہے اور چوتھا وہ جو زبان اور دل سے ان کے ساتھ محبت رکھتا ہے۔ (دیلمی)

چھ بدنصیب لوگ…!

امّ المومنین سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا : چھ طرح کے لوگوں پر میں لعنت کرتا ہوں اور ان پر اللہ بھی لعنت بھیجتا ہے ،ایک وہ شخص جو کتاب اللہ میں زیادتی کرے، دوسرا وہ شخص جو تقدیر کو جھٹلائے، تیسرا وہ شخص جو طاقت کے ذریعے مسلّط ہوکر اللہ کے ذلیل کئے ہوئے کو عزت دے اور اللہ کے عزت دیئے ہوئے کو ذلیل کرے، چوتھا وہ شخص جو اللہ کے حرام کئے ہوئے امور کو حلال جانے یا حلال امور کو حرام سمجھے۔پانچواں وہ (بدنصیب) جو میرے اہلِ بیتؓ کے بارے میں اللہ کی حرام کردہ چیزوں (قتلِ ناحق )کو حلال سمجھے اور چھٹا وہ شخص جو میری سنت کو چھوڑنے والا ہے ۔ (ترمذی، بیہقی وحاکم)