ملک کا ریلوے نظام!

August 11, 2022

ریلوے کا 1960 ءکی دہائی تک منافع بخش رہنے والا ادارہ سابقہ حکومتوں کی عدم توجہی کے باعث مسلسل خسارے میں جارہا ہے ۔ بیشتر برانچ لائنوں پر عرصہ سے ٹریفک بند پڑی ہے اور ریلوے زمین اور ٹریک پر لوگوں کا قبضہ ہے ۔ ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) کی اسٹڈی رپورٹ کے مطابق اس وقت پاکستان ریلوے کے 23 انجن اور 24 فیصد ویگنیں ناقابل استعمال ہیں ۔ رپورٹ میں ریلوے ٹریک کا ذکر شامل نہیں جو ایک جال کی شکل میں ملک کے طول و عرض میں پھیلا ہوا ہے لیکن فرسودہ ہونے کے باعث بمشکل استعمال میں لایا جارہا ہے ۔ اس ضمن میں گزشتہ برسوں کے دوران رونما ہونے والے درجنوں حادثات کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا جن سے عوام الناس کے دلوں میں ڈر اور خوف کے بادل منڈلائے رہتے ہیں اور دنیا بھر میں محفوظ ترین سمجھا جانے والا ذریعہ پاکستان میں اپنے مستقبل کے حوالے سے ایک سوالیہ نشان بنا ہوا ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک نے پاکستان سمیت خطے کے ممالک میں ریلوے نظام کو جدید خطوط پر استوار کرنے اور منافع بخش بنانے کےلئے 6 نکاتی فارمولا پیش کیا ہے اور یہ تجویز بھی دی ہے کہ وسطی ایشیائی ممالک کو افغانستان اور پاکستان کے ساتھ مربوط کرنے سے خطے میں ریلوے کو خاطر خواہ ترقی دی جاسکتی ہے ۔ پشاور سے کراچی ریلوے کے جدید ٹریک کی تعمیر پاک چین سی پیک منصوبے کا حصہ ہے جس پر بڑی حد تک ہوم ورک ہو چکا ہے۔ 22 کروڑ کی آبادی کے تناظر میں پاکستان ریلوے کی جدید خطوط پر مکمل بحالی اب ناگزیر ہو چکی ہے ۔ بہتر ہوگا کہ سی پیک منصوبے میں اے ڈی بی کی متذکرہ رپورٹ کو ملحوظ رکھا جائے اور جس قدر جلد ممکن ہواس پر کام شروع ہونا چاہئے۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998