اپنوں سے اپنوں نے کیا سلوک کیا ؟

August 13, 2022

پیر علی محمد راشدی 5 اگست، 1905ء میں لاڑکانہ کے گاؤں بہمن میں پیدا ہوئے، انہوں نے کسی اسکول یا کالج سے تعلیم حاصل نہیں کی بلکہ گھر پر ہی اساتذہ کی نگرانی میں عربی، فارسی اور انگریزی زبانوں میں مہارت حاصل کی۔ پندرہ سال کی عمر میں اخبار ات میں مضامین لکھنے کا آغاز کیا۔1924 میں اپنے گائوں سے ایک ’’ماہنامہ الراشد‘‘ جاری کیا۔ 1924ء میں سندھ نیوز اخبارکے نامہ نگار بنے۔ 1926ء میں الحزب شکار پور کے ایڈیٹر اور 1929میں سندھ زمیندار کے مدیر مقرر ہوئے، جو سکھر سے جاری ہوتا تھا۔

1929 میں بمبئی سے سندھ کو علیحدہ کرانے کی تحریک میں بڑی سر گرمی کے ساتھ حصّہ لیا۔ 1936 تک جب تک سندھ کو بمبئی سے علیحدہ کیا گیا اپنا قلمی جہاد جاری رکھا۔

1938 میں آل انڈیا مسلم لیگ میں شرکت کی اور کراچی میں قائدِ اعظم کی زیرِ صدارت منعقد ہونے والی تاریخی کانفرنس کی مجلس ِ استقبالیہ کے جنرل سیکٹری کی حثیت سے کانفرنس کا کامیاب بنانے میں قابلِ قدر خدمات انجام دیں۔ یہ وہی تاریخی کانفرنس تھی، جس میں پہلی بار تقسیم ہند کا مطالبہ کیا گیا تھا اور یہی مطالبہ قرار دادِ پاکستان کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔

قیام پاکستان کے بعد 57ء سے 61ء تک فلپائن اور 1961ء سے 1962 ء تک عوامی جمہوریہ چین میں سفیر رہے۔ 53ء کی سندھ اسمبلی کے الیکشن میں آپ روہڑی کے حلقے سے بالا مقابلہ رکن منتخب ہوئے اور 54 میں پیرزادہ عبدالستارکی کابینہ میں ریونیو‘ صحت اور اطلاعات کے قلمدان سنبھالے، جبکہ اگلے برس محمدایوب کھوڑو کی کابینہ میں روینیو اورصحت کے محکمے ان کے پاس تھے بلکہ ڈپٹی چیف منسٹر کا منصب بھی سنبھالا ہوا تھا۔ آپ چوہدری محمد علی بوگرہ کابینہ میں بھی اطلاعات کے وزیر تھے۔ 1960 سے اپنی وفات تک 23سال مسلسل روزنامہ جنگ کے لیے کالم لکھتے رہے۔ انھوں نے ہانگ کانگ میں رہتے ہوئے 1963 سے 1964 تک جنگ کے لیے ’’مکتوب مشرق بعید‘‘ کے عنوان سے کالم لکھے۔ 1964ء سے1978 ’’مشرق و مغرب‘‘ عنوان کے تحت کالم لکھے۔ اسی دوران جنگ میں ہی مزاحیہ کالم ’’وغیرہ وغیرہ ‘‘ بھی لکھنا شروع کیا ۔

پیر علی محمد راشدی اپنی ذات میں ایک تحریک تھے۔ ان کے قلم سے افسر شاہی سے لے کر نوکر شاہی تک کتراتے تھے۔ حکمران ان کی تحریروں سے خائف رہتے تھے۔ اردو پر ان کو ملکہ حاصل تھا۔ 14 مارچ 1987ء کو کراچی میں وفات پاگئے۔

1982 میں جنگ میں شائع ان کا کلام ، بہ عنوان ’’ اپنوں سے اپنوں نے کیا سلوک کیا؟‘‘، نذرِ قارئین ہے۔ اسے پڑھ کر بہ خوبی اندازہ ہوجائے گا کہ ہمارے سیاست دان آج بھی ویسے ہی ہیں، جیسے کل تھے۔

جمہوریت بغیر ان لوگوں کے جن کی پرورش سیاسی ماحول میں ہوئی ہو ، نہیں چل سکتی تھی۔ شتربان سے آپ ہوائی جہاز نہیں چلوا سکتے ،کشتی چلانے والے کے ہاتھ میں آپ ریلوے کاانجن ہرگز نہیں دے سکتے۔ طبیب کتناہی اچھا ہو،آپ اس سے بیراج کا پل نہیں بنواسکتے۔ انجینئر کتنا ہی تجربہ کار ہو آپ اس کو سول سرجن بنا کر اس سے آپریشن نہیں کروا سکتے۔اسی طرح جمہوری سیاست کے بھی خاص تقاضے ہوتے ہیں جو سیاستدان ہی پورے کرسکتے ہیں۔

پاکستان بننے اورحضرت قائدعظم کی رحلت کے بعد چونکہ بعض عناصر کامقصد یہ تھا کہ اس ملک میں جمہوریت پنپنے نہ پائے تاکہ ان کے پاور میں آنے کے راستے کھل جائیں۔ ان کی کوشش یہ رہی کہ یہاں کے تجربہ کار سیاستدانوں کو طرح طرح کی اذیتیں دے کر اور ذلیل و خوار کرکے سیاسی میدان سے بھگا دیں۔

اس سوچی سمجھی پالیسی کے تحت پاکستان کے سیاستدانوں پر جو بیتی اس کی کچھ تفصیل عرض ہے:۔

مولوی فضل الحق مرحوم قرار داد پاکستان لاہور کے محرک تھے۔ان کو ’’غدار‘‘اور بھارت کا ایجنٹ قرار دیکر پہلے پاکستان کی سیاست میں قدم نہیں رکھنے دیا۔ بعد میں جب ان کوان کے اپنے عوام نے سرپراٹھالیا تو طوعاً و کرعاً ان کو چیف منسٹر بنا دیاگیا۔ پھران سے نہیں بنی تو دوبارہ ’’غدار‘‘کا لیبل لگا کر ان کو ڈسمس کردیا گیا تھوڑے ہی عرصہ کے بعد اس کے تعاون کی پھر ضرورت محسوس ہوئی۔ اب اسی ’’غدار‘‘ اور ’’بھارت کے ایجنٹ‘‘ کو مرکز میں وزیرداخلہ بنایاگیا اوراس کی خواہش پربنگال کی گورنری اس کے سپرد کردی گئی ،بالآخر دوبارہ ان کوڈسمس کردیاگیا ۔ ملک کی تعمیر کا ان سے کوئی کام نہیں لیا گیا، وہ سارا عرصہ محض اپنی آبرو بچانے کی فکر میں رہے۔

یہ ہوا حشر پاکستان میں اس سیاستدان کا جس نے قرارداد پاکستان پیش کی تھی۔ ستر سال ہندوستان کے مسلمانوں کی خدمت کی تھی۔ بنگال کے ہندوئوں سے زبردست مقابلے کئے تھے۔ اوران کی خدمات کے پیش نظر وہاں کے عوام نے ان کو شیرِ بنگال کاخطاب دیا ہوا تھا۔

خیال کن زگلستانِ من بہارِ مرا

شہید سہروردی مرحوم وہ شخص تھا۔ جو بضد مشرقی بنگال کو پاکستان میں شامل کرنے کے لئے لڑجھگڑ کر ،لیجیلٹرس کنونشن سے قرارداد منظور کروا کرمشرقی بنگال کو پاکستان میں لے آیا تھا۔ بہ حیثیت وزیراعلیٰ متحدہ بنگال اس نے فرقہ وارانہ فسادات کے دوران مسلمانوں کی اتنی خدمت اورحمایت کی تھی کہ وہاں کے ہندو آخر تک یہ زخم فراموش نہیں کرسکے، نہ صرف یہ بلکہ پاکستان تحریک کے زمانہ میں وہ سارا عرصہ مسلم لیگ بنگال کا جنرل سیکرٹری اورمسلم لیگ اسمبلی پارٹی کا روحِ رواں رہا۔

اس شخص کا کیا حال بنا؟’’پہلے غدا‘‘ پاکستان کے خطاب سے نوازا گیا، مسلم لیگ سے نکالا گیا اورایسا ماحول پیدا کیاگیا کہ وہ پاکستان میں داخل ہونے ہی نہ پائے، پھر ایک وقت ایسا آیا کہ یہاں کی نوکر شاہی کے نامزد گورنر جنرل مرحوم غلام محمد کو اپنے جوڑ توڑ کو مقبول عام بنانے کیلئے اسی سہروردی کے تعاون کی شدید ضرورت محسوس ہوئی۔ چنانچہ اس کو جنیوا سے بلا کر پاکستان کا وزیر قانون بنایاگیا اورایک اورچکر میں اس کو کچھ مہینوں کیلئے وزیراعظم بھی بننے دیاگیا۔ آخر میں ایوب خان کا دور آیا تو اسی سابق وزیراعظم کو جیل میں ڈال دیا گیا اور ’’ایبڈو‘‘ کے تحت سیاست کیلئے نااہل قرار دے دیا۔

اس قدر بے اَبروئی کے بعد وہ غریب جان چھڑا کر ملک سے ہی باہر نکل گیا اور وہیں جاکر مرنا بھی منظو کرلیا (بعد میں ان کی بیٹی بیگم اختر سلیمان کا اخباری انٹرویو شائع ہوا ، جس میں یہ راز کھولا گیا کہ سہروردی مرحوم طبعی موت نہیں مرے تھے ،مگران کو نوکر شاہی نے مروایا تھا) اپنے اس لیڈر کے ساتھ یہ سلوک دیکھ کر مجیب الرحمن ،مستقبل کا بنگلہ بندھو، بنا اور وہ کچھ کر گیا جس کا رونا ہم آج تک ’’دولخت ہوگیا، دولخت ہوگیا،کہہ کر رو رہے ہیں۔

خواجہ ناظم الدین مرحوم سے زیادہ آڑے وقت میں، کس نے قربانیاں دی تھیں یا مسلم لیگ اور تحریک پاکستان کی خدمت کی تھی؟ مثلاً جب ہندواخبارات نے مسلمانوں کا ناطقہ بندکر رکھا تھا تو اسی ناظم الدین نے اپنی جملہ آبائی جائیداد بیچ کر مسلمانوں کا انگریزی اخبار’’اسٹار آف انڈیا‘‘ کلکتہ سے جاری کروایا تھا۔ اور خود قلاش بن کر بیٹھ گیا تھا۔قربانی کے ایسے مجسمے کو کس طرح بے آبرو کرکے ہمیشہ کیلئے سیاست سے نکال دیاگیا۔؟ اس کو ایسی حالت میں خلاف قانون اورخلاف کے لیے شرافت پرائم منسٹری سے ڈسمس کیا گیا جب وہ ہنوز مسلم لیگ پارٹی کے سربراہ تھے۔ اور پارٹی کامکمل اعتماد ان کو حاصل تھا ۔ ڈسمس ہوجانے کے بعد اس معصوم انسان کے پاس نہ رہنے کا گھراورنہ معاش کا کوئی ذریعہ رہا۔ عارضی طورپر کراچی کے ایک مخیر شخص نے ان کی خستہ حالی پررحم کھا کر ان کوسرچھپانے کیلئے ایک چھوٹا سامکان کرائے پر لے کر دے دیا۔

میں جب سندھ کاریونیو وزیر بنا تو وہ میرے پاس درخواست لے کر آئے کہ ان کو تھوڑا سا غیرآباد زمین کا ٹکڑا سند ھ میں دے دیا جائے جہاں وہ مرغبانی کرکے فاقہ کشی سے بچنے کا بندوبست کرسکیں۔ زمین تو میں نے دے دی مگرمرغی خانہ نہیں بن سکا۔ مجبوراً دربدر خاک بسر وہ اپنا یہ حال لے کر ڈھاکہ پہنچے اور وہاں پاکستان کے دوست دشمن قائداعظم کے اس سب سے قریبی ساتھی کا یہ حشر دیکھ کر انگشت بدنداں رہ گئے۔ آخر ان کا دل ٹوٹ گیا اور وہ اپنی دردناک کہانی لے کر بارگاہ ایزدی میں حاضر ہوگئے۔ جس ملک کو بنانے میں ناظم الدین نے نمایاں حصہ لیا تھا۔

اس میں ان کے لئے کوئی جگہ نہیں نکل سکی۔اس زمانے میں کہاجاتا تھا کہ معاشرے کی تطہیر کے مقصد سے بدعنوان اور بدکردار سیاستدانوں کے خلاف مہم چلائی جارہی ہے مگر کسی نے یہ نہیں بتایا کہ اس فرشتہ سیرت انسان سے کون سی بدعنوانی سرزد ہوئی تھی یا کیا رشوت اس نے کھائی تھی۔؟سچی بات یہ تھی کہ اس مہم کا حقیقی مقصد تھا سیاستدانوں کو ذلیل اور پاکستانی جمہوریت کو دنیا کے سامنے رسوا کرنے کا اور اس دیوانگی کی زد سے اس پایہ کا سیاستدان بھی نہیں بچ سکا۔

حمیدالحق چوہدری تحریک آزادی کے سرفروش مسلم لیگی ورکر اور بنگال کی اسمبلی پالیٹکس کے روح رواں تھے۔ آزادی کے بعد وہ وہاں صوبائی وزیر بھی بنے۔ ان کو وزارت سے نکال کر پروڈا کے تحت سیاست کے لئے نااہل قرار دیاگیا،مگر پھر اسی حمید الحق کوسارے پاکستان کا مرکزی وزیرخارجہ بنایاگیا۔ وہاں سے نکالے جانے کے بعد اس پر جو بیتی اس کانتیجہ یہ ہوا کہ وہ ہمیشہ کیلئے سیاست پرلعنت بھیج کر اپنے قانونی پیشے میں لگ گئے۔

پاکستان ایک ایسے دماغ کی خدمات سے محروم ہوگیا، جس سے نہ صرف یہاں بلکہ بین الاقوامی دنیا میں بھی حیرت انگیز کام لیا جاسکتا تھا۔ مسٹر منڈل بنگال کے اچھوتوں اور مزدوروں کے لیڈر تھے۔ انہوں نے قائداعظم کا ایسے وقت میں ساتھ دیا جب کوئی غیر مسلم ان سے تعاون کرنے کیلئے تیار نہ تھا۔ قائداعظم نے پہلے ان کو مشترکہ آل انڈیا کابینہ میں اپنی طرف سے نامزد فرمایا اور بعد میں ان کو اپنی کابینہ کا رکن بناکر یہاں لے آئے۔جب تک قائد زندہ رہے منڈل کی پاکستان سے وفاداری شک و شبہ سے بالاتر رہی مگر قائد کاانتقال ہوتے ہی وفاداریوں کی ناپ تول کا کام نوکرشاہی نے اپنے ذمہ لے لیا۔ چوہدری محمد علی مرحوم و مغفور اپنی زندگی کا بیشتر حصہ انگریز کی ملازمت میں بسر کرنے کے بعد دہلی سے پاکستان تشریف لے آئے تھے اور آتے ہی بحیثیت سیکرٹری جنرل مرکز پاکستان میں نوکر شاہی کے معمار اور امام مانے جانے لگے۔

ابھی وہ کابینہ میں محض سیکرٹری تھے (ہنوز نہ وہ سیکرٹری خزانہ، وزیرخزانہ ، نہ وزیراعظم بنے تھے۔ ان کی ترقی درجات کا یہ اہتمام بعد میں ہوتا رہا) بہرحال اس وقت وہ کابینہ کے سیکرٹری تھے ان پر (بقول خود) یکایک یہ انکشاف ہوا کہ منڈل کی ملک سے وفاداری مشکوک ہے جس کے معنی یہ ہوتے تھے کہ چوہدری صاحب مرحوم مردم شناسی اوروفاداری پرکھنے کے معاملے میں قائدسے بھی زیادہ تیز نظر رکھتے تھے، چنانچہ انہوں نے وزیر منڈل سے کابینہ کے اہم کاغذات چھپانے کی کوشش شروع کردی۔

یہ بات منڈل سے برداشت نہ ہوسکی، وہ خوددار پرانا ہندو سیاستدان تھا ۔تحریک آزادی کے دوران بڑی قربانیاں دے کر اور شدید مشقتیں برداشت کرکے خصوصاً آڑے وقت میں اپنی قوم کے خلاف ہمارے قائد کا ساتھ دیکر وزارت کے اس منصب تک پہنچا تھا اب وہ کیوں کر یہ توہین برداشت کرسکتا تھا کہ کابینہ کا اپنا ملازم اس کے سیاسی کریکٹر اور وفاداریوں کے بارے میں جج بن کر بیٹھے؟۔ وہ فوراً وزارت چھوڑ چھاڑ کر واپس کلکتہ چلا گیا اور بقیہ عمر وہاں ہندوئوں کے طعنے برداشت کرتا رہا کہ مسلمانوں سے تعاون کرنے کا یہ نتیجہ ہوتا ہے۔

منڈل کے اس حشر کا مشترقی پاکستان کی ہندوآبادی پرخاص طور سے بہت ہی برا اثر پڑا اوروہ اسی دن سے پاکستانی سیاست سے مایوس ہوکر اپنی جان چھڑانے کیلئے سازشیں کرنے لگے،جن کا نتیجہ آنری طور پر 1971ء والے حادثے کی صورت میں ظاہر ہوا۔ اب تک یہ ہندوقائداعظم کی تسلی آمیز تقریریں سن کر اور قرارداد پاکستان کا اقلیتوں کے حقوق والا حصّہ دیکھ کر کسی قدر امید و بیم کی کیفیت میں رہتے تھے مگر منڈل والے واقعہ کے بعد وہ قطعی طور پر پاکستان سے نااُمید ہوگئے۔ صوبہ سرحد میں مرحوم سردار اورنگزیب نے اس وقت مسلم لیگ اور پاکستان کے حق میں جہاد کیا،جب ان کا نام لینے والا کوئی شخص وہاں نظر نہیں آتا تھا۔

مجھے خود ابتدائی زمانہ میں وہاں بھیجا گیا تھا جو کچھ میں نے دیکھا وہ یہ تھا کہ اورنگزیب خان تنہا اپنی چھوٹی سی مورس موٹر میں (جس کا مولانا شوکت علی مرحوم نے ابابیل نام رکھا تھا) تحریک کو بڑھانے کیلئے صوبہ بھر میں دوڑ رہے تھے۔ کانگریسی وزارت کے عارضی طورپر مستقل ہونے کے بعد (ابھی انگریز کا زمانہ تھا) یہی اورنگزیب اس قابل نظر آیاکہ وہاں کی مسلم لیگی وزارت اعلیٰ ان کے سپرد کی جائے، یہاں تک تو اس کی خیر رہی مگر پاکستان بن جانےاو ر قائدکی رحلت کے بعد اسی اورنگزیب کو پیچھے دھکیل دیا گیا۔ بعد از بسیار آہ و زاری ان کو تھوڑے سے عرصہ کیلئے سفیربناکر ملک سے باہر بھیجا گیا مگر نوکرشاہی سفارت کے اعلیٰ عہدوں کو اپنی جاگیر قراردے چکی تھی اوراپنے لولوں لنگڑوں کو ان میں کھپانے کیلئے سر سے کفن باندھے بیٹھی تھی۔ اس نے حسب عادت اس باہر کے سیاستدان سفارت کارپر بے سروپا اتہام لگاکر اس کووہاں سے بھی نکلوادیا۔

مقامی سیاست سے وہ پہلے ہی بے دخل کردیئے گئے تھے، آخر بیچارہ مرتا مرگیا سنبھل نہیں سکا۔جو کام سرحد میں اورنگ زیب نے کیا وہی کام صوبہ بلوچستان میں قاضی عیسیٰ مرحوم سرانجام دیتے رہے تھے جب تک قائداعظم زندہ رہے، عیسیٰ مسلم لیگی ہائی کمانڈ کے ممبر بنے رہے، جب تک تحریک چلتی رہی اور پاکستان نہیں بنا تھا وہ ہندوستان بھر میں ہر فرنٹ پر استعمال ہوتے رہے مگر پاکستان بن جانے کے بعد اس کیلئے کوئی جگہ پید ا نہیں ہو سکی، سوائے ایک بیکار سفارت کے جہاں سے بھی وہ اورنگزیب خان کی طرح جلد ہی نکال دیئے گئے۔ نوکر شاہی نے وجہ یہ بتائی کہ اس کی باریک بین نظروں میں یہ چیز کھٹکنے لگی تھی کہ وہ غالباً بھتے بھاڑے کے غلط بل بنارہے تھے،جس شخص نے پاکستان کی خاطر اپنی جوانی اوراپنی بیرسٹری کی پریکٹس برباد کرڈالی تھی وہ آخر عمر میں سفر خرچ کے سلسلہ میں خوردبرد کا مرتکب پایاگیا ۔سچ تو یہ ہے کہ خوئے بدرابہانہ ء بسیار!

پنجاب جیسے کلیدی صوبہ میں مسلم لیگ کا پرچم کس نے اپنے ہاتھوں میں تھاما ہوا تھا۔ جب انگریز ، ہندو ، سکھ، نینسٹ مسلمان سب مل کر لیگ اور پاکستان کے خلاف برسرپیکار تھے؟… نواب افتخار حسین ممدوٹ مرحوم، میاں دو لتانہ ،سردار شوکت حیات اور میا ں افتخار الدین مرحوم نے پاکستان بن جانے کے بعد ابتدائی دنوں میں جب قائداعظم ؒہنوز زندہ تھے، ممدوٹ ،مرحوم کے سر پر چیف منسٹری کی ذمہ داری ڈال دی گئی تھی اور تحریک آزادی کشمیر کے سلسلہ میں کچھ نازک کام اس کے سپرد کئے گئے تھے مگر قائداعظم ؒکی رحلت کے بعد جلدہی اس کووزارت سے نکل کر پروڈا میں پھنسا دیا گیا اور کافی رسوا کیا گیا۔ آگے چل کر گورنر جنرل غلام محمد مرحوم کا دور آیا تو اسی معتوب ممدوٹ کو پھرگلے سے لگاکر سندھ کا گورنر بنادیا گیا اورپھر نکالا گیا۔دولتانہ صاحب کو کچھ عرصہ کیلئے ممدوٹ کی جگہ پرچیف منسٹر پنجاب بنایاگیا پھر اس سے استعفیٰ لیاگیا، پھراس کو مرکز میں وزیر بنایاگیا اورپھرنکالا گیا۔

ایوب خان کے دور میں اس کے خلاف پیڈو کے تحت کارروائی کی گئی، اس نے لکھ کر دے دیا کہ پانچ سال تک وہ سیاست میں حصہ نہیں لے گااور یہی چیز ایوب خان چاہتے تھے۔ میاں افتخار الدی مرحوم اور شوکت حیات پاکستان بنتے ہی غدار قرار دیئے گئے ،کسی کی کیا مجال جو یہ پوچھ بیٹھے کہ جب تک پاکستان نہیں بنا تھا یہ لوگ’’غدار‘‘ نہیں تھے بلکہ تحریک کے سرفروش کا رکن رہے اور اب جب پاکستان بن گیا اوراس سے غداری کا کوئی فائدہ نہیں رہا تھا تووہ کیسے اورکس مطلب سے یکایک’’ غدار‘‘ بن گئے۔؟ممکن ہے کہ انہوں نے کسی پالیسی کے معاملہ میں اختلاف کیا ہو مگر اختلاف رائے توجمہوریت کی جان ہے۔اختلاف رائے سے آدمی غدار کیسے بن سکتا ہے ؟ کیا اپوزیشن پارٹیاں دنیا کی جملہ جمہوریتوں میں غدار سمجھی جاتی ہیں؟

پنجاب کے دوسرے نوجوانوں نے بھی تحریک کے دوران بڑی بڑی خدمات سرانجام دیں تھیں۔ مگر جب پاکستان کا دسترخوان بچھا تو ان کے لئے کوئی جگہ نہیں تھی۔ اسی طرح پنجاب کی خواتین نے بھی پاکستان حاصل کرنے کیلئے سردھڑ کی بازی لگائی تھی۔ پاکستان کاعلم پنجاب کے سیکرٹریٹ پرایک خاتون نے ہی نصب کیا تھا مگر حصول پاکستان کے بعد ان خواتین کی کیا قدر شناسی ہوئی، یہ کام صدرمحمد ضیاء الحق کے لئے چھوڑا گیا کہ وہ اگر پینتیس سال بعد اس بہادر خاتون (جس نے علم نصب کیا تھا) کی تالیف قلب کے لئے کچھ سامان کریں ۔ ابو سعید انور کوکیاملا؟ ظہیرالاسلام فاروقی کو کیاملا؟ عبدالستارنیازی ، عبدالسلام خورشید یا فارق سیالکوٹی کو کیا ملا؟ محبوب قریشی کو کیا ملا؟ آفتاب قریشی کوکیا ملا؟ مسکین نسیم حسین کو کیاملا؟ میاں باری مرحوم کو کیاملا؟

ظفرعلی خان یا مہراورسالک کے سروں پرکون سے تاج رکھے گئے؟ وقار یا میکش کی خدمات کو جاری رکھوانے کیلئے کون سی گنجائش نکالی گئی؟ حمید نظامی مرحوم کو کیا انعامات ملے؟ (سوائے جھوٹے مقدمات ، تلاشیوں اور ضبطیوں کے) یہ اور کئی اور ایسے ورکر پنجاب میں تھے۔ جن کی مختلف محاذوں پر خدمات کے بغیر پنجاب کو ان خصوصی حالات میں ، پاکستان کے نظریہ کی طرف لانا قطعاً ناممکن تھا۔ میں جانتا ہوں کہ ان لوگوں نے کسی انعام و اکرام کے لالچ پر تحریک میں حصہ نہیں لیا تھا مگر پاکستان بن جانے کے بعد ان کو یک قلم فراموش کردینا اور پاکستان کی تعمیر میں حصہ لینے کا مناسب موقع نہ دینا۔

خود اسی نوزائیدہ ملک کے حق میں کہاں تک مفید تھا؟ یہ وہ لوگ تھے جن میں سے ہرایک شخص کسی نہ کسی شعبہ زندگی میں ،اپنی خداداد صلاحیتوں سے اس نئے ملک کو فائدہ پہنچانے کا اہل تھا۔ ان کے پاس تجربہ تھا۔ وہ تحریک کے مقاصد اور مضمرات سمجھتے تھے۔ اور انہوں نے قربانیاں دے کر اپنا خلوص ثابت کیا ہوا تھا۔کیا پاکستان بنتے ہی یکایک ان کی جملہ صلاحیتوںپر پتھر پڑ گئے تھے کہ ان کو مزید کسی ملکی کام کیلئے ناکارہ سمجھ کر کباڑخانہ میں پھینک دیا گیا؟

پیر صاحبان مانکی شریف وزکوڑی شریف نے صوبہ سرحد میں مسلم لیگ اور پاکستان کیلئے کیا کچھ نہیں کیا تھا۔ ؟ مگر پاکستان بن جانے کے بعد کیوں یکایک ان کو دوسری پارٹیوں کی تلاش رہی یا قطعاً گوشہ نشین ہو جانا پڑا؟ اگر صحیح خطوط پر کوشش ہوتی تو خود معتوب بارگاہ خان عبدالغفار خان کی صلاحیتوں سے بھی فائدہ اٹھایا جاسکتا تھا۔ اگر سکندر مرزا مرحوم بعد میں خان عبدالغفار خان کے بڑے بھائی ڈاکٹرخان صاحب کو (جو سرحدی کانگریس وزارت کے چیف منسٹر اور پاکستانی پرچم کو سلام نہ کرنے کے اصلی مجرم قرار دیئے جاتے تھے) رام کرکے پاکستان کی مرکزی وزارت میں لاسکتے تھے۔ اورخیبر سے کراچی تک کاعلاقہ یعنی سارا مغربی پاکستان ون یونٹ کے چیف منسٹر کی حیثیت میں ان کے حوالے کیاجاسکتا تھا۔ تو یہ بھی قرین قیاس تھا کہ اسی ڈاکٹر خان صاحب کے چھوٹے بھائی عبدالغفار خان صاحب پروہی نسخہ کارگر ثابت ہوجاتا۔ اگر بڑے میاں سبحان اللہ تھے تو چھوٹے میاں کیوں نعوذباللہ رہے؟

مجھے تو یہاں تک بھی معلوم ہے کہ شروع میں خود خان عبدالغفار خان کی طرف سے اس سمت میں پیش قدمی کی کوشش بھی ہوئی تھی۔ مثلاً انہوں نے دستور ساز اسمبلی کے سامنے پاکستان سے وفاداری کاحلف اٹھا لیاتھا۔ یہاں کراچی میں آکر آمادگی ظاہر کی تھی کہ قائداعظم ؒ سے ان کی ملاقات ہو جائے مگر بعض سازشی عناصر جو اس وقت سیاسی تخریب کاری میں لگے ہوئے تھے، عبدالغفار خان اور مسلم لیگ کے مابین افہام و تفہیم کو اپنے انتہائی مقاصد کے منافی سمجھتے تھے۔ اور ڈرتے تھے کہ کہیں عبدالغفار خان کے پایہ کے آدمی کی پاکستانی سیاست میں عملی شرکت سے یہاں سیاستدانوں کا پلہ بھاری نہ ہو جائے اورجمہوری سیاست کو فیل کرنا ممکن نہ رہے۔ وہ مصالحت کی ان کوششوں میں حائل ہوتے رہے اورجو چند مہینے پاکستان بننے کے بعد قائد زندہ رہے ان میں دونوں کو قریب آنے اور ایک دوسرے کو سمجھنے کا موقع نہیں دیا۔ آخر یہ بیچ کے لوگ بھی تومعمولی آفتیں نہیں ہوتیں۔

اگر یہ نظر عمیق دیکھا جائے توخان عبدالغفار خان کے معاملے میں بات صرف اتنی تھی کہ اوّل ان کو قائد کے قریب آنے دیا جاتا۔دوئم ان کے ساتھ ان کے سیاسی مقام کے مطابق سلوک ہوتا۔ سوئم یہ کہ ان پر کم از کم اتنا اعتماد ہی کیاجاتا جتنا اعتماد پاکستان کے روایتی دشمن انگریز کے پیچھے چھوڑے ہوئے انگریز گماشتوں (سرجارج کٹہنگام، موڈی ، گریسی، میسروی، میکفرکوہار، میجر ہارڈی اور دوسروں) پر کیا گیا، حالانکہ سمجھنے کی بات یہ تھی کہ اگر یہ واقعہ تھا کہ انگریز پاکستان کا دشمن تھا تو اس کے ہم قوم سابق افسران جن کو بالآخر اپنوں کے یہاں ہی جاکر مرنا اور دفن ہونا تھا، کیسے پاکستان کے قابل اعتماد دوست بن سکتے تھے؟ مگرہم کو اس بدیہی حقیقت کے باوجود ان پر اعتماد کرنا ہی پڑا تھا۔ماضی کو فراموش کرکے اگر وہ چاہتے تھے کہ پاکستان کی خدمت کریں تو ان کے لئے خدمت کے مواقع پیدا کئے جاتے۔ فارسی شاعر نے کیا اصول بتایا ہے۔

دریسِ وفا اگر بود زمزمہ مجتبے

جمعِ بہ مکتب ِ آورد طفل گریز پائے دا

سیاسی کار وبار میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے ماضی کو فراموش کرنا ضروری ہوتا ہے اور ماضی کو فراموش کرنا سیاست کے مردوں کاکام ہوتاہے، سیاسی ہیجڑوں کا نہیں پچھلی عالمی جنگ کے دوران اگر چرچل اٹیلی کا تعاون حاصل نہ کرتے یا سابق باغی امریکیوں کی سابق نوآبادیاتی لڑائیوں اور بغاوتوں کی یادوں میں ڈوبے ہوئے رہتے تو برطانیہ کبھی کامیاب نہیں ہوتا۔ اسی طرح اگر چرچل اسٹالین جیسے دشمن سے ہم آغوش ہونا گوارا نہ کرتے تو ہٹلر کے مقابلے میں کس طرح بازی جیت سکتے؟

خود ہمارے قائداعظم ؒ سیاسی معاملات میں کس قدر نہ وسعت قلبی دکھا رہے تھے؟

یہ قیوم خان مرحوم کون تھے، جوبعد میں مسلم لیگ کے جرنیل تھے اور ایک قیمتی اثاثہ بنے رہے؟ قائداعظمؒ کے خلاف کتابچہ ’’گولڈ اینڈ گن‘‘ چھاپنے والے اور سنٹرل اسمبلی کانگریس پارٹی کے سابق ڈپٹی لیڈر!

سرغلام حسین مرحوم و مغفور کو قائد نے پہلے سندھ کا چیف منسٹر اور بعد میں مختار کل گورنر بنایا، مگریہ انعامات ملنے سے پہلے ان کا کردار (مسلم لیگ سیاست کے سیاق و سباق میں ) کیا رہا تھا؟… 1938ء میں وہ مسلم لیگ اسمبلی پارٹی کے ممبربنے رہے ۔ اگلے سال جب قائداعظم اور مرحوم اللہ بخش کے دوران تصادم زوروں پرتھا تو سرغلام حسین مرحوم موقع سے فائدہ اٹھاکر اسی اللہ بخش سے ہوم منسٹری لے کر مسلم لیگ کو کوسنے میں مصروف ہوگئے۔ بہ حیثیت ہوم منسٹر وہ منزل گاہ کی تحریک کے دوران مسلم لیگی لیڈروں اورورکروں کو کچلنے کی خوب کوشش فرماتے رہے، مگر ماضی میں ایسے ریکارڈ کے باوجود، جب ضرورت پیش آئی تو ہمارے قائدنے عفو و درگزر سے کام لیتے ہوئے پہلے ان کو مسلم لیگ کا صوبائی وزیراعلیٰ اور بعد میں سندھ کا گورنر بنادیا۔

پیرزادہ عبدالستار مرحوم جب تک پاکستان نہیں بنا تھا ،مسلم لیگ اورقائد کے ذاتی مخالف خان بہادر اللہ بخش مرحوم کے دست راست اورپارلیمانی سیکرٹری بنے رہے، مگر جب پاکستان بن گیا اور پیرزادہ مرحوم نے سجدہ سہو پر آمادگی ظاہرکی تو ان کو فوراً سینے سے لگا لیاگیا اورقائد اعظم ؒ نے ماضی کی جملہ جراحتیں بھول کر براہ راست ان کو اپنی کابینہ میں لے لیا اور یقینا مستقبل میں قابل اعتماد پاکستانی ثابت ہوئے۔

تعجب ہے کہ عبدالغفار خان کے بارے میں دوسرا پیمانہ ملحوظ رکھا گیا اور ان کو قائداعظم کے قریب نہیں آنے دیاگیا۔ وہی اپروج اورنیت کے صحیح ہونے کی بات تھی۔ہرانسان کا اپنا مقام ہوتا ہے۔ ہرکام کا ایک طریقہ ہوتا ہے۔ ہر بھینس کو آپ ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کی کوشش نہیں کرسکتے، اپنے وفادار سے وفادار بھائی کوبھی اگر آپ صبح و شام اٹھتے بیٹھتے غدار کہتے رہیں گے۔ توکس منہ سے آپ اس سے وفاداری یا نفرت کی توقع رکھ سکیں گے؟

خان عبدالغفارخان نے توغالباً اس وجہ سے بھی جلاوطنی اختیار کر لی کہ انہوں نے شروع کا سیاسی منظر دیکھ لیا تھا کہ یہاں سیاست دانوں کی کس طرح آبروریزی ہوتی ہے اور اپنے اپنوں سے اور مسلم لیگی مسلم لیگیوں سے کیاسلوک کررہے ہیں ۔ ہوسکتا ہے کہ انہوں نے نظیری کا یہ شعر بھی پڑھ لیا ہو۔

تو بخود چہ کردی ایدل کہ ہما کنی نظیری

بخدا کہ واجب آمدز تو احتراز کردن

سرحد کے قیوم خان مرحوم کو اس وقت تک مجبوراً سرپراٹھائے رکھا جب تک سرحد کے حالات غیر تسلی بخش رہے۔ مگر جیسے ہی حالات میں سکون پیدا ہوا۔ بڑی حکمت عملی سے اس کووہاں سے نکال کر اس کی جگہ پر ایک پولیس ا ٓئی جی کو سرحد کا چیف منسٹر بنادیاگیا۔قیوم خان مرحوم کچھ عرصہ کیلئے مرکزی وزیر بھی رہے مگر آخر میں ان کو جیل میں ڈال دیا گیا جہاں ان کو دل کی بیماری لگی جو ان کی موت کا باعث بنی۔

چوہدری خلیق الزمان مرحوم کا احیاء ملت اسلامیہ کے سلسلہ میں سترسال پر پھیلا ہوا کام کون بھول سکتا ہے؟ قرارداد لاہور کے موید یہی شخص تھے۔ یوپی کے ہندوسیاسی درندوں کے مقابلے میں یہی مسلمان لیڈر سالہاسال ڈٹا رہا۔ پاکستان بننے کے بعد ایک خاص مقصد سے اس کو مسلم لیگ کا صدر بنایاگیا وہ جیسے ہی پورا ہوگیا، اس کے گھر پرکراچی کے ’’اوباشوں‘‘ سے بصورت جلوس یورش کرائی گئی اور اس کو مستعفی ہونے پر مجبور کیاگیا۔ ایک عرصہ تک وہ راندہ ءدرگاہ رہے، پھرگورنر جنرل غلام محمد مرحوم خود کو ہی چوہدری صاحب کے حالِ زار پررحم آگیا اور اس کو عارضی طور پر گورنر مشرقی پاکستان، اور بعد میں سفیربنانا گوارا کرلیا، وہاں سے سبکدوشی کے بعد وہ کئی سال بیکار پڑے رہے۔ آخر فرشتہ اجل ہی نے ایسی بے مقصد زندگی سے اس کو نجات دلائی۔

جو کراہتا تھا تمام شب وہ غریب جوش تو مر گیا!

اسی سلسلہ عالیہ سیاسیہ کی ایک زرین کڑی مرحوم و مغفور نواب اسماعیل خان کا وجود مسعود تھا۔ ان جیسا سنجیدہ تجربہ کار اوردانشور ، مدبر صرف کسی خوش نصیب قوم کے حصے میں آسکتا تھا۔ اگر وہ یہاں تشریف لانے پرآمادہ کئے جاسکتے تو پاکستان کی نیک نامی میں چارچاند لگ جاتے، مگر یہاں کی لتاڑ پچھاڑ کی شہرت سن کر انہوں نے عافیت اس میں سمجھی کہ وہ بقیہ زندگی دشمنوں کے ملک میں ہی بسر کریں۔

ایک بار اتفاقیہ میری ان سے ملاقات ہوئی تو میں نے پوچھا کہ انہوں نے اپنے ہاتھوں سے بنائے ہوئے اس ملک میں آکر رہنا کیوں گوارا نہیں کیا؟ جواب کچھ نہیں دیا صرف اپنےدل نشین انداز میں مسکراتے رہے ۔ظاہر تھا کہ وہ بزبان بے زبانی کہنا چاہتے تھے کہ جس ملک میں سیاست دانوں کو نوکر شاہی کے سانپ کاٹ رہے ہوں وہاں آکر وہ اپنے کو ان کے ہاتھوں بڑھاپے میں نے آبرو کیوں کرواتے ۔

(انتخاب: پیر علی محمد راشدی سے ایک باب جو اگست 1982ء میں روزنامہ جنگ میں شائع ہوا تھا)