رنگ ونسل کی برتری کا نظریہ

August 18, 2022

تحریر: کونسلر حنیف راجہ ۔۔۔۔گلاسگو
ایشیائی، کالے اور رنگ دار افراد پر سفیدفام اقوام نے 200سال تک حکمرانی کی اور ان پر معاشی، سیاسی، سماجی اور فوجی بالادستی ہونے پر گوروں میں اپنے رنگ و نسل کی برتری کا نظریہ پیدا ہوگیا، اب اگرچہ صورت حال بدل چکی ہے اور گوروں کی وہ نسل جس نے نوآبادیاتی نظام کا دور دیکھا تھا، ان میں محدود سے چند افراد ہی زندہ رہ گئے ہیں لیکن بحیثیت قوم ابھی بہت سے افراد کے ذہنوں اور رویوں میں غیر شعوری طور پر پرانا طرز عمل موجود ہے اور اس کی ایک وجہ یہ بھی بنی کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد آکر جو لوگ برطانیہ آکر آباد ہوئے وہ تقریباً تمام کے تمام غیر تعلیم یافتہ اور مزدور پیشہ افراد تھے جس کی وجہ سے گوروں میں اپنی سپر میسی کے جراثیم بدستور تقویت پاتے رہے اور اس کا مظاہرہ ہم ابھی تک اپنی روزمرہ زندگی میں دیکھتے ہیں، اگرچہ60ء کی دہائی میں بعض قوانین تبدیل کیے گئے اور پھر لندن میں اسٹیفن لارنس کے قتل کی رپورٹ کے بعد جو انکوائری ہوئی جس میں پولیس کو ادارتی طور پر نسل پرست قرار دیا گیا تھا، اس کے بعد تقریباً تمام محکموں میں کسی حد تک تبدیلیاں بھی آئیں لیکن ان میں اصلاح کی رفتار انتہائی سست رہی، ماضی میں ایشیائیوں کی پہلی نسل جوکہ معاشی پناہ گزین تھی اس کو اگر کوئی نسل پرست گورا راہ چلتے بغیر وجہ کے چند گالیاں بھی سنا دینا تو وہ خاموشی سے سر لپیٹ کر چلتے رہتے اور یہی ظاہر کرتے کہ انہوں نے سنا ہی نہیں لیکن اب برطانیہ میں ہماری چوتھی نسل جوان ہورہی ہے جوکہ زندگی کے کسی بھی میدان، تعلیم، ذہانت میں ان گوروں سے ہرگز کم نہیں، وہ نسل پرستی کے کسی بھی قسم کے رویئے کو ہرگز تسلیم کرنے کو تیار نہیں، چند ہفتے پہلے کی بات ہے کہ میری بیٹی دوران سفر ایک سروس اسٹیشن پر رکی تو ساتھ کی میز پر بیٹھے ایک گورے خاندان نے اس کے بچوں کے مہذبانہ رویئے کے متعلق کہا کہ تم پاکستانیوں کے بچے تمہارے کنٹرول میں ہیں جس پر میری بیٹی نے اس کو کہا کہ تمہارے الفاظ سے مجھے نسل پرستی کی بو آتی ہے، اب ہم اس ملک کے شہری ہیں، میرے اور تمہارے حقوق برابر ہیں، یہ ملک تمہارا بھی اتنا ہی ہے جتنا کہ میرا ہے، اس ملک کے دفاع کے لیے پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں لاکھوں کی تعداد میں ایشیائیوں نے اپنی جانوں کی قربانیاں دیں اور بعض نے اپنی کارکردگی سے وکٹوریہ کراس اور دیگر بے شمار اعزازات حاصل کئے جس پر اس گورے نے معذرت کی، اب اگرچہ نسل پرستی کو ایک جرم قرار دے دیا گیا ہے اور عوام پر بھی زور دیا جاتا ہے کہ وہ کسی بھی قسم کی نسل پرستی کی فوراً پولیس کو اطلاع کریں لیکن چونکہ ان رپورٹس کا کوئی خاص نتیجہ برآمد نہیں ہوتا اس لیے اکثریت ابھی تک رپورٹ درج کرانے کو صرف اپنے وقت کا ضیاع سمجھتی ہے، ویسے بھی معاشرے اور دفاع میں اب کھلی کے بجائے خفیہ نسل پرستی پائی جاتی ہے۔ اس وقت اسکاٹ لینڈ میں نسلی اقلیتوں کا کوئی فرد جج نہیں، کسی یونیورسٹی یا کالج کا وائس چانسلر نہیں، پولیس میں کوئی چیف کانسٹیبل نہیں اگرچہ زبانی کلامی ہر حکومت کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ ہم معاشرے میں کسی بھی قسم کی نسل پرستی ہرگز برداشت نہیں کریں گے لیکن یہ صرف زبانی کلامی باتیں ہیں،عملی طور پر صورت حال تقریباً پہلے جیسی ہی رہتی ہے۔ مجھے اچھی طرح علم ہے کہ برطانیہ کے پہلے مسلمان ایم پی چوہدری محمد سرور کی انتخابی مہم کے دوران ہمیں کس کس قسم کی نسل پرستی اور سازشوں کا سامنا کرنا پڑا تھا، حال ہی میں اسکاٹ لینڈ کی کرکٹ کے دو کھلاڑیوں ماجد حق اور قاسم شیخ نے کرکٹ بورڈ میں نسل پرستی کے متعلق جو خوفناک واقعات بیان کیے ہیں، ان کو سن کر یقین نہیں آتا کہ اکیسویں صدی میں بھی ایک ایسے معاشرے اور ملک میں جو برابری اور مساوات کا دعویٰ کرتا ہے، ایسے واقعات رونما ہوسکتے ہیں اور کھلی نسل پرستی کرنے والے افراد اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں، ان دونوں کھلاڑیوں کی رپورٹ پر جب تحقیقات شروع ہوئیں تو وہ سب کچھ بے نقاب ہوگیا جس پر میں عرصہ دراز سے توجہ مبذول کراتا رہا ہوں۔ کرکٹ بورڈ کے خلاف تحقیقاتی کمیشن کی انکوائری میں نسل پرستی کے448کیسز ثابت ہوگئے جب کہ مزید68پر تفتیش جاری ہے، انکوائری کمیٹی نے اسکاٹ لینڈ کے کرکٹ بورڈ کو ادارتی طور پر نسل پرستی قرار دیا اور ان سے انتظام چھین کر ایک نیا کرکٹ بورڈ بنانے کا حکم دیا جس میں25فیصد نسلی اقلیتوں کے افراد شامل کرنے کی ہدایت کی گئی، بورڈ کے حکام کو چونکہ اپنے کرتوتوں کا علم تھا، اس لیے انکوائری رپورٹ شائع ہونے سے ایک دن قبل ہی انہوں نے اپنے استعفیٰ پیش کردیئے اور متاثرین سے غیر مشروط معافی طلب کی، اس موقع پر میں انسانی حقوق کے وکیل عامر انور کو خراج تحسین پیش کروں گا جنہوں نے یہ کیس اپنے ہاتھ میں لیا اور منطقی انجام تک پہنچایا۔ قبل ازیں یارکشائر کرکٹ کلب نے پاکستان نژاد کھلاڑی عظیم رفیق نے بھی تنگ آکر بورڈ کے خلاف شکایت کی تھی، ان کی انکوائری رپورٹ یارکشائر کرکٹ کلب میں بڑی تبدیلیوں کا باعث بنی۔ کئی اعلیٰ عہدیداروں نے استعفٰے دیئے اور ہیڈ نگلے کرکٹ کلب سے بین الاقوامی میچوں کی میزبانی چھین لی گئی، ساتھ ہی انگلش اور ویلز کرکٹ بورڈز نے نسل پرستی سے نمٹنے کے لیے ایک12نکاتی منصوبہ تیار کیا۔ اس وقت بے شمار کونسلوں اور دیگر سرکاری محکموں میں نسلی اقلیتوں کو اہلیت کے باوجود ملازمتیں اور نمائندگی نہیں ملتی۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہر کونسل اور محکمے میں انٹرویو کرنے والے بورڈ میں نسلی اقلیتوں یا بیمBAMکا نمائندہ شامل ہو تاکہ ہمیں پتہ چل سکے کہ ان کو ملازمت نہ دینے کی وجہ کیا ہے، آخر میں، میں ایک بات زور دے کر کہنا چاہوں گا کہ برطانیہ اب نہ صرف ہمارا، ہمارے بچوں، بلکہ ان کی بھی آئندہ نسلوں کا ہے، اس کی ترقی و کامیابی ہی ہماری ترقی و کامیابی ہے، ہماری منزل ایک ہے، ہم نے مل جل کر ایک ایسا منصفانہ معاشرہ تشکیل دینا ہے جس میں مساوات ہو، بھائی چارہ ہو اور سب ہی کو ان کے جائز حقوق حاصل ہوں۔