رمیز راجہ آج بھی ایسوسی ایشن کو ایڈہاک سیٹ اپ پر چلا رہے ہیں

September 06, 2022

پروفیسر اعجاز احمد فاروقی

سابق رکن پی سی بی گورننگ بورڈ

وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے ڈپارٹمنٹل ٹیموں کی بحالی کی اچھی خبر نے کھلاڑیوں اور ان کے اہل خانہ کو خوشگوار حیرت میں مبتلا کردیا۔حکومت کی تبدیلی کے بعد اس جانب پیش رفت کی توقع تھی۔اب یہ اعلان تو ہوگیا لیکن اس جانب عملی کام کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ بعض دفعہ سیاست دان اعلان تو کردیتے ہیں لیکن اس پر عملی فیصلہ کرنا مشکل ہوتا ہے۔

ایسے وقت میں جبکہ ملک میں معاشی صورت حال خراب ہے حکومت کو اور خاص طور وزارت کھیل کو وزیر اعظم کے اعلان پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ پرائیویٹ بینکوں اور کچھ پرائیویٹ اداروں کو اس جانب لانے کے لئے قائل کرنا ضروری ہوگا لیکن ڈپارٹمنٹل اسپورٹس بحال ہونے سے کئی کھلاڑیوں کے چہرے دوبارہ کھل اٹھے ہیں۔

1970کی دہائی میں عبدالحفیظ کاردار نے جب یہ سسٹم متعارف کرایا تھا اس کے بعد سے کھلاڑی کم عمر میں معقول تنخواہ پر ملازمت حاصل کر لیتے تھے اور انہیں بڑا کھلاڑی بنانے میں ڈپارٹمنٹس اہم کردار ادا کرتے تھے نے اپنی محنت سے ستاروں پر کمند ڈالی اور کامن ویلتھ گیمز میں کھلاڑیوں نے پاکستان کا نام روشن کیا۔ پاکستانی ایتھلیٹس نے شاندار کارکردگی دکھائی اور یہ کھلاڑیوں کے والدین کی دعاؤں کا نتیجہ ہے۔

ایتھلیٹس نے سبز ہلالی پرچم اور پوری قوم کا نام روشن کیا اور ملک کا نام روشن کرنے والوں پر قوم کو فخر ہے۔ 2018ء میں اقتدار میں آنے کے بعد عمران خان نے احسان مانی کو کرکٹ بورڈ کا چیئرمین مقرر کیا تھا لیکن ڈیپارٹمنٹل کرکٹ کو بند کرنے کے بعد پاکستان کرکٹ کے کلچر میں خلل ڈالنے پر ان پر کڑی تنقید کی گئی تھی۔ جب سابق چیئرمین سے پوچھا گیا کہ انہوں نے ڈیپارٹمنٹل کرکٹ کو بند کرنے کا قدم کیوں اٹھایا تو احسان مانی نے کہا کہ اگر ڈیپارٹمنٹل کرکٹ ہی آگے بڑھنے کا راستہ ہوتی تو دوسرے ممالک بھی اسے اپنا لیتے، لوگوں کو ان وجوہات کے بارے میں سوچنا چاہئے کہ انہوں نے ایسا کیوں نہیں کیا اور کیوں نہیں گیا۔

میں نے دیکھا ہے کہ فرسٹ ڈویژن کے کچھ کھلاڑی سیکنڈ ڈویژن میں شعبہ جات کی نمائندگی کر رہے تھے۔ احسان مانی نے کہا تھاکہ ڈیپارٹمنٹل کرکٹ بہت فراڈ تھا۔ ہمارے دو ڈویژن تھے اور فرسٹ ڈویژن کے کھلاڑی سیکنڈ ڈویژن میں اپنے ڈیپارٹمنٹ کی نمائندگی کر رہے تھے۔ میں احسان مانی کی اس بات سے قطعی اتفاق نہیں کرتا بلکہ نئے سسٹم کو متعارف تو کرادیا گیا لیکن آج بھی پی سی بی تین سال سے زائد عرصہ گذرنے کے بعد نئے آئین پر عمل درآمد نہیں کراسکا، احسان مانی تین سال پورے کرنے کے بعد اب رخصت ہوچکے ہیں۔ رمیز راجا نو ماہ قبل چیئرمین بن کر آئے تھے لیکن ایسو سی ایشن کو آج بھی ایڈہاک سیٹ اپ کے ذریعے چلا رہے ہیں۔

منتخب ایسوسی ایشن کے انتخابات دور دور تک دکھائی نہیں رہے ہیں اسکروٹنی کا عمل بھی مکمل نہیں ہوسکا۔ سب سے بڑھ کر نئے سسٹم میں کوئی ایسی انہونی چیز نہیں ہے جس سے ہم کہہ سکیں کہ واقعی ہم آسٹریلوی سسٹم میں داخل ہوگئے ۔آج بھی کھلاڑی انصاف کے حصول کے لئے پریشان ہیں۔ میرٹ کا وہ قتل عام ہورہا ہے جس مثال ملنا ہے۔ پی سی بی خود ہی پورے سسٹم کو چلا رہا ہے۔ اس سیزن میں انڈر19ٹورنامنٹ بارش والے موسم میں کرادیا گیا۔قومی ٹی ٹوئینٹی کرکٹ میںسندھ کی قیادت سرفراز احمد کی موجودگی میں سعود شکیل کو دے دی گئی سعود شکیل پاکستان کی ٹی ٹوئینٹی ٹیم کا حصہ ہی نہیں ہوتے اگر نوجوان کھلاڑی کو کپتان بنانے کی بات کی جارہی ہے تو سرفراز احمد پر چھری کیوں چلائی گئی دیگر ٹیموں میں ایسے کھلاڑی کپتان ہیں شائد کبھی پاکستان کی جانب سے ٹی ٹوئینٹی کھیل ہی نہ سکیں۔

اس سسٹم کو پسند نہ پسند کی نظر کردیا گیا ہے۔ وزیر اعظم کی جانب سے اعلان اتنا سادہ نہیں ہے جتنا دکھائی دیتا ہے۔ ڈپارٹمنٹل ٹیموں کو فرسٹ کلاس سسٹم میں لانے کے لئے پی سی بی آئین کو مکمل تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ پی سی بی موجودہ آئین کی شق16 اور 17 کے مطابق ڈپارٹمنٹ پاکستان میں ٹورنامنٹ کھیل سکتے تھے لیکن اب فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلنے کا استحقاق صرف چھ ایسوسی ایشن کے پاس ہے ۔ پی سی بی نے عمران خان دور میں آئین تبدیل کرکٹ سسٹم کو آسٹریلوی طرز پر لانے کا اعلان کیا تھا اس کے بعد ملک کے تقریبا تمام ڈپارٹمنٹس نے اپنی ٹیموں کو بند کردیا تھا جس سے ہزاروں موجودہ اور سابق کھلاڑی بے روز گار ہوگئے، کرکٹ بورڈ نے ڈومیسٹک کرکٹ میں دو سو اور پاکستانی ٹیم میں 33 کھلاڑیوں کو کنٹریکٹ دیا تھا۔

پاکستان کرکٹ بورڈ کے آئین کو ایک بار پھر تبدیل کرکے ڈپارٹمنٹس کی ٹیمیں فرسٹ کلاس کرکٹ کھیل سکتی ہیں ۔اس لئے پرانا سسٹم بحال کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا۔ اس جانب ہنگامی اقدامات کرکے کھلاڑیوں کو نوکریاں مل سکتی ہیں۔چار دہائیوں کے بعد ملک سے ڈپارٹمنٹل کرکٹ کو مکمل ختم کردیا گیا تھا اور تمام ٹیمیں بند ہوگئی تھیں۔ پاکستان کرکٹ بورڈ نے ڈومیسٹک کرکٹ کو پروفیشنل انداز میں چلانے کے لئے ڈپارٹمنٹل ٹیموں کا کردار ختم کرنے کا دعوی کیا تھا، فرسٹ کلاس میں ڈپارٹمنٹل ٹیموں کو ختم کرکے پی سی بی آئین کو ایسوسی ایشن میں تبدیل کردیا گیا۔

یہ کہا گیا تھا کہ گیارہ ڈپارٹمنٹ چھ صوبائی ٹیموں کو سپورٹ کریں گے، ملک کے گیارہ ڈپارٹمنٹ واپڈا،سوئی ناردرن، سوئی سدرن،اسٹیٹ بینک، سول ایوی ایشن، پاکستان ریلویز، پی آئی اے، زرعی ترقیاتی بینک، پی ٹی وی، خان ریسرچ لیبارٹری اور نیشنل بینک اب صوبائی ٹیموں اور ان کے کھلاڑیوں کو اسپانسر کریں گے لیکن ایسا بھی نہ ہوسکا۔ وزیر اعظم کے اعلان پر کھلاڑی وقتی طور پر خوش ضرور ہیں لیکن اس بارے میں قانون سازی کرنے اور پی سی بی آئین کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ دیکھنا یہ ہے یہ اعلان کب کھلاڑیوں کے چہروں پر مسکراھٹ لوٹاتا ہے۔