سیلاب کی تباہ کاریاں: فوری الیکشن ناممکن

September 08, 2022

ملک کا سیا سی منظر نامہ حالیہ بارشوں اور سیلاب کی تباہ کا ریوں کی وجہ سے پس منظر میں چلا گیا تھا۔ سیا سی اور پار لیمانی سرگرمیاں مو قوف کر د گئی تھیں ۔ پوری قوم اس وقت فکر مند ہے کیونکہ ملک بھر میںبالخصوص ‘ بلوچستان ‘ سندھ ‘خیبر پختونخوا اور جنوبی پنجاب میں وسیع پیمانے پر تبا ہی ہوئی ہے۔ سینکڑوں اموات ہوئی ہیں ۔ لاکھوں مکان بہہ گئے ۔ بجلی کی ترسیل ‘ ٹیلیفون اور مواصلات کا نظام تباہ ہوگیا ہے۔وفاقی اور متعلقہ صو بائی حکومتوں کا تمام تر فوکس ریلیف کی کاروائیوں پر ہے۔وزیر اعظم شہباز شریف خود تمام متاثرہ علاقوں کے دورے پر گئے ہیں۔

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی دورے کئے ہیں۔ پاک فوج کی امدادی ٹیمیں امدادی کاموں میںمصروف ہیں لیکن سابق وزیر اعظم عمران خان سیاست سیاست کھیل رہے ہیں ۔ وہ چاہتے ہیں کہ جلد از جلد انتخابات کا اعلان ہو حالانکہ سیلاب کی وجہ سے ملکی حالات اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ فوری طور پر الیکشن کا انعقاد ممکن ہو سکے۔ وہ اسی طرح اپنے جلسوں میں مصروف ہیں جیسے نارمل حالات میں ہوتا ہے۔ایک ٹیلی تھون کرکے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اپنا فرض ادا کردیا۔عمرانخان ایک بڑی سیا سی جماعت کے سر براہ ہیں۔

سابق وزیر اعظم ہیں ۔ اتنے بڑے عہدے پر چار سال فائزرہنے کے بعد بھی ان کی سیا سی پختگی اور با لغ نظری کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے نہ صرف قدرتی آفت کے موقع پر قومی یکجہتی اور اتحاد کی فضا پیدا کرنے کی بجائے الٹا ملک کے سیا سی اور مجموعی ماحول کو تلخ اورآلودہ کردیا۔ وہ اپنے مخالف سیاستدانوں کو تو آڑے ہاتھوںلیتے ہیں ۔ان کے بارے میں الزام تراشی اور ان کے ناموں کو بگاڑ کر انجوائے کرنا ان کی عادت ہے لیکن اب فیصل آ باد کے جلسے میں انہوں پاک فوج کے قومی ادارے کے بارے میں جو ریمارکس دیے اور آرمی چیف کی تقرری کے ایشو کے کھلے عام زیر بحث لائے اور اسے متنازعہ بنا نے کی کوشش کی وہ نہایت ہی قابل افسوس بلکہ قابل مذمت ہے۔

پہلی با ت تویہ ہے کہ آرمی چیف کی تقرری کو جلسوں میں زیر بحث لانا ہی غلط اور نامناسب بات ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس انداز میںبات کرنا نا قابل قبول ہے کہ نواز شریف اور آصف زرداری الیکشن سے اسلئے بھاگ رہے ہیں کہ یہ نومبر میں اپنی مرضی کا آرمی چیف لگا نا چاہتے ہیں۔ ان کی پوری کوشش ہے کہ ایسا آرمی چیف لائیں جو ان کے حق میں بہتر ہو۔ یہ ڈرتے ہیں کہ تگڑا اور محب وطن آرمی چیف آگیا تو وہ ان سے پوچھے گا کہ انہوں نے پیسہ چوری کیا ہوا ہے۔ عمرانخان نے یہ غیر ذمہ دارانہ بیان دے کر پوری قوم اور مسلح افواج کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے۔

ایک ایسے وقت میںجب پاک فوج سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں امدادی کا روائیوں میں مصروف ہے ۔ چھ ستمبر کے یوم دفاع کی تقریبات بھی اس قدرتی آفت کی وجہ سے منسوخ کی گئی ہیں لیکن قوم اپنے شہیدوں اور غازیوں کی ملک کے دفاع کیلئے قربانیوں کو سلام پیش کر رہی ہےعمرانخان نے عسکری قیادت کے بارے میں بالخصوص ان کے جذبہ حب الوطنی کے بارے میں سوالات بلکہ شکو ک وشبہات پیدا کرنے کی کوشش کی۔ وزیر اعظم شہباز شریف سمیت ملک کی تمام سیا سی قیادت نے عمران خان کے ا س بیان کی مذمت کی ہے۔ عسکری قیادت نے بھی اس غیر ذمہ دارانہ بیان پر اپنا شدید ردعمل ظاہر کیا۔

ترجمان پاک فوج نے سابق وزیراعظم عمران خان کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی کے پاک فوج کی سینئر قیادت کے بارے میں ہتک آمیز اور انتہائی غیر ضروری بیان پر پاکستان آرمی میں شدید غم و غصہ ہے۔پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) سے جاری بیان کے مطابق فیصل آباد میں ہونے والے سیاسی جلسے کے دوران چیئرمین پی ٹی آئی کے پاک فوج کی سینئر قیادت کے بارے میں ہتک آمیز اور انتہائی غیر ضروری بیان پر پاکستان آرمی میں شدید غم و غصہ ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ ایک ایسے وقت میں پاک فوج کی سینئر قیادت کو متنازع بنانے کی کوشش انتہائی افسوسناک ہے جب پاک فوج، قوم کی سیکیورٹی اور حفاظت کے لیے ہر روز جانیں قربان کر رہی ہے۔آئی ایس پی آر نے کہا کہ آرمی چیف کی تعیناتی کی آئین میں واضح طریقہ کار کی موجودگی کے باوجود سینئر سیاستدانوں کی جانب سے اس عہدے کو متنازع بنانے کی کوشش انتہائی افسوسناک ہے۔ پاک فوج کی سینئر قیادت کی اہلیت اور حب الوطنی اُن کی دہائیوں پر محیط بے داغ اور شاندار عسکری خدمات سے عیاں ہے۔ترجمان پاک فوج نے مزید کہا کہ پاکستان آرمی، اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی بالادستی کے عزم پر قائم ہے۔

آئی ایس پی آر کے علاوہ وزیراعظم سمیت ملک کی سیاسی قیادت اور محب وطن حلقوں نے بھی عمران خان کے بیان کی مذمت کی ہے۔ آرمی چیف کی تقرری کے بارے میں غیر ذمہ دارانہ بیان دے کر دراصل عمران خان نے اپنے پائوں پر خود ہی کلہاڑی چلا لی ہے۔اب وہ نا قابل اعتبار ہی نہیں سیکورٹی رسک بن گئے ہیں۔ انہوں نے اپنا سیا سی مستقبل تاریک کر لیا ہے۔ عمران خان نے اپنے قول و فعل سے یہ ثابت کیا ہے کہ انہیں سب سے پہلے اپنا سیا سی مفاد مقدم ہے اور اس کیلئے وہ ہر سطح تک جاسکتے ہیں ۔پہلی بات تو یہ ہے کہ ابھی موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جا وید باجوہ کی مدت نومبر کے آخری ہفتے میں ختم ہوگی ۔ ستمبر کے پہلے ہفتے میں اس بحث کو چھیڑنا ہی بلا جواز ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ ملک میں الیکشن کا آرمی چیف کی تقرری سے کیا تعلق ہے۔ یہ عمران خان ہی ہیں جو بار بار یہ کہتے ہیں کہ نومبر سے پہلے ملک میں الیکشن ضروری ہیں ۔ایک جانب سیاستدان یہ کہتے ہیں کہ فوج کو سیا ست سے دور رہنا چاہئے دوسری جانب خود ہی جلسوں میں آرمی چیف کی تقرری کو سیا ست سے جوڑتے ہیں جو افسوسناک طرز عمل ہے۔ پاک فوج کے ترجمان با رہا یہ بات کہہ چکے ہیں کہ فوج کو سیاسی معاملات سے دور رکھا جا ئے لیکن عمران خان باز آنے کو تیار نہیں ہیں۔ پہلے وہ با ر بار نیوٹرل کی گردان بولتے رہے اور اب وہ کھلے عام آر می چیف کو متنازعہ بنا نے کی کوشش کر رہے ہیں۔ آئین میں آرمی چیف کی تقرری کا واضحطریقہ کار درج ہے۔

موجودہ آرمی چیف کی تقرری سا بق وزیر اعظم نواز شریف نے کی تھی۔ان کی مدت ملازمت میں توسیع سابق وزیر اعظم عمران خان نے کی تھی۔عمرانخان نے جنرل باجوہ کے بارے میں جو تعریفی کلمات کہے وہ ریکارڈ پر ہیں۔ ان کی ملازمت میںتوسیع کیلئے انہی کی حکومت نے پا ر لیمنٹسے قانون منظور کرایا۔اب بھی نومبر میں نئے آرمی چیف کی تقرری موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف کا آئینی اختیار ہے۔

تقرری کا یہ عمل مروجہ طریقے سے عمل میں آ جا ئے گا لیکن بہر حال نئے آرمی چیف کی تقرری اس پینل سے کی جاتی ہے جو جی ایچ کیو اور وزارت دفاع کی جانب سے وزیر اعظم کو بھجو ایا جا تا ہے۔ تمام لیفٹنٹ جنرل جو پینل میں شامل ہوتے ہیں سب با صلاحیت اور اہل ہوتے ہیں۔ ان کی حب الوطنی شک وشبہ سے بالاتر ہوتی ہے۔ کسی کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ تگڑ ایا محب وطن نہیں ہے ہر گز منا سب بات نہیں ہے۔ ایسی باتیں ملک و قوم کے مفاد میں نہیں ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اب عمرانخان یہ طے کریں گے کہ کون سا لیفٹنٹ جنرل محب وطن اور تگڑا ہے۔عمران خان کیلئے اب بھی وقت ہے کہ وہ اپنی انا کے خول اور خبط عظمت کے فریب سے باہر نکلیں۔

قوم کو تقسیم کرنے کی پالیسی ترک کردیں ۔ سیا ست میں ہار جیت ہوتی ہے۔ اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ شہباز شریف ایک آئینی طریقے سے ملک کے وزیر اعظم منتخب ہوئے ہیں ۔ عمران خان کے اندر اتنا حوصلہ ہو نا چاہئے تھا کہ وہ اسمبلی میں بیٹھتے اور اپو زیشن لیڈر کا مثبت و تعمیری آئینی کردار ادا کرتے۔ انہیں موجودہ اسمبلی صرف اسلئے پسند نہیں ہے کہ اس نے ان کی بجا ئے شہباز شریف کو کیوں وزیر اعظم منتخب کیا ہے۔ وہ اسمبلی میںجانے کو تیار نہیں اور ضمنی الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں جو کھلا تضاد ہے۔

وہ اپنے مہم جو اور نادان مشیروں کے مشورے پر جا رحانہ پا لیسی اپنا کر جس راستے پر چل نکلے ہیں وہ انہیں بالآ خر بند گلی میںلے جا ئے گا۔ انہیں توشہ خانہ کیس اور توہین عدالت کیسز میںنا اہلی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔ممنوعہ فنڈنگ کیس میں ایف آئی اے کی تحقیقا ت میں بھی کھرا عمران خان تک پہنچ چکا ہے۔عمران خان صرف مقبولیت کے زعم میں ہیں لیکن آنے والے دن ان کیلئے مشکلات لانے والے ہیں اور یہ مشکلات ان کی اپنی زبان کی پیدا کردہ ہیں۔