علم کے طلبگاروں کو نصیحت بھرا خط

September 10, 2022

پیارے بچوں، طالب علموں، مستقبل کے معماروں، تم وطن کی امانت ہو، والدین کی آنکھوں کا نور ہو، اساتذہ کا فخر ہو۔

قوموں کا مستقبل تم ہی سے وابستہ ہے، امیدوں کے دیے تم ہی سے روشن ہیں… تم وہ آئینہ ہو جو معاشرے کی تصویر پیش کرتا ہے، اس کی صحیح عکاسی کرتا ہے۔

تم ہی عمارت کا بنیادی ستون ہو، تمہاری اہمیت، تمہارا وجود، تمہاری خداد صلاحیتیں، سرزمین وطن عزیز کی قیمتی امانت ہیں، تمہارا اٹھنے والا ہر قدم معاشرے کو یا تو تنزلی کی سمت لے جائے گا یا ترقی کی جانب ، اپنے قدم اٹھانے سے پہلے لمحہ بھر رک جانا، تھم جانا ،لمحہ بھر خیال کر لینا، اپنی اس ذمہ داری کا جو تم پر وطن کے امین ہونے کی صورت میں سونپ دی گئی ہے۔ کہیں تم خیانت تو نہیں کر بیٹھے؟ ایک دوسرے کو نیچا دیکھانے کے چکر میں معاشرے کو حسد، جلن ، غصے، انتقام کا نشانہ تو نہیں بنا رہے؟ معیار آدمیت تو تباہ نہیں کر رہے؟

اپنی اقدار و روایات سے ہٹ کر مغربی بود باش تو اختیار نہیں کر بیٹھے؟ محنت کو چھوڑ کر تساہل پسندی کا شکار تو نہیں بن بیٹھے؟ آئو ذرا سی دیر کو رک کر سوچو۔ اپنے دل کو ٹٹولو، اپنے مقصد زندگی کو جانچو، اور پھر علم کی شمع جلا کر اپنے حصے کا دیا روشن کرو، اپنے کمزور ایمان کی آبیاری کر کے اسے مضبوط و توانا کرو اور آہنی چٹانی کے مانند ناقابل تسخیر بن جائو،جو اپنے مفاد کے حصول کے لئے غیروں کے آگے سر نہیں جھکاتا، جو نہ دبتا ہے، نہ ڈرتا ہے۔ تم امن کے پیامبر بنو، نظریہ کی پاسداری کرو، اپنی بنیادوں کی حفاظت کرو، تمہاری بنیاد اسلام ہے۔

تمہاری رگوں میں مسلمان ماں کا خون دوڑ رہا ہے، تمہارے کانوں میں اللہ اکبر کی صدا جب ڈالی گئی تو تم نے دنیا میں آنکھ ہی کھولی تھی، اس صدا کا جواب تمہاری موت کے بعد کی نماز ہے، پھر وہ نظریہ وہ عقیدہ اسلام جو تمہاری رگوں میں بہتے خون کی مانند دوڑ رہا ہے اسے بھلا کیسے فراموش کر پائو گے، نظریہ سے دوری رب سے دوری ہے، اپنے مقام سے دوری ہے، اپنی بقا و آزادی کا سودا ہے… توانا جذبوں اور پر عزم حوصلوں کے ساتھ مقصد زندگی کا سچا عشق، اور اس کو پالنے کی تڑپ پیدا کرو اور معاشرے میں چھائی بے چینی، منافقت، دورنگی ، اغیار کی آندھی تقلید سے بچو… رزق حلال، سچائی، عہد کی پاسداری، ساتر و قومی لباس ، قومی زبان اور اپنی اصلاح آ کے تصور کو اجاگر کرتے ہوئے علم کی درسگاہوں میں نور ایمانی کے چراغ جلاؤ۔ (عالیہ شمیم)