سیلاب لے گیا میرے تن کا لباس بھی

September 10, 2022

محمد علی سحر

ملک و قوم پر جب بھی کوئی آفت آئی چاہے وہ سیلاب ہو یا زلزلہ یا پھرکوئی اور قدرتی آفات، نوجوانوں کا جذبہ ،لگن،محنت اور اپنی قوم کے لیے خدمت کرنے کا شوق قابل دید و ستائش رہا ہے، ان میں کسی بھی قسم کے حالات کا مقابلہ کرنے کی بھرپور صلاحیت ہے متعدد مواقعوں پر پاکستانی نوجوانوں نے اپنے آپ کوثابت بھی کیا ہے کہ وہ ملک وقوم کی خدمت کرنے کےلئے ہراول دستے کا کردار ادا کرنے سے دریغ نہیں کریں گے۔ جب دل میں قوم کی خدمت کاجذبہ اور کچھ کرنے کاعزم ہو تو پھر مشکل وناممکن کام بھی ممکن ہوجایاکرتے ہیں۔

آج کے پُرآشوب دور میں جب سیلاب کی تباہ کاریوں نے لوگوں کو بے آسرا بے گھر کر دیا ،بہت سے لوگ اپنی جانوں سےگئے، فصلیں تباہ ،مویشی پانی کے بہاؤ میں بہہ گئے عوام تلخیوں اور پریشانی کا شکار ہو گئے ،ایسے میں قابل تحسین ہیں وہ نوجوان جو لوگوں کے دُکھ درد سمیٹنے اور ان میں آسانیاں بانٹنے کے لئے عملی طور پر سرگرم نظر آئےاور بے غرض ہو کر خدمت خلق کا کام سر انجام دیا۔ آج بھی بہت سے نوجوان اپنی مدد آپ کے تحت سیلاب زدگان کی مدد کر رہے ہیں۔

ایک اچھا سماجی کارکن نوجوان اچھا سیاست دان بھی بن سکتا ہے، کیونکہ اسے عوامی مسائل کا گہرا مشاہدہ ہوتا ہے۔ ایوان بالا میں سماجی کارکن نوجوانوں کا بڑی تعداد میں پہنچنا عام مسائل سے دوچار افراد کی نمائندگی اور ان کی آواز بن سکتا ہے۔ طلبہ و طالبات‘ اپنی مدد آپ کے تحت سیلاب زدگان کی مدد کے لیے فنڈ اکٹھا کر رہے ہیں۔ ایسے درد دل رکھنے والے نوجوان معاشرے کی شان ہیں۔

وطن عزیز میں ہونے والی حالیہ شدید بارشوں سے آنے والے سیلاب نے تباہی مچا دی ہے۔ گلگت بلتستان سے لے کر کے پی کے، پنجاب، بلوچستان اور سندھ تک پانی ہی پانی ہے۔ حالیہ سیلاب سے ہونے والی تباہی 2005ء میں آنے والے زلزلے سے کہیں زیادہ ہے۔ گویا ہر طرف ایک قیامت صغریٰ بپا ہے۔ مالی نقصان تو بہرحال برداشت کیا جاسکتا ہے لیکن جو قیمتی انسانی جانیں پانی نگل گیا، یہ نقصان برداشت کرنا مشکل ہے۔

جن لوگوں سے ان کے پیارے بچھڑ گئے ہیں، ان کا غم تو انہی لوگوں سے پوچھئے۔ جن غریبوں سے یہ سیلاب ان کی چھت لے گیا، مال و اسباب، فصل، جانور لے گیا۔ کسی کا باپ، کسی کی ماں، کسی کا کڑیل جوان بھائی تو کسی کی پیاری بہن اس آبی قبر میں ہمیشہ کےلئے دفن ہوگئے۔ ان سب کا غم سنے تو کلیجہ پھٹ سا جاتا ہے۔ بقول شاعر؎

حاکم کو میرے حال سے رغبت نہیں ہوئی

بارش کا سر پہ زور ہے اور چھت نہیں کوئی

سیلاب لے گیا میرے تن کا لباس بھی

حیرت ہے اب بھی آپ کو حیرت نہیں کوئی

ہر شے کے نرخ بڑھ گئے افسوس اس کا ہے

انسان کی میرے دیس میں قیمت نہیں کوئی

ہمارے فوجی جوان ہوں، پولیس کے جوان ہوں یا پھر فلاحی تنظیموں کے نوجوان رضاکارسب اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر اس تند و تیز طوفان میں، سیلاب کی بپھری موجوں سے لڑتے ہوئے اپنے ہم وطنوں کی مدد کررہے ہیں، ان کو خوراک، خیمے اور دوائیں پہنچا رہے ہیں۔ ایسے باہمت نوجوانوں کی تعریف قلم سے ممکن نہیں ہے۔

افواج پاکستان اور پولیس کے بہادر جوان چوبیس گھنٹےدلدل، کیچڑ میں ڈیوٹیاں انجام دے رہے ہیں۔ سیلاب کی اونچی اونچی لہروں کو اپنے قدموں تلے روندتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں اور چاروں طرف سے پانی میں گھرے لوگوں کو محفوظ طریقے سے پانی سے نکال لاتے ہیں۔

کہیں فوجی جوان آرمی ہیلی کاپٹرز کے ذریعے لوگوں کو ریسکیو کر رہے ہیں تو کہیں پولیس کے جوان پانی میں تیر کر ڈوبنے والوں کو بچا رہے اور کہیں فلاحی تنظیموں کے باہمت کارکن کشتیوں کے ذریعےلوگوں کی جانیں بچا رہے ہیں۔ وہ نوجوان جن کے گھربار اور محنت سے تیار کی ہوئی فصلیں سیلاب برد ہوگئیں۔ وہ خداراہمت نہ ہاریں، صبر کریں۔ اپنے حوصلوں، اپنے جذبوں کو جوان رکھیں کیونکہ مسلمان کبھی بھی ہمت نہیں ہارتا بلکہ وہ تو اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے ہر مشکل سے ٹکراتا ہوا مسلسل آگے بڑھتا رہتا ہے کیونکہ؎

جس حال میں جینا مشکل ہو اس حال میں جینا لازم ہے

امدادی عمل ہر طرح کی سیاسی وابستگی، لسانیت، فرقے یا مذہب کی بنیاد پر نہیں ہو نا چاہئے ۔بلکہ ہر کسی کو ایک نگاہ اور ایک انسان ہونے کی حیثیت سے دیکھیں۔ نوجوانو! عوام کو مایوسی سے نکال کر تمام ممکنا اقدامات اٹھاتے ہوئے حکومت کےساتھ مل کر اور اپنے طور پر بھی بہتری کے عمل میں اپنا حصہ ڈالتے رہیں، تا کہ جلداز جلد ملک کو اس مصیبت سے نجات دلائی جا سکے اور پاکستان میں پھرسے پہلے جیسا نظام زندگی بحال ہوسکے۔ اس نازک صورتحال میں ہمیں من حیٹ القوم اپنا اہم کردار ادا کرنا چاہیے۔

کرو مہربانی تم اہلِ زمیں پر

خدا مہرباں ہوگا عرش بریں پر